قائداعظم ؒ کا احسان۔ ہمارا پاکستان

قائداعظم ؒ کا احسان۔ ہمارا پاکستان
تحریر: محمد ساجد قریشی الہاشمی، سابق انجینئرنگ مینجر، ریڈیو پاکستان
پچھلے دنوں بھارتی صوبہ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک تقریب میں نوکریوں کے تقرر نامے تقسیم کرتے ہوئے ایک مسلمان ڈاکٹر لڑکی، جس نے نقاب پہنا ہوا تھا، کمال بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا نقاب نوچ ڈالا جس کے ردعمل کے طورپر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو، سکھ اور عیسائیوں سمیت پورا بھارت سراپا احتجاج بن گیا۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ جب سے مسلمان انگریزوں کے محکوم بنے تو ہندو اپنی اکثریت کے زعم میں مسلمانوں سے پچھلے ایک ہزار سال کی اپنی نام نہاد غلامی کا بدلہ لینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ مسلم حکومتوں میں انہیں کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنگ آزادی کے بعد مسلمان انگریزوں کے زیرعتاب تو تھے ہی لیکن ہندو بھی ان کی خلاف صف آرا ہوگئے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ جلد یا بدیر انگریزوں کی رخصتی کے بعد ہندوستان کے اقتدار کا ہما ان کے ہی سرپر بیٹھے گا اس لیے وہ اپنے علاوہ کسی قوم کو بھی ہندوستانی تسلیم کرنے پہ تیار نہ تھے۔ مسلمانوں کے لیے وہ دور انتہائی کٹھن اور تکلیف دہ تھا اور انہیں اپنی علیحدہ شناخت کے تحفظ کی ایک بہت بڑی آزمائش کا سامنا تھا۔ ان نامساعد حالات میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں ایک امید کی کرن نظر آئی جنہوں نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی بحالی اور ہندو اکثریت میں ان کے بحیثیت ایک علیحدہ قوم کے منوانے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے ہندوستان میں صرف ایک قوم ہونے کے ہندوئوں کے دعوے کو باطل قرار دیتے ہوئے انگریزوں سے مسلمانوں کی ایک علیحدہ قوم کے طورپر حیثیت کو منوا لیا جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنی اور اسی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر علامہ محمد اقبالؒ نے1930ء کے مسلم لیگ کے الہ آباد کے اجلاس میں ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا۔ قائداعظم ؒنے تاریخی اور معروضی حقائق کی بناء پر بھرپور دلائل سے علیحدہ مسلم قومیت کے مقدمے میں کامیابی حاصل کی۔ قائد اعظمؒ شروع میں تو ہندو مسلم اتحاد کے زبردست قائل تھے لیکن ہندوئوں کے متعصبانہ رویے نے انہیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے یہ یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا قیام ازبس ضروری ہے ورنہ وہ ہندو اکثریت کے سمندر میں غرق ہو جائیں گے۔ قائداعظمؒ کی یہ سوچ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی گویا ان کے اندر چھپی ہوئی اس خواہش کو زبان مل گئی اور پورے ہندوستان میں سب مسلمان پیر و جوان اور مرد و عورت کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ ’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان ، لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمان اپنے عزم صمیم سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہی چلے جارہے تھے اور 23مارچ 1940 ء کو وہ مبارک ساعت آہی گئی اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی قرارداد کثرت رائے سے منظور ہوگئی اور صرف سات سال کے عرصے میں ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھری اور مسلمان کشاں کشاں اپنے اس علیحدہ وطن کی طرف رواں دواں ہوگئے کہ جہاں وہ اپنی مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں گے۔ پاکستان کے قیام سے گویا مسلمانوں کو ایک گوہر مراد حاصل ہوگیا اور پورے ہندوستان سے مسلمان اپنی آرزئوں کی منزل کی طرف عازم سفر ہوئے تو ہندو متشدد جتھوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی محبت میں پاگل کچھ کانگریسی مسلمان بھی ان کی راہ میں حائل ہوئے اور مسلمانوں کو بغیر کسی رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ کے امتیاز کے بغیر ایک مہان بھارت کا سندیش دیاتھا اور یہ خواب دکھانے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل تھے جن کی یقین دہانی پر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ ترک کرکے اپنے ہندو اور سکھ ہم وطنوں کے ساتھ مل کر ’’ وندے ماترم‘‘ کا نعرہ بھی لگایا، اور وہ ان کے ساتھ مل کر’’ سارے جہاں میں اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ کا راگ بھی الاپا لیکن جیسے جیسے بھارت کے اس چہرے پر سے نقاب اترا اور پنڈت نہرو کی منافقانہ مسکراہٹ کی جگہ ان کی کرخت صورت سامنے آئی تو بھارت کے مسلمان تو کیا چھوٹی ذاتوں کے ہندو ، سکھ اور عیسائی بھی سر پکڑکر بیٹھ گئے اور وقت نے دیکھا کہ آنے والے بھارت میں ان لوگوں کے لیے زندگی ایک بھیانک خواب بن کر رہ گئی ۔ اسی بھارت میں ہرروز مسلمانوں کو بھارتی ہندو غنڈوں کی تضحیک اور تشدد کا نشانہ بننا پڑتا اور انہیں کسی طرف سے بھی داد رسی کی کوئی کرن نظر نہ آتی اور موجودہ دنوں میں بھارت میں ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ بہیمانہ سلوک پر پورے بھارت کے نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے پسے ہوئے طبقات بھی بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دور اندیش بصیرت کے قائل ہوگئے اور اپنے پرکھوں کے فیصلے پر پشیمان ہوئے کہ قائداعظمؒ کی بات نہ مان کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کی۔ قائداعظمؒ کی دور بین نگاہوں نے بھارت کے اس بہیمانہ چہرے کو بہت پہلے پہچان لیا تھا اور انہوں نے اپنی قوم کو ہندو اکثریت کے سمندر میں غرق ہونے سے بچاکر ان کے سروں پرایک باعزت اور باوقار سائبان مہیا کر دیا۔ قائداعظم ؒکی کرشماتی شخصیت میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک نجات دہندہ کی تصویر دیکھ لی تھی اور انہیں یہ یقین ہو گیا تھاکہ یہی وہ شخصیت ہے جو انہیں ان کی منزل پر کامیابی سے پہنچا سکتی ہے۔ قائداعظم ؒ نے اپنی فراست اور نیک نیتی سے ایک منتشر اور بکھری ہوئی قوم کو ایک مرکز پر لاکر ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا اور اس پر کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹینلے وولپرٹ نے اپنے کتاب ، ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں لکھا کہ ’’ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے کہ جو ایک نئی مملکت قائم کر دے اور محمد علی جناحؒ ایسی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سرانجام دئیے‘‘ ۔ قائداعظمؒ نے اپنی مسحور کن شخصیت سے ایک شکست خوردہ اور بی چارگی میں مبتلا قوم میں جوش و جذبہ پیدا کرکے انہیں ایک عظیم مقصد اور ایک منزل کی طرف گامزن کیا۔ آزادی کی نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں اور آزادی کا ایک سانس غلامی کے کروڑوں سانسوں سے بہتر ہے اور قائداعظمؒ کاہی یہ احسان ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو دنیا میں رہنے کے لیے ایک باوقار وطن لے کر دیا جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے جس کے پوری پاکستان قوم ان کی تا حشر احسان مند رہے گی اور ان کے 150ویں یوم پیدائش پر انہیں بھرپور خراج ِ عقیدت پیش کرتی ہے!!!
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔۔۔
اے قائداعظم ! تیرا احسان ہے احسان
( فیاض ہاشمی)





