انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کہاں ہے ؟

انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کہاں ہے ؟
قادر خان یوسف زئی
مشرقِ وسطیٰ کے افق پر چھائی ہوئی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا واقعی امن کی جانب بڑھتا ہوا کوئی ٹھوس قدم؟، یہ وہ سوال ہے جو آج ہر صاحبِ بصیرت تجزیہ نگار کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پر بارود کی بو اگرچہ عارضی طور پر کم ضرور ہوئی ہے مگر سفارتی ایوانوں میں ہونے والی کھسر پھسر اور طاقت کے مراکز میں جاری جوڑ توڑ بتا رہی ہے کہ جو کچھ بظاہر نظر آ رہا ہے، حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور خوفناک ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے ساتھ ہی جس طرح ’’ غزہ امن منصوبے‘‘ کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، وہ بلاشبہ ایک اہم پیش رفت تھی، مگر اب جبکہ ہم اس معاہدے کے دوسرے مرحلے یعنی فیز ٹو کی دہلیز پر کھڑے ہیں، تو رکاوٹوں کے پہاڑ یہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ امن کا یہ خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہونا باقی ہے۔
اکتوبر 2025ء میں جب شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس نے مصری اور قطری ثالثی کے ساتھ ٹرمپ کے 20نکاتی منصوبے پر دستخط کیے، تو اسے ایک تاریخی فتح قرار دیا گیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید اب خونریزی کا وہ باب بند ہو جائے گا جس نے انسانیت کو شرما دیا تھا۔ پہلے مرحلے پر عملدرآمد ہوا، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہوئی اور فلسطینی قیدی اپنے گھروں کو لوٹے، لیکن اس معاہدے کی بنیادوں میں موجود دراڑیں اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ جس پر اب یہ پورا امن عمل رکا ہوا ہے، وہ حماس کے غیر مسلح ہونے (Disarmament) کا معاملہ ہے۔ مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل، اس بات پر بضد ہیں کہ غزہ کے مستقبل کے لیے حماس کا مکمل خاتمہ یا کم از کم اس کا غیر مسلح ہونا ناگزیر ہے۔ نیتن یاہو کا یہ بیانیہ کہ ’’ حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے، چاہے آسانی سے یا طاقت سے‘‘ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل اس جنگ بندی کو محض ایک وقفہ سمجھتا ہے، امن نہیں۔ دوسری جانب خالد مشعل اور حماس کی قیادت کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان کا یہ موقف کہ ’’ مزاحمت ہماری روح ہے اور ہتھیار ہماری بقا‘‘ محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک تزویراتی حقیقت ہے۔ وہ لبنان کی مثال سامنے رکھتے ہیں جہاں غیر مسلح ہونے کا مطلب اسرائیل کے رحم و کرم پر ہونا ہے۔ حماس کی تجویز کہ ہتھیاروں کو ’’ منجمد‘‘ یا ذخیرہ کر دیا جائے مگر فلسطینی کنٹرول میں رکھا جائے، اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہے، اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں ’’ فیز ٹو‘‘ کی گاڑی بری طرح پھنس چکی ہے۔
آٹھ مسلم ممالک کا یہ اتحاد، جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس معاہدے کی ضمانت دی ہے، دراصل ایک بڑا جوا کھیل رہا ہے۔ اگر یہ معاہدہ ناکام ہوتا ہے تو ان مسلم ممالک کی سفارتی ساکھ کو شدید دھچکا لگے گا۔ ترکی اور مصر کے لیے یہ مسئلہ ان کی سرحدوں اور داخلی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ مصر رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ کا واحد سانس لینے کا راستہ ہے، مگر قاہرہ پر مغربی دبا اور اسرائیلی سیکورٹی کے خدشات نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ دوسری طرف قطر کی خاموش مگر موثر سفارت کاری نے ثابت کیا ہے کہ وہ خطے کا ایک ناگزیر کھلاڑی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم دنیا اسرائیل کو اس بات پر مجبور کر سکے گی کہ وہ حماس کو غیر مسلح کیے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف بڑھے؟ فی الحال اس کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔یورپی یونین کا کردار اس پوری کہانی میں ایک ’’ بینکر‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ارب یورو کی امداد کا اعلان کر کے یورپ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، مگر سیاسی طور پر برسلز کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یورپی یونین کی خواہش ہے کہ وہ ’’ بورڈ آف پیس‘‘ کا حصہ بنے، مگر جب تک وہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف واضح موقف نہیں اپناتی، اس کی حیثیت ایک فنڈنگ ایجنسی سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ادھر ایران کا موقف اس پورے کھیل میں سب سے زیادہ محتاط اور پیچیدہ ہے۔ تہران بظاہر جنگ بندی کی حمایت کر رہا ہے، مگر پسِ پردہ وہ جانتا ہے کہ یہ معاہدہ دراصل مزاحمتی محور (Axis of Resistance) کو کمزور کرنے کی ایک امریکی سازش ہو سکتی ہے۔ ایرانی قیادت کی جانب سے حماس کو یہ یقین دہانی کہ ’’ سیاسی اور عسکری کردار پر سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘۔ ایک اور اہم پہلو جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ’’ انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس‘‘ (ISF)کا قیام ہے۔ یہ فورس غزہ میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تجویز کی گئی تھی، مگر حیرت انگیز طور پر تین ماہ گزرنے کے باوجود کوئی بھی ملک اپنی فوج اس آگ میں جھونکنے کو تیار نہیں۔ نہ تو عرب ممالک اپنی فوجیں بھیج کر اپنے ہی فلسطینی بھائیوں کی خلاف پولیس مین کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی مغربی ممالک غزہ کی دلدل میں پھنسنا چاہتے ہیں۔ سکیورٹی کے اس خلا کو کون پر کرے گا؟ اگر یہ خلا برقرار رہا تو پھر تصادم ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ ایک لاپتہ اسرائیلی یرغمالی، ران گویلی، کی باقیات کا معاملہ بھی ایک جذباتی اور سیاسی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے اس ایک نکتے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی معلق ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ سیاست اور طاقت کے ایوانوں میں انسانی جانوں کی قیمت اعداد و شمار سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ غزہ کی پٹی اب وہ نہیں رہی جو دو سال پہلے تھی۔ ملبے کے ڈھیروں کے نیچے صرف عمارتیں نہیں بلکہ ایک پوری نسل کے خواب دفن ہیں۔ تعمیرِ نو کے لیے بیس سال کا عرصہ درکار ہے، مگر جب تک سیاسی افق صاف نہیں ہوتا، کوئی بھی سرمایہ کار یا ملک وہاں اربوں ڈالر لگانے کو تیار نہیں۔ یہ معاہدہ، جسے ’’ صدی کا بہترین منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، درحقیقت ریت کی دیوار ثابت ہو رہا ہے۔ حماس کا یہ خوف کہ ہتھیار پھینکنے کے بعد ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں پی ایل او (PLO)کا ہوا، بالکل بجا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی کمزور فریق کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھا۔ اس لیے مزاحمت کا راستہ چھوڑنا فلسطینیوں کے لیے اجتماعی خودکشی کے مترادف ہے۔





