Column

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
قائد اعظم محمد علی جناحؒ ( 1876۔1948 ) برصغیر کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسی غیر معمولی اور کرشماتی شخصیت ہیں جن کی زندگی قانونی مہارت، سیاسی بصیرت، اور غیر متزلزل کردار کا حسین امتزاج تھی۔ وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ ایک قوم کی امید، عزم اور منزل کی علامت تھے۔ اردو کے جس شعر سے یہ تجزیہ اخذ کیا گیا ہے، ’’ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت‘‘، یہ چار صوفیانہ صفات قائد کی شخصیت کے چار بنیادی اور متوازن پہلوں کو علامتی طور پر بیان کرتی ہیں۔ ان صفات کا استعمال قائد اعظمؒ کی قیادت کو مادی سیاست سے ہٹا کر ایک اخلاقی اور روحانی مقام عطا کرتا ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ عظیم قیادت محض طاقت کا نام نہیں بلکہ اصول، رحم دلی، اور عظمت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس تفصیلی مطالعے کا مقصد ان چار ستونوں کی روشنی میں قائد کی شخصیت کے ہر پہلو کا جامع جائزہ لینا اور عصری قیادت کے لیے ان کے لازوال سبق کو واضح کرنا ہے۔
قہاری: عزم، طاقت اور غیر متزلزل فیصلہ سازی’’ قہاری‘‘ کا مفہوم، جو بنیادی طور پر اللہ کی صفتِ حکمرانی اور غلبہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، قائد اعظمؒ کی شخصیت میں ان کی ارادی طاقت، اصول پسندی اور غیر متزلزل عزم کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ وہ قوت تھی جس نے انہیں ہر قسم کے سیاسی دبائو اور مخالفانہ لابی کے سامنے سر جھکانے سے روکا۔ قائد اعظم کی قہاری کا سب سے بڑا مظاہرہ ان کا دو قومی نظریے پر غیر متزلزل یقین اور اس پر قائم رہنا تھا۔ 1940 ء کی قرار دادِ لاہور کے بعد، جب برصغیر کی سیاسی فضا تقسیم کے خلاف تھی، کانگریس اور برطانوی حکومت دونوں نے انہیں اپنے موقف سے ہٹانے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ کابینہ مشن پلان اور مختلف فارمولوں کے ذریعے تقسیم کو ٹالنے کی کوشش کی گئی، مگر قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کے مستقبل کے تحفظ کو دیکھتے ہوئے اصولی موقف سے بال برابر انحراف نہیں کیا۔ ان کا یہ فیصلہ کن اور اصولی موقف تھا جس نے آخرکار تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ بطور وکیل بھی ان کی قہاری ان کی منطقی مہارت اور خوف سے آزادی میں جھلکتی تھی۔ وہ کبھی دلیل کی طاقت سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنی فہم، حوصلہ اور حق کی پاسداری کی وجہ سے ممتاز تھے۔ قہاری کا یہ مفہوم یہاں اس بات کی گواہی ہے کہ ان کی طاقت اور ارادہ صرف ایک اعلیٰ مقصد، یعنی مسلمانوں کی فلاح اور سیاسی آزادی، کے لیے استعمال ہوتا تھا، نہ کہ ذاتی مفاد کے لیے۔
عصری اطلاق: آج کی قیادت کے لیے قہاری کا مطلب ہے ڈیٹا اور حقائق پر مبنی غیر جذباتی فیصلہ سازی۔ قومی مفاد کے حق میں سخت اور غیر مقبول فیصلے لینے کی ہمت، اور آئینی اصولوں پر غیر متزلزل طریقے سے قائم رہنا، خواہ اس سے وقتی سیاسی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
غفاری: رحم، ہمدردی اور انسانی اخلاق کا معیار’’ غفاری‘‘ کی صفت، جو اللہ کی مغفرت اور معافی سے جڑی ہے، قائد اعظمؒ کی شخصیت میں ان کی اخلاقی بصیرت، رحم دلی اور انسانی ہمدردی کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی قیادت میں عسکری یا سفاک طاقت کا عنصر نہیں تھا، بلکہ ایک تحمل اور اخلاقی اختیار کا عنصر غالب تھا۔
تاریخی نمونہ: مذاکرات میں تحمل اور اقلیتی حقوق کا تحفظ، قائد اعظمؒ نے اپنی سیاست میں کبھی بھی ذاتی بغض یا انتقام کے جذبے کو شامل نہیں کیا۔ مخالفین کے ساتھ مذاکرات میں، خواہ وہ گاندھی ہوں یا نہرو، انہوں نے ہمیشہ تحمل، احترام اور پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا۔ اختلاف رائے کے باوجود ذاتی حملوں سے گریز کیا اور دیانت کو مقدم رکھا۔ یہ ان کی غفاری کی علامت تھی کہ وہ طاقت کا استعمال صرف غلبہ پانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اصلاحی اور تعمیری مقصد کے لیے کرتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ان کی 11اگست 1947ء کی تقریر، جس میں انہوں نے اقلیتی حقوق کے تحفظ اور ریاست میں مساوات کی ضمانت دی، ان کی غفاری کی سب سے بڑی مثال ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ آپ آزاد ہیں.۔۔۔ آپ مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔۔۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ یہ بیان ان کی اس انسانی ہمدردی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال صرف دبا ڈالنے یا ظلم کرنے کے لیے نہیں بلکہ سب کی فلاح اور رہنمائی کے لیے کرنا چاہتے تھے۔
عصری اطلاق: غفاری کا اطلاق آج سماجی شمولیت (Inclusiveness)، تحمل اور سماجی انصاف کو فروغ دینے میں ہوتا ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ سماجی تقسیم کو ختم کرے، اقلیتی حقوق کی حفاظت کرے، اور عوامی فلاح کو یقینی بنائے تاکہ ریاست کا ہر شہری خود کو محفوظ اور شامل محسوس کرے۔
قدوسی: روحانیت، اخلاقی پاکیزگی اور شفافیت’’ قدوسی‘‘ کا لفظ پاکیزگی، روحانیت، اور اخلاقی معیار سے جڑا ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی میں یہ صفت ان کی بے داغ اخلاقیات، شفافیت اور روحانی بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ یہ پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی قیادت صرف سیاسی حربوں پر نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر مبنی تھی۔
تاریخی نمونہ: مالیاتی دیانت اور اصول پرستی، قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کا کوئی بھی فیصلہ ذاتی مفاد یا مالی منفعت کے لیے نہیں تھا۔ وہ اپنی وکالت کی بھاری فیس کو چھوڑ کر ملک و قوم کی خدمت میں آئے، اور سیاست میں کبھی مالی کرپشن یا اقرباء پروری کا الزام ان پر عائد نہیں ہوا۔ مالیاتی دیانت اور اصول پرستی ان کی قدوسیت کا عملی اظہار تھا۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے بھی وہ حکومتی وسائل کے استعمال میں انتہا درجے کے محتاط اور کفایت شعار تھے۔ قدوسیت کا یہ پہلو ظاہر کرتا ہے کہ قائد اعظمؒ کے اندر صرف سیاسی یا قانونی شعور نہیں بلکہ ایک اعلیٰ سطح کا اخلاقی اور روحانی شعور بھی موجود تھا، جو ان کی شخصیت کو تاریخی اور اخلاقی اعتبار سے ایک نایاب مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی روحانیت مذہبی رسومات کی نمائش سے زیادہ ان کے کردار، دیانت اور سچائی پر مبنی تھی۔
عصری اطلاق: قدوسی کا اطلاق گورننس میں شفافیت (Transparency)اور احتساب (Accountability)کا معیار قائم کرنے میں ہوتا ہے۔ آج کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فیصلے اور عمل کو شیشے کی طرح صاف رکھے، تاکہ ریاست کا ستون سچائی اور عوام کا اعتماد پر قائم رہے۔ بدعنوانی سے پاک قیادت ہی قوم کو اخلاقی بلندی عطا کر سکتی ہے۔
جبروت: عظمت، غلبہ اور تاریخی اثر’’ جبروت‘‘ کا مفہوم طاقت اور غلبے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، مگر قائد اعظمؒ کے لیے یہ علامتی طور پر ان کی تاریخی عظمت، سیاسی غلبہ اور لازوال اثر کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ان کی وہ میراث ہے جس نے نہ صرف ایک ملک کو جنم دیا بلکہ عالمی نقشے پر کروڑوں مسلمانوں کی تقدیر بدل دی۔
تاریخی نمونہ: ایک نئی ریاست کا بانی، قائد اعظمؒ نے اپنی قیادت کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کو یقینی بنا کر تاریخی اور سیاسی غلبہ حاصل کیا۔ یہ جبروت کسی فوجی طاقت یا ظالمانہ حکمرانی کی پیداوار نہیں تھا، بلکہ منطق، قانون، سیاسی بصیرت اور عوامی اعتماد کے امتزاج کا نتیجہ تھا۔ ان کی قیادت میں ایک قوم جو بکھری ہوئی تھی، ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھری، جس نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار ریاست کا راستہ کھولا۔
جبروت کا یہ پہلو قائد اعظمؒ کی شخصیت کو ایک علماتی مقام دیتا ہے، جو وقت اور مکاں سے ماورا ہے۔ ان کی شخصیت میں یہ عظمت محض سیاسی اثر یا طاقت نہیں بلکہ اخلاق، انسانیت اور اصول پسندی کے امتزاج میں موجود تھی۔ دنیا کی تاریخ میں بہت کم ایسے رہنما ہیں جو قانونی اور جمہوری طریقوں سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک کے بانی بنے ہوں۔
جبروت کا اطلاق آج قومی وقار، اقتصادی خود مختاری اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف اختیار کرنے میں ہوتا ہے۔ یہ قائدانہ صفت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ غلبہ اخلاقی ساکھ اور اندرونی مضبوطی سے جنم لیتا ہے، نہ کہ بیرونی امداد یا مفاہمت سے
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت ’’ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت‘‘ کے چار پہلوئوں کا ایک ایسا نادر اور متوازن امتزاج ہے جو انہیں ایک سیاسی رہنما سے کہیں زیادہ، ایک معیار اور مثال بناتا ہے۔ ان کے عزم ( قہاری) کو انسانیت ( غفاری)، ان کی طاقت ( جبروت) کو اخلاقیات ( قدوسی) کے ساتھ توازن ملا۔
طاقت مع اصول: ان کی قہاری نے ان کی غفاری کو کمزور نہیں کیا، بلکہ ان کے رحم کو با مقصد بنایا۔
عظمت مع پاکیزگی: ان کی جبروت ان کی قدوسی کی وجہ سے پاکیزہ رہا، اور ان کی عظمت ہمیشہ دیانت پر مبنی رہی۔
ان کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ سیاسی عمل اور اقتدار کا حصول محض ایک ذریعہ ہے، جبکہ اصل مقصد انصاف، مساوات، اور انسانی وقار کی بنیاد پر ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی اس بات کا روشن مثال ہے کہ حقیقی قیادت وہ ہے جو طاقت، عزم، اخلاقیات اور روحانیت کے امتزاج میں پروان چڑھے۔ آج کی قیادت کے لیے یہ چار اوصاف ایک لازوال نمونہ ہیں کہ کس طرح ریاست اور قوم کی تعمیر کردار اور اصولوں پر کی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button