قومی اداروں کی نجکاری، قائد کا پاکستان یا آئی ایم ایف کا؟

قومی اداروں کی نجکاری، قائد کا پاکستان یا آئی ایم ایف کا؟
میری بات
روہیل اکبر
قوم کو مبارک ہوکہ قومی حکومت نے قوم پر بوجھ بننے والے قومی ادارے کو ہمارے نیشنل ہیرو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے جنم دن سے دو دن پہلے 135ارب روپے میں بیچ کر قوم کی خسارے والے سودے سے جان چھڑوا دی۔ ہمارے حکمرانوں میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جس نے اپنے ادارے فروخت کیے ہوں، بلکہ حکومت میں شامل ہر فرد نے ایک ایک مل سے کئی کئی ادارے بنا لیے، لیکن ان سب کاروباری حضرات سے مل کر ایک قومی ادارہ نہ سنبھالا گیا۔ پی آئی اے سے پہلے پاکستان سٹیل ملز تباہ و برباد کی گئی اور اب پی آئی اے کی نجکاری کے بعد قائد اعظمؒ کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ( پی آئی اے) محض ایک ادارہ نہیں بلکہ یہ قومی تشخص، خود داری اور خود انحصاری کی علامت تھی وہ قومی ائر لائن جس نے ایک زمانے میں نہ صرف پاکستان کا پرچم دنیا کے کونے کونے میں لہرایا بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک کے لیے رول ماڈل بھی بنی اورر اسی رول ماڈل کو ہم نے ناسور بنا دیا جسے آخر کار کاٹنا پڑا جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوچ اور خواہشات کے سراسر منافی ہیں۔ قائداعظمؒ ایک مضبوط، خودمختار اور باوقار پاکستان کے خواہاں تھے، ان کے نزدیک قومی ادارے ریاست میں ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ 1955ء میں قائم ہونے والی پی آئی اے نے بہت کم عرصے میں وہ مقام حاصل کیا جس کا خواب شاید بڑی بڑی ایئر لائنز بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں، پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے جیٹ طیارہ متعارف کرایا۔ چین، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے لیے پروازیں شروع کیں اور کئی ممالک کی ایئر لائنز کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ وہی پی آئی اے تھی جس نے ایمریٹس، سنگاپور ایئر لائنز اور کورین ایئر جیسے اداروں کی بنیاد رکھنے میں عملی معاونت کی۔ ایک وقت تھا جب پی آئی اے کو The Great People to Fly Withکہا جاتا تھا اور اس کا عملہ دنیا بھر میں پیشہ ورانہ مہارت، شائستگی اور وقار کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ اتنی بلندی کے بعد پستی کا سفر شروع کیسے ہوا۔ دنیا کو اڑان سکھانے والا ادارہ اپنے ہی پر کٹوا بیٹھا۔ کوئی تو وجہ ہوگی نا کہ قومی ادارہ خسارے میں کیسے چلا گیا؟۔ اس کا جواب نجکاری میں نہیں بلکہ سیاسی مداخلت، نااہل تقرریوں، اقربا پروری، کرپشن اور ناقص حکمرانی میں پوشیدہ ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے پی آئی اے کو اپنے سیاسی کارکنوں کے لیے روزگار سکیم بنا دیا۔ انتظامی امور ماہرین کے بجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر چلائے گئے، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ نجکاری دراصل مسائل کا حل نہیں بلکہ قومی اثاثے کو سستے داموں فروخت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی آئی اے خسارے میں ہے تو کیا دنیا کی دیگر بڑی ایئر لائنز کو کبھی نجکاری کے نام پر فروخت کیا گیا؟۔ کیا ترکیہ نے ترک ایئر لائنز، قطر نے قطر ایئر ویز یا امارات نے ایمریٹس کو بیچ دیا؟، نہیں، بلکہ ان ممالک نے اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرکے پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلایا۔ پی آئی اے کی نجکاری دراصل اس نظریے سے انحراف ہے جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔ یہ قومی سلامتی، ایمرجنسی حالات، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی سہولت اور ریاستی وقار سے بھی جڑا ہوا معاملہ ہے۔ کسی بھی بحران میں قومی ایئر لائن ہی سب سے پہلے ریاست کے کام آتی ہے، نجی کمپنی نہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پی آئی اے کو بیچنے کے بجائے اصلاح، احتساب اور پیشہ ورانہ انتظام کی راہ اپنائی جاتی۔ قائداعظمؒ کے پاکستان میں قومی ادارے کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہونے چاہیے تھے۔ اگر ہم واقعی ان کے وژن کے امین ہیں تو ہمیں پی آئی اے کی نجکاری نہیں بلکہ قومی فخر بنانا چاہیے تھا۔ قائداعظمؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ ایک خوددار، خودمختار اور اپنے قومی اداروں پر فخر کرنے والی ریاست تھی۔ اگر وہ آج ہوتے تو شاید یہ سوال ضرور کرتے کہ کیا ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ اپنے قومی اثاثے چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیں؟۔ پی آئی اے وہ ادارہ ہے جس نے جنگوں، قدرتی آفات اور قومی بحرانوں میں ریاست کا ساتھ دیا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں ہوں یا بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کی واپسی، پی آئی اے ہمیشہ فرنٹ لائن پر کھڑی رہی۔ نجی ایئر لائن منافع دیکھتی ہے، قومی ایئر لائن قوم دیکھتی ہے۔ حکمرانوں کا موقف ہے کہ پی آئی اے خسارے میں ہے، اس لیے نجکاری ضروری ہے، مگر سوال یہ ہے کہ خسارہ ادارے کا ہے یا کرپٹ نظام کا؟۔ کیا پی آئی اے میں سیاسی بھرتیاں نہیں ہوئیں؟، کیا نااہل افراد کو اہم عہدوں پر نہیں بٹھایا گیا؟، کیا جہاز گرائونڈ کرنے، روٹس بند کرنے اور کمیشن کھانے کی کہانیاں سب کو معلوم نہیں؟۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن حکمرانوں نے پی آئی اے کو تباہ کیا، اب وہی اسے بیچنے کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے پہلے گھر کو آگ لگائی جائے اور پھر کہا جائے کہ اب ملبہ ہی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ترکیہ نے ترک ایئر لائنز کو ریاستی سرپرستی دی، قطر نے قطر ایئرویز کو قومی وقار کا مسئلہ بنایا، امارات نے ایمریٹس کو عالمی برانڈ بنایا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ خسارہ ہے اس لیے بیچ دو۔ وہاں اصلاح کی گئی، احتساب ہوا اور سیاست کو اداروں سے باہر رکھا گیا۔ لیکن ہم نے ہر ادارے میں سیاست کو اس قدر گھسیڑ دیا کہ پھر ادارے ختم ہونا شروع ہوگئے۔ پی آئی اے کی نجکاری دراصل یہ اعتراف ہے کہ ہم قومی ادارے چلانے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ یہ اعتراف ہے کہ ہم قائداعظمؒ کے وژن کے امین نہیں رہے۔ آج پی آئی اے گئی، کل ریلوے جائیگی، پرسوں سٹیل ملز اور پھر شاید پانی، بجلی اور گیس بھی۔ یہ محض ایک ایئر لائن کا معاملہ نہیں، یہ ریاست کے کردار کا سوال ہے۔ ہمارے قومی رہنمائوں کو سوچنا پڑے گا کہ کیا ہم قائداعظمؒ کے پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا آئی ایم ایف کے پاکستان میں؟۔ ایک اور بات کہ قومی ادارے بیچے نہیں جاتے، سنبھالے جاتے ہیں، اور جو ادارے نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کیسے سنبھالے گا؟۔





