
جگائے گا کون؟
چیف صاحب رعایا کے حقوق والی کوئی آیت؟
تحریر: سی ایم رضوان
گزشتہ روز گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور مولانا فضل الرحمان کی میڈیا سے باہمی گفتگو اس وقت دلچسپ موڑ لے گئی جب گورنر سندھ نے بتایا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس بنا پر آج سے ہم مولانا کو ڈاکٹر کہہ سکتے ہیں جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں پھر بھی ڈاکٹر کی بجائے خود کو مولانا کہلوانا پسند کروں گا۔ یہی حال موجودہ پاکستانی حکمرانوں کا ہے کہ آج دنیا بھر میں پاکستان کی پذیرائی، وقار اور قدر میں سو گنا اضافہ ہو چکا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ سمیت موجودہ حکومتی رجیم عوام کو مہنگائی، کرپشن، بیروزگاری اور لاقانونیت سے تحفظ جیسے بنیادی عوامی حقوق دینے کا ازلی کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے سے ہٹانے کو تیار نہیں۔ آج دنیا سمجھ رہی ہے کہ اس کے پاس دنیا کے جدید ترین اسلحے کے ذخائر ہیں اور امریکی صدر دن میں کئی بار اس ملک کی تعریف کرتا ہے مگر پاکستان کی اصلی معاشی حالت یہ ہے کہ اس کے لاکھوں بچے آج بھی خالص دودھ کے ایک پائو فیڈر کو ترستے بھوکے سو جاتے ہیں۔ لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کی نوکریوں کی تلاش میں پھرتے جوتیاں گھس گئی ہیں اور وہ اپنی قابلیت اور ڈگریوں کے مطابق باعزت روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ کر باہر چلے جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس جہاز کا کرایہ نہیں۔ لاکھوں شہریوں کو گوشت، دودھ اور خوراک کے نام پر ملاوٹ شدہ زہر دیا جا رہا ہے اور وہ بصد شکر کھانے پر مجبور ہیں۔ مصنوعی مہنگائی کر کے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی تو کھلی چھٹی ہے مگر موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہنوانا اولین حکومتی ترجیح بنی ہوئی ہے۔ مجرموں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کے لئے سپیشل فورسز دھڑا دھڑ بن رہی ہیں مگر خریدوفروخت سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کرانے والی پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنانے یا فعال کرنے کا خیال ہونہار وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی کبھی نہیں آیا۔ ٹھیک ہے چاچو بیرون ملک دوروں میں مصروف رہتے ہیں۔ لہٰذا وفاقی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنا ذرا مشکل ہے مگر پنجاب میں تو کارکردگی کے بڑے چرچے ہیں۔ ملک بھر کی عدالتوں میں عام سائلین کے لئے انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ تھانوں میں رشوت عام ہے۔ تعلیم اور صحت مکمل طور پر تجارت بن گئی ہے۔
یہ بات سو فیصد قابل فخر، باعث صد شکر ہے کہ گزشتہ مئی میں بھارت نے حملہ کیا تو ہمارے عظیم سپہ سالار نے اس کے خلاف معرکہ حق کا آغاز کرتے ہوئے بنیان مرصوص کے نام سے آیات مقدسہ کی روح پرور اور اثر انگیز تلاوت فرما کر عسکری آپریشن ایسا شروع کیا کہ امریکی صدر جیسے دنیا کے بے حس، جابر اور قاہر حکمران پر بھی دھاک بیٹھ گئی۔ قرآنی احکامات کے مطابق اندرون ملک خارجیوں اور سوشل میڈیا پر موجود ملک دشمنوں کے خلاف آپریشن بھی اچھی بات ہے۔ بلاشبہ پاکستان وقار، استحکام اور سربلندی کی منازل روز افزوں طے کر رہا ہے۔ یہ امر باعث صد ستائش اور صد شکرانہ ہے کہ فیلڈ مارشل اس حوالے سے اسلام اور قرآن سے رہنمائی لیتے ہوئے ملک کو دنیا کے نقشے پر ایک قابل فخر ریاست کے طور پر منوانے کے لئے قرآنی آیات کی تلاوت کرتے اور اسلامی تاریخ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مگر مہنگائی، کرپشن اور لاوارثی کی زندگی گزارنے والا ایک عام پاکستانی بصد احترام یہ سوال بلکہ فریاد کرتا ہے کہ چیف صاحب کیا قرآن پاک میں ملکی عوام اور زیر اقتدار رعایا کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے حوالے سے کوئی آیت یا اسلامی حکم نہیں اور کیا عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کرنے والا حکمران کل کلاں قیامت کو حاکم مطلق کے دربار میں لائق عذاب نہ ٹھہرایا جائے گا۔ کیا یہ سوال بروز محشر نہ ہو گا کہ تم نے اپنی رعایا کے حقوق پورے کئے۔ کیا انہیں تعلیم، صحت، روزگار اور ارزانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی تھیں۔ کیا اس حوالے سے تمہارے زیر حکم عوام مطمئن اور خوش تھے یا ہر وقت بھوک، افلاس اور بے سرو سامانی کا رونا روتے رہتے تھے۔
یہ بات بجا طور پر قابل فخر ہے کہ گزشتہ روز چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو سعودی عرب کے اعلیٰ ترین اعزاز کنگ عبدالعزیز میڈل سے نوازا گیا ہے۔ یہ میڈل فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے سعودی عرب کے سرکاری دورہ کے موقع پر سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ان سے ملاقات کے دوران عطا کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل کو سعودی عرب کا یہ اعلیٰ ترین اعزاز اُن کی نمایاں عسکری خدمات، قیادت، دفاعی تعاون اور اسٹریٹجک ہم آہنگی کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس موقع پر سعودی قیادت نے فیلڈ مارشل کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور اسٹریٹجک وژن کو بھی بجا طور پر سراہا۔ یقیناً یہ اعزاز دونوں ممالک کے گہرے تعلقات اور مشترکہ عزم کا واضح عکاس ہے۔
یہ امر بھی پاکستان کے ہر بچے کے لئے سر اونچا کر کے چلنے کے لئے کافی ہے کہ گزشتہ روز ایک معروف امریکی جریدے واشنگٹن ٹائمز نے کہا کہ مئی کی پاک بھارت جنگ کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر ٹرمپ کے اِنر سرکل کے سٹار بن کر ابھرے ہیں۔ امریکی اخبار نے وائٹ ہائوس میں لنچ میٹنگ کو بھی کسی پاکستانی ملٹری ہیڈ کے لئے پہلی مثال قرار دیا۔ یقیناً پاکستان کی ملٹری کارکردگی نے ٹرمپ کو حیران کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2025ء پاک امریکا تعلقات میں انقلابی تبدیلی کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔ جریدے کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل کا امریکی سینٹ کام ہیڈ کوارٹرز میں ریڈ کارپٹ استقبال امریکی عسکری قیادت کے ساتھ اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک بات چیت کے تناظر میں 2026 ء کے آغاز پر پاکستان کو ٹرمپ کی گرینڈ اسٹریٹجی کے مرکز کے قریب دیکھا جا رہا ہے اور یہ طے ہے کہ 2025 ء میں امریکی پالیسی اور جنوبی ایشیا کا توازن ری رائٹ کرنے میں پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے موثر کردار ادا کیا۔
ایک اور خوش کن خبر ہے کہ گزشتہ روز پاکستان نے لیبیا کی مشرقی فورس لیبین نیشنل آرمی کے ساتھ 4ارب ڈالر سے زائد مالیت کا ایک بڑا دفاعی معاہدہ طے کر لیا ہے۔ اس پیش رفت کی تصدیق دفاعی امور سے وابستہ پاکستان کے 4حکام نے برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کو کی ہے، تاہم حساس نوعیت کے باعث انہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا۔ یہ معاہدہ گزشتہ ہفتے مشرقی لیبیا کے شہر بن غازی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ایل این اے کے نائب کمانڈر اِنچیف صدام خلیفہ حفتر کے درمیان ملاقات کے بعد حتمی شکل پایا۔ یہ معاہدہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے ہتھیاروں کے سودوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع اور فوجی ترجمان نے اس معاملے پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ یاد رہے کہ 2011ء میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے لیبیا شدید عدم استحکام کا شکار ہے اور ملک مشرقی و مغربی حصوں میں منقسم ہے۔ رائٹرز کے مطابق معاہدے کے ایک مسودے میں 16جے ایف۔17لڑاکا طیاروں کی خریداری شامل ہے، جو پاکستان اور چین کا مشترکہ طور پر تیار کردہ ملٹی رول جنگی طیارہ ہے، جبکہ 12سپر مشاق تربیتی طیارے بھی سودے میں شامل ہیں، جو بنیادی پائلٹ ٹریننگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک پاکستانی اہلکار نے تصدیق کی کہ یہ فہرست درست ہے، جبکہ دوسرے اہلکار نے کہا کہ اگرچہ یہی ہتھیار معاہدے کا حصہ ہیں، مگر حتمی تعداد میں رد و بدل ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہلکار کے مطابق یہ معاہدہ زمینی، بحری اور فضائی سازوسامان پر مشتمل ہے اور اس پر عملدرآمد تقریباً اڑھائی سال میں ہوگا۔ 2حکام نے اس کی مالیت 4ارب ڈالر سے زائد بتائی، جبکہ دیگر 2کے مطابق یہ رقم 4.6ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ اتوار کے روز ایل این اے کے سرکاری میڈیا چینل نے اطلاع دی کہ لیبیا کی اس فورس نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کے ایک معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جس میں اسلحہ کی خرید و فروخت، مشترکہ تربیت اور عسکری پیداوار شامل ہے، تاہم تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ صدام حفتر نے العربیہ الحدث ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک عسکری تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت جس کی قیادت وزیراعظم عبد الحمید دبیبہ کر رہے ہیں، مغربی لیبیا کے بیشتر حصے پر قابض ہے جبکہ حفتر کی ایل این اے مشرقی اور جنوبی علاقوں بشمول بڑے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھتی ہے اور مغربی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی۔ لیبیا پر 2011ء سے اقوامِ متحدہ کی اسلحہ پابندی بھی عائد ہے، جس کے تحت کسی بھی قسم کے ہتھیار یا عسکری سامان کی منتقلی کے لئے اقوامِ متحدہ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ تاہم دسمبر 2024ء میں اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ لیبیا پر اسلحہ پابندی غیر موثر ثابت ہو رہی ہے اور کئی غیر ملکی ریاستیں کھلے عام مشرقی اور مغربی دونوں فریقوں کو عسکری تربیت اور معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں 3پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے اقوامِ متحدہ کی پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ایک اہلکار نے کہا کہ پاکستان لیبیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے والا واحد ملک نہیں، دوسرے کے مطابق حفتر پر کوئی براہِ راست پابندیاں نہیں، جبکہ تیسرے نے کہا کہ مشرقی لیبیا کے حکام کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اتوار کو العربیہ الحدث پر نشر ہونے والے بیان میں کہا کہ بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ نے پاکستان کی جدید عسکری صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ پاکستان جے ایف۔17کو ایک کم لاگت مگر ہمہ گیر جنگی طیارے کے طور پر عالمی منڈی میں پیش کر رہا ہے اور خود کو مغربی سپلائی چین سے ہٹ کر تربیت، دیکھ بھال اور مکمل دفاعی پیکیج فراہم کرنے والا ملک ظاہر کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان خلیجی ممالک کے ساتھ بھی سکیورٹی تعلقات مضبوط کر رہا ہے، جن میں ستمبر 2025ء میں سعودی عرب کے ساتھ باہمی سٹریٹجک دفاعی معاہدہ، قطر کے ساتھ اعلیٰ سطح کے دفاعی مذاکرات شامل ہیں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ لیبیا کے ساتھ یہ معاہدہ شمالی افریقہ میں پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گا، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں لیبیا کے منقسم سکیورٹی ڈھانچے اور تیل کی معیشت میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان تمام قابل فخر باتوں کے باوجود پاکستانی عوام کی حالت مایوس کن ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ زیر لب چیف آف ڈیفنس فورسز سے یہ التجا کر رہے ہیں کہ وہ سول حکمرانوں کو رعایا سے اعراض برتنے پر وعید کی کوئی آیت یا حدیث سنائیں تاکہ وہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ عوام کے لئے کچھ کریں۔





