Column

خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ایک بار ایک دیہات میں دو آدمی لڑ رہے تھے۔ ایک طاقتور تھا، دوسرا کمزور۔ طاقتور شخص نے پہلے اُس کی قمیض پھاڑی، پھر زمین پر پٹخ دیا۔ لوگ وہاں کھڑے تماشہ دیکھتے رہے۔ کسی نے آگے بڑھ کر ہاتھ نہ پکڑا، کسی نے لڑائی رکوانے کی کوشش نہ کی۔ کمزور آدمی نے خون آلود چہرے کے ساتھ صرف اتنا کہا:’’ تم لوگوں کی خاموشی کا مطلب کہ تم سب میرے ساتھ نہیں، اس کے ساتھ کھڑے ہو‘‘۔ یہ جملہ اُس کے خون سے زیادہ جلا دینے والا تھا۔ اور اصل حقیقت یہی ہے ، ظالم سے زیادہ خطرناک وہ لوگ ہوتے ہیں، جو تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں خاموش رہ کر ہم خود کو بچا لیتے ہیں۔ لیکن نہیں۔ ہم دراصل وہ اینٹ بن جاتے ہیں، جس پر ظلم کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ظالم اپنی طاقت پر نہیں چلتا، وہ تماشائیوں کی خاموشی پر چلتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی نہیں آئے گا، اسے کوئی روکنے والا نہیں، کیونکہ لوگ اپنی زندگی، اپنی دُنیا، اپنی جیب، اپنی نوکری، اپنی حفاظت، اپنی سہولت اور اپنی ’’ چلو یار جانے دو‘‘ والی، بے حسی کے محافظ ہیں۔ ہمارے شہروں، دیہاتوں، گلیوں، دفتروں میں ایسے سیکڑوں چھوٹے بڑے ظلم روز ہوتے ہیں۔ کوئی ناانصافی کا شکار ہوتا ہے، کوئی کمزور پٹتا ہے، کسی کا حق مارا جاتا ہے، کوئی آواز دبائی جاتی ہے، اور ہم سب کی نظریں پہلے پہلو بدلتی ہیں، پھر پیچھے ہو جاتی ہیں، پھر مکمل خاموش۔ اور یہ خاموشی، یہ حقیقت میں ظلم کا ایندھن ہے۔ آپ کبھی سوچیں، اگر ہر شخص ایک قدم آگے بڑھ کر ناانصافی کے سامنے کھڑا ہو جائے، تو کیا ظلم اتنا طاقتور رہ جائے گا؟ کیا کوئی زبردست، کوئی صاحبِ اثر، کوئی طاقتور شخص اپنے تیور دکھا سکے اگر اس کو پتہ ہو کہ دس لوگ اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے؟ جو معاشرے ’’ ظلم‘‘ سے نہیں ڈرتے، وہ ’’ لوگوں کی خاموشی‘‘ سے ضرور ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، اپنی اپنی جنگوں میں مصروف ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ظلم صرف اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اچھے لوگ کمزور پڑ جائیں۔ اور اچھے لوگ کمزور اس وقت پڑتے ہیں جب وہ اپنی زبانیں سی لیتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت مگر ناقابلِ انکار بات ، ظالم کو تمہاری تائید کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف تمہاری خاموشی کافی ہوتی ہے۔
پروین شاکر کا شعر ہے:
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
معاشروں کی تباہی ہمیشہ ہتھیار اٹھانے والوں، ریاستیں الٹنے والوں یا طاقت کے گھمنڈ میں دوسروں کا حق غصب کرنے والوں سے نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی معاشرے کو وہ لوگ بھی اتنی ہی شدت سے نقصان پہنچاتے ہیں، جو براہِ راست برائی تو نہیں کرتے مگر خاموشی کے ذریعے ظالم کا ہاتھ مضبوط بنا دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے فتنوں کو جنم دینے والے چند افراد ہوتے ہیں، مگر اُن کے سامنے لاکھوں ایسے ہوتے ہیں جو ’’ میرا اس سے کیا تعلق‘‘ کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے یہ سبق ہی نہیں سیکھا کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا، خود ظلم کا حصہ بن جانا ہے۔ جب کسی کا گھر قبضہ جائے، تو ہم تماشائی بن کر کھڑے رہتے ہیں۔ جب کسی کے ساتھ ناانصافی ہو، تو ہم نظریں چرا لیتے ہیں۔ جب کسی کمزور کو دبایا جا رہا ہو، تو ہم صرف اس لیے بولنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارا سکون، ہماری ملازمت، ہمارے روابط یا ہماری دنیا متاثر نہ ہو جائے۔ ایسی سوچیں بظاہر ہمیں محفوظ رکھتی ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ہم سب کو اجتماعی طور پر اخلاقی تباہی کے کنارے دھکیل دیتی ہیں۔ ایک معاشرہ اُس وقت کمزور ہوتا ہے، جب اس کے افراد اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لیں۔ ظلم صرف ظالم کی وجہ سے نہیں چلتا، بلکہ اُن قدموں سے بھی چلتا ہے، جو خاموش تماشائیوں نے پیچھے ہٹاتے ہوئے میدانِ ظلم کے لیے خالی چھوڑ دئیے ہوتے ہیں۔ خاموشی کبھی غیر جانبداری نہیں ہوتی، یہ اکثر ظالم کی تائید بن جاتی ہے۔ اُس کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اسے یقین دلاتی ہے کہ اُس کے سامنے کوئی کھڑا ہونے والا نہیں۔ آواز اُٹھانا ہمیشہ بغاوت نہیں ہوتا، کبھی کبھی یہ انسانیت کی آخری بھٹی میں باقی رہ جانے والی حرارت ہوتی ہے۔ ہم سب اگر دل کی کم از کم ایک دھڑکن ظلم کے خلاف محسوس کر سکیں، زبان سے ایک جملہ کہہ سکیں، یا ہاتھ سے ایک چھوٹا سا قدم اُٹھا سکیں، تو معاشرے میں روشنی کی ایک نئی کرن جنم لے سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہی سوچتے رہے کہ ’’ مجھے کیا ضرورت ہے؟‘‘، تو پھر وہ دن دور نہیں جب برائی کا سیلاب سب کو بہا لے جائے گا، چاہے ہم نے خود ایک قطرہ بھی شامل نہ کیا ہو۔
’’ جو سچ پر خاموش رہے، وہ جھوٹ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے‘‘۔
یہ صرف ایک جملہ نہیں، ایک آئینہ ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس میں اپنا عکس دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے یا نہیں ؟ ۔

جواب دیں

Back to top button