Column

تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری ۔۔۔
دسمبر صرف سرد ہوائوں کا نام نہیں، یہ حسابِ زیاں کا مہینہ ہے۔ اس بار جب دسمبر کی ٹھنڈی دستک سنائی دی، تو احساس ہوا کہ ’’ تجھ سے ملے بغیر‘‘ صرف ایک شخصی محرومی نہیں رہی، بلکہ یہ ایک پوری قوم کا اپنی خوشیوں، اپنی خود مختاری اور اپنے سکون سے نہ مل پانے کا نوحہ بن گیا ہے۔ یہ سال پاکستانی تاریخ کے اس موڑ پر ختم ہو رہا ہے جہاں کیلنڈر کی تاریخیں تو بدل رہی ہیں، مگر تقدیر کے سیاہ حروف جوں کے توں ہیں۔
1۔ معاشی اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ اور عام آدمی
حقائق کی دنیا میں جھانکیں تو اس سال مہنگائی کی شرح (CPI)نے38فیصد کی تاریخی سطح کو چھوا۔ یہ محض ایک ہندسہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
: خطِ غربت، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس سال مزید 10ملین ( ایک کروڑ) سے زائد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے چلے گئے۔
بجلی کے بلوں کا عذاب: بجلی کی قیمتوں میں بنیادی ٹیرف اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جو اضافہ ہوا، اس نے متوسط طبقے کو ’’ سفید پوشی‘‘ کے بھرم سے محروم کر دیا۔ آج ایک عام مزدور کی ماہانہ اجرت کا آدھا حصہ صرف بجلی کے بل کی نذر ہو جاتا ہے۔
2۔ صنعتی انخلاء : ایک خاموش قبرستان
آپ نے درست ذکر کیا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جا رہی ہیں۔ اس کی ٹھوس وجوہات میں ڈالر کی قیمت میں غیر یقینی استحکام اور منافع باہر نہ بھیج سکنے کی پابندیاں تھیں۔
آٹو سیکٹر: ٹیوٹا اور ہونڈا جیسے بڑے پلانٹس نے مہینوں ’’ نان پروڈکشن ڈیز‘‘ (NPDs)کا سامنا کیا۔ پرزہ جات کی درآمد پر پابندی نے ہزاروں ڈیلی ویجز ورکرز کو سڑک پر لا کھڑا کیا۔
ٹیلی کام اور ٹیک: ٹیلی نار کی فروخت اور وارد کا انضمام ظاہر کرتا ہے کہ اب یہ ملک عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ’’ پرکشش‘‘ نہیں رہا۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری: فیصل آباد کی 40فیصد سے زائد پاور لومز اور گارمنٹس یونٹس بجلی کی قیمت اور خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔
3۔ برین ڈرین (Brain Drain): ہجرت کا دکھ
اس سال کے اعداد و شمار لرزہ خیز ہیں۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق، صرف ایک سال میں تقریباً 8لاکھ سے زائد نوجوانوں نے ملک چھوڑا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی ماہرین شامل تھے۔ یہ لوگ وطن دشمن نہیں تھے، یہ اس بے یقینی سے بھاگے ہوئے مسافر تھے جہاں محنت کا صلہ سفارش اور قابلیت کا صلہ بے روزگاری کی صورت میں مل رہا تھا۔
4۔ اداروں کی نیلامی اور قرضوں کا جکڑ بند
پی آئی اے کا ذکر ایک زخم کی طرح ہے۔ جس ادارے نے دنیا کی بڑی ایئر لائنز ( جیسے ایمریٹس) کی بنیاد رکھنے میں مدد دی، وہ آج کوڑیوں کے دام بک گیا ہے۔
قرضوں کا بوجھ: پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 70ٹریلین ( کھرب) روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ہم نئے قرضے صرف پرانے قرضوں کا سود اتارنے کے لیے لے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں آنے والی نسلوں کے خواب ابھی سے رہن رکھ دئیے گئے ہیں۔
5۔ عدل اور سیاست: ایک تضاد
سیاسی طور پر یہ سال ’’ عزت نفس کی پامالی‘‘ کا سال رہا۔
سیاسی قیدی: ملک کے مقبول ترین لیڈر کی اسیری اور اسے ملنے والی سزائوں نے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگائے۔ آئینی ترامیم: 26ویں، 27آئینی ترامیم جیسے اقدامات نے عدلیہ کی آزادی کو انتظامیہ کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح جج صاحبان کو دبائو کا سامنا کرنا پڑا، اس نے ’’ قانون کی حکمرانی‘‘ کے تصور کو دھندلا دیا۔
اختتامیہ: امید کا دیا کہاں ہے؟
اسٹاک ایکسچینج کا 90ہزار کی حد عبور کرنا ان لوگوں کے لیے تو خوشی کی بات ہو سکتی ہے جو ’’ سرمایہ دار‘‘ ہیں، مگر اس سے ’’ شہر خواب‘‘ کے باسیوں کے چولہے نہیں جلے۔
دسمبر رخصت ہو رہا ہے، اور پیچھے ایک ایسی قوم چھوڑ کر جا رہا ہے جو تھک چکی ہے۔
’’ تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا‘‘ کا مطلب اب یہ ہے کہ ہم ایک اور سال اپنی حقیقی آزادی، معاشی انصاف اور سماجی برابری سے ملے بغیر گزار چکے ہیں۔
آخر میں حسب حال افسانہ حساب بے زباں ۔۔۔۔
حسابِ بے زباں
اوچ شریف کی قدیم گلیوں میں دسمبر کی دھند کسی اداس یاد کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بختیار شاہ کی دکان کے باہر ایک پرانا ریڈیو کسی گھرگھراہٹ کے ساتھ ملک کے معاشی حالات کا نوحہ سنا رہا تھا۔
’’ اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی۔۔۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری‘‘۔۔۔
بختیار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور سامنے پڑے میلے سے رجسٹر پر نظر ڈالی، جس میں ’’ ادھار‘‘ کے کالم تاحیات عہدوں کی طرح طویل ہوتے جا رہے تھے۔ اس کی اپنی کمر جھک گئی تھی، مگر ادھار کا بوجھ نہیں کم ہو رہا تھا۔ وہ پچھلے تیس سال سے اس شہر میں محنت کر رہا تھا، مگر اسے لگا کہ جیسے اس سال وقت کے پہیے نے پیچھے کی طرف چلنا شروع کر دیا ہے۔
’’ شاہ جی! ایک پائو گھی اور آدھا کلو چینی دینا‘‘، گلی کے ایک مزدور، اللہ دتہ نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے تھیلی آگے کی۔بختیار نے گھی کا ڈبہ کھولا تو اسے لگا جیسے وہ گھی نہیں، کسی کی سفید پوشی نکال رہا ہو۔ ’’ اللہ دتے، پچھلا حساب تو ابھی وہیں کھڑا ہے جہاں پی آئی اے کا خسارہ‘‘۔
اللہ دتہ کی آنکھوں میں ویرانی اتر آئی: ’’ شاہ جی! فیصل آباد کی فیکٹری بند ہوئی تو میرا بیٹا گھر آ گیا۔ کہنے لگا اب ملک میں صرف سانس مہنگی نہیں ہوئی، خواب بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ وہ تو اب ’ ڈنکی‘ لگا کر باہر جانے کی باتیں کرتا ہے۔ کہتا ہے اب یہاں پی اینڈ جی جیسی کمپنیاں نہیں رہتیں تو ہم جیسے مزدوروں کا کیا بنے گا؟‘‘۔
ریڈیو پر اب کسی آئینی ترمیم کا ذکر ہو رہا تھا، جس میں طاقت کے نئے توازن اور عہدوں کی طوالت کا جشن تھا۔ بختیار نے ایک پرانا اخبار اٹھایا جس کی سرخی تھی: ’’ تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا‘‘۔
اس نے سوچا، ’’ تجھ سے‘‘ کا مطلب شاید وہ ’ روٹی‘ تھی جو غریب کی پہنچ سے دور ہو گئی، یا وہ ’ انصاف‘ جو صرف فائلوں میں قید رہ گیا‘‘ ۔
’’ شاہ جی! کیا سچ مچ سب ٹھیک ہو رہا ہے؟‘‘، اللہ دتہ نے ریڈیو کی طرف اشارہ کیا۔
بختیار نے خاموشی سے ترازو کے پلڑے برابر کیے۔ ایک طرف غریب کی بھوک تھی اور دوسری طرف وہ اعداد و شمار جن کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔
’’ اللہ دتے! ہنڈرڈ انڈیکس اوپر جائے یا نیچے، تمہاری ہنڈیا کا درجہ حرارت تو کم ہی رہتا ہے۔ تاحیات عہدے ان کے لیے ہیں جن کے پاس زندگی بچانے کے اسباب ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیی تو صرف تاحیات انتظار ہے‘‘۔
شام کی اذان ہوئی تو اوچ شریف کے در و دیوار پر چھائی دھند مزید گہری ہو گئی۔ بختیار نے دکان کا شٹر گرایا۔ اسے لگا کہ یہ دسمبر صرف ایک مہینہ نہیں، ایک پوری امید کو دفن کر کے جا رہا ہے۔
اس نے ڈائری نکالی اور آخری صفحے پر لکھا: ’’ اس سال دسمبر نے صرف کیلنڈر نہیں بدلا، غریب کی کمر کا زاویہ بھی بدل دیا ہے‘‘۔
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو خود سرسری تھا وہ دل میں اتر گیا
محسن یہ رنگ رُوپ یہ رونق بجا مگر
میں زندہ کیا رہوں کہ مِرا جی تو بھر گیا

جواب دیں

Back to top button