ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی لیڈر ایسا نہیں چاہتے

سیاسی لیڈر ایسا نہیں چاہتے
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
عوامی مشکلات کی کہانی کہاں سے شروع کی جائے ؟ اس وقت 24کروڑ عوام مسلسل تھکن کا شکار ہیں۔ حالات کی تنگ دستی سے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی حکمت اور سیاسی جماعتوں کی بصیرت، کرتوتوں نے نئی نسل کو گوڈوں سے ناکارہ اور منفی سوچوں کے زیر اثر کر دیا ہے۔ مثبت سوچ کے حامل افراد بھی مجبور ہو کر کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ اس وقت میدان میں زبردستی کا ماحول ہے۔ طاقتور طبقہ اپنا سب کچھ بیرونِ ممالک سٹل کر چکا ہے، جنہیں ابھی بھی موقع مل رہا ہے وہ اس نظام کے ساتھ کھلا کھلواڑ کر رہے ہیں۔ باقی رہا غریب طبقہ، تو ان جمہوری لیڈروں کو اس طبقے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ تبدیلی کے بادشاہ، کرپشن فری پاکستان کے ہیرو نے قوم کے ساتھ خوب مذاق کیا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے بیانیہ کو شعور کا نام دے کر معاشرے میں مزید عدم برداشت کو ہوا دی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بیانیے کو بانی پی ٹی آئی کے بیانیے نے مات دے دی، یا یوں کہہ لیں کہ معاشرتی رویّوں میں صبر و تحمل کے بجائے ٹکرائو کو بڑھا کر عوامی پارہ چڑھا کر مستقل وزیر اعظم رہنے کی پلاننگ بنائی۔ یہی کچھ ماضی میں دونوں بڑی جماعتیں کرتی چلی آئی ہیں۔ جمہوریت مفادات کا نام ہے، لیکن بابوں کی شطرنج بھاری نکلی اور آج بھی حکمران ہیں۔ مقتدر حلقوں اور طاقتور کرداروں کو حقیقت کو ماننا چاہے کہ ماضی کے چالیس برس میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس ایک بھی ایسا عوامی کارنامہ نہیں جس سے عوامی مشکلات کم ہوئیں یا مستقل حقیقی ریلیف ملا ہو۔ اگر انہوں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا بھی ہے تو اس کی رفتار اتنی سست رہی کہ وہ وقت کی تیز رفتاری سے بے معنی ثابت ہے۔ جو پراجیکٹ 60کی دہائی میں قائم ہوئے ان کا کباڑا انہی جمہوریت والوں کے فیصلوں سے ہوا ہے، ماضی کے اقدامات جن کو ترقی کہا جاتا رہا وہ اب کے حساب میں اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ کئی منصوبے غلط فیصلوں کے باعث ناکام ہوئے ہیں اور ملک و قوم کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے ، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ، ریکوڈک معاہدہ ، تھرکول پلانٹس، رینٹل پاور جیسے کئی دیگر معاہدے قومی نقصان کا باعث ثابت ہوئے ہیں۔ ذاتی مفادات اور اربوں روپے کی لوٹ مار، اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ رہا جو آج تک جاری ہے۔ اب ان فیصلوں کے اثرات کے باعث ملک میں جتھے بن چکے ہیں، بلکہ یہ اب ریاست پر براجمان ہونے کے لیے پوری طاقت استعمال کرتے ہیں۔ یہ طرزِعمل پہلے سیاسی حلقوں تک محدود تھا، مگر بدقسمتی سے اب سرکاری اداروں میں بھی ایسے جتھے قابض ہیں جن کو سسٹم کا نام دیا جاتا ہے ، ان کے سامنے طاقتور ادارے بے بس نظر آتے ہیں، سیاسی جماعتیں ایسا کیوں چاہتی کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں سخت سزا دی جائے۔ جہاں جمہوری جماعتیں قصور وار ہیں وہاں ادارے کے سربراہ بھی اس قصور کا حصہ ہیں۔ قوم کو ہر بار اعداد و شمار میں الجھے رکھا گیا۔ حکمران جماعت کی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کا کام ملکی اداروں نے کیا۔ سچ کو کبھی سامنے نہیں لایا گیا، پچھلے تینوں انتخابات کی بندر بانٹ اور لاقانونیت کا پنڈورا باکس مسٹر فیض حمید کی سزا کے بعد پوری قوم کے سامنے ہے، کون کتنا اور کیسے فیض یاب ہوا، لیکن ابھی بھی سچ عوام کے سامنے نہیں لایا جا رہا۔ اس بدبو نے ایک بار پھر پورے معاشرے میں نفرت، تقسیم اور لاقانونیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال سے انسانی رویّے ہی نہیں بلکہ ریاست بھی متاثر ہے، اور منفی اثرات ملکی سطح پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ حکومتِ وقت بھی شدید خوفزدہ ہے کہ کہیں کوئی بڑا عوامی ردِعمل سامنے نہ آ جائے۔ ماضی کی حکومتوں کو بھی یہی خدشات اور خوف لاحق رہے۔ یوں کہہ لیں کہ ڈھیلے پاجامے نے کسی بھی حکمران پارٹی کی جان نہیں چھوڑی۔ سیاسی لیڈروں نے اپنا پاجامہ اوپر رکھنے کیلئے طاقتوروں کو نوازا، کرپشن اور ناانصافی سسٹم کی مجبوری نظر آتی ہے۔ اس لیے کوئی سیاسی جماعت اس چکر سے باہر نہیں نکل سکی ۔ یہ عادت سب میں پختہ ہو چکی ہے۔ حقیقت میں ملک کے لیے بہتر کرنا یا اچھا سوچنا کوئی نہیں چاہتا۔ پاکستان ایسی ریاست ہے جہاں ترقی یافتہ کیلئے تمام قدرتی وسائل ہیں۔ پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بڑے نظاموں میں شمار ہوتا ہے، مگر آج تک پانی کی منصفانہ تقسیم کا نظام نہیں بن سکا۔ اس حوالے سے صوبوں میں خدشات ہیں ۔ زراعت ہماری ترقی کی بنیاد ہے، مگر آج تک اس میں کوئی بڑی جدت نہیں لائی جا سکی۔ اربوں روپے کا اناج امپورٹ کر رہے ہیں۔ اداروں اور جمہوریت والوں کیلئے باعث افسوس ہے۔ ملک میں زرعی یونیورسٹیاں دو چار سے زیادہ نہیں، حالانکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ یہ سیاسی لیڈر ایسا نہیں چاہتے۔ ہمارے حکمرانوں نے تخت نشینی کو عادت بنا لیا ہے۔ اب وہ ساری زندگی وزیراعظم ہائوس میں رہنا چاہتے ہیں، چاہے انتخابات 47والے ہوں یا ’’ لاڈلے ‘‘ والے۔ انہیں دھاندلی کی آوازوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عدل و انصاف میسر ہو، میرٹ پر فیصلے ہوں اور عوام کو حقیقی ریلیف ملے، کیونکہ انہیں اپنے احتساب کا خوف ہے۔ کبھی ایسے اقدامات نہیں کریں گے جن سے عام فرد کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔ ان ظالموں نے تعلیم جیسے بنیادی حق کو بھی تقسیم کر دیا ہے: پیلا سکول اور انگلش سکول۔ حالانکہ حکمرانوں اور مقتدرہ والوں نے بھی انہی سکولوں سے تعلیم حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے وقت یہی سکول تھے، جہاں سے لیڈر، سائنس دان نکلے اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ جنہیں آج پیلا کہہ کر منفی تاثر پیدا کیا گیا، اور یہ تاثر ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس میں ہمارے سیاسی لیڈروں کا قصور ہے ، جب قوم کے ذہنوں میں ایسے منفی اثرات گھر کر لیتے ہیں تو پھر صحن میں خزاں ہی رہتی ہے۔ ان منفی اثرات نے فرد کے ساتھ اداروں کو بھی بے بس بنا دیا ہے۔ جو فرد ملک کے لیے اچھا کرنا چاہتا ہے، اسے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ سائیڈ پکڑ لیتا ہے۔ اس وقت سرکاری اداروں میں صورتحال ایسی ہے کہ رشوت اور طاقتور کے فون کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ عوامی خدمات سرکار کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ سیٹوں پر نااہل افراد اور اداروں میں سفارشی ملازمین کی بھرمار ہے، انہیں سرکاری خط و کتابت تک نہیں آتی۔ ان کی جگہ پرائیویٹ افراد دفاتر چلا رہے ہیں۔ ریاست انسانی معیارِ زندگی بہتر کرنا چاہتی ہے، مگر ایسے مافیاز کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟۔ ترقی یافتہ ماڈل کے لیے عدل و انصاف اور میرٹ کی فراہمی اولین شرط ہے۔ انصاف کے بغیر ہم عوامی زندگی کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟۔ یہی سب سے اہم نکتہ ہے جس پر ریاست کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک بانی پی ٹی آئی سے نجات پا بھی لی جائے تو کوئی اور بانی سامنے آ کھڑا ہوگا۔ 24کروڑ عوام ریاست کے ساتھ ہیں، مگر ریاست عوام کے لیے ایسا کیوں نہیں کرتی؟۔

جواب دیں

Back to top button