شکر اور صبر: مشکل حالات میں کامیابی کا راستہ

شکر اور صبر: مشکل حالات میں کامیابی کا راستہ
کالم نگار: امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
انسانی زندگی دراصل آزمائشوں، امتحانوں اور نشیب و فراز کا مجموعہ ہے۔ کوئی بھی زمانہ مکمل طور پر آسان نہیں ہوتا، البتہ ہر دور کی مشکلات اپنی نوعیت اور شدت میں مختلف ضرور ہوتی ہیں۔ موجودہ عہد کو اگر دیکھا جائے تو یہ معاشی دبا، سماجی بے چینی، اخلاقی زوال اور فکری انتشار کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، بے روزگاری نوجوانوں کو مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہے اور عدم برداشت نے معاشرتی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں اگر انسان کے پاس کوئی حقیقی سہارا موجود ہے تو وہ صبر اور شکر جیسی بنیادی مگر طاقتور صفات ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں صبر اور شکر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد اور قربت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ صبر کو عام طور پر غلط معنی پہنا دئیے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صبر کو کمزوری، خاموشی یا ظلم سہنے کا نام سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ صبر دراصل مضبوط اعصاب، پختہ کردار اور گہری بصیرت کی علامت ہے۔ صبر انسان کو جذبات کے طوفان میں بہنے سے بچاتا ہے اور اسے حالات کا سامنا کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔
مشکل حالات میں صبر اختیار کرنے والا فرد وقتی نقصان یا تکلیف سے گھبرا کر غلط فیصلے نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اور آزمائشوں کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ یہی یقین انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مایوسی ایک اجتماعی مرض بن چکی ہے۔ نوجوان روزگار نہ ملنے پر بددل ہیں، متوسط طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے اور غریب آدمی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو انسان منفی رویوں، غصے اور بددلی کا شکار ہو جاتا ہے، جو بالآخر فرد اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
صبر کے ساتھ ساتھ شکر گزاری بھی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کی زندگی میں غیر معمولی تبدیلی لا سکتی ہے۔ شکر صرف زبان سے ادا کیے گئے چند الفاظ کا نام نہیں بلکہ دل کی کیفیت، سوچ کے زاویے اور عملی رویے کا نام ہے۔ شکر انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ صحت، ایمان، خاندان، عزت، عقل اور سانس لینے کی مہلت ایسی نعمتیں ہیں جن پر اکثر انسان توجہ نہیں دیتا، حالانکہ یہی اصل دولت ہیں۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ شکر صرف روحانی سکون ہی نہیں بلکہ عملی برکتوں اور ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ شکر گزار انسان محرومی کے احساس میں مبتلا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنی توجہ کمیوں کے بجائے موجود نعمتوں پر مرکوز رکھتا ہے۔ یہی مثبت سوچ اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے اور اسے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون بناتی ہی۔
آج ہمارا معاشرہ شکایت اور شکوے کی عادت میں بری طرح مبتلا ہو چکا ہے۔ ہر شخص حکومت، نظام، حالات اور تقدیر کو کوسنے میں مصروف ہے۔ مسائل کی نشاندہی یقیناً ضروری ہے، مگر مسلسل شکوہ اور منفی گفتگو مسائل کا حل نہیں۔ اگر ہم یہی توانائی صبر، شکر اور عملی جدوجہد میں صرف کریں تو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی مثبت تبدیلی ممکن ہے۔ صبر ہمیں برداشت، تحمل اور استقامت سکھاتا ہے، جبکہ شکر ہمیں قناعت، عاجزی اور مثبت طرزِ فکر عطا کرتا ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کامیابی ہمیشہ ہموار راستوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ انبیاء کرام، صحابہ کرام اور دنیا کی عظیم شخصیات نے شدید آزمائشوں، مخالفتوں اور مشکلات کا سامنا کیا، مگر انہوں نے صبر اور شکر کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وقتی تکالیف کے باوجود دائمی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ ان کے لیے صبر کمزوری نہیں بلکہ قوت تھا اور شکر محرومی نہیں بلکہ خوشحالی کا ذریعہ۔
آج کے پُرآشوب دور میں ہمیں وقتی نعروں، جذباتی فیصلوں اور فوری حل کے فریب سے نکل کر صبر اور شکر جیسے پائیدار اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ اگر ہم مشکل میں صبر اور آسانی میں شکر کو اپنا شعار بنا لیں تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی سنور سکتی ہے بلکہ ایک متوازن، پُرامن اور مضبوط معاشرہ بھی تشکیل پا سکتا ہے۔ یہ اوصاف ہمیں حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتے ہیں اور ہمیں بہتر انسان بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ صبر انسان کو ٹوٹنے سے بچاتا ہے اور شکر انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ جو فرد اور قوم ان دونوں صفات کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لے، اسے حالات کی سختیاں کبھی شکست نہیں دے سکتیں۔ یہی کامیابی کا اصل راستہ ہے اور یہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔





