Column

تاریخی ڈیبیٹ: الحاد کے مقابلے میں توحید کی فتح

تاریخی ڈیبیٹ: الحاد کے مقابلے میں توحید کی فتح
ثناء اللہ مجیدی
موضوع بحث:(DOES GOD EXIST?)کیا خدا موجود ہے؟20 دسمبر سنیچر کا دن، دنیا کی فکری تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت کے ساتھ محفوظ ہو چکا ہے۔ یہ دن محض کیلنڈر کی ایک تاریخ نہیں رہا بلکہ ایمان و الحاد کے درمیان جاری فکری کشمکش میں ایک نمایاں سنگِ میل بن گیا ہے۔ دنیا بھر کے سنجیدہ اذہان جس لمحے کے منتظر تھے وہ لمحہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں واقع کنسٹی ٹیوشن کلب میں حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ خدا کے وجود جیسے بنیادی اور اہم ترین عقیدے پر ایک ایسا مباحثہ منعقد ہوا جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر فکری، دینی اور علمی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
یہ مقابلہ بظاہر دو شخصیات کے درمیان تھا، مگر حقیقت میں یہ دو بالکل متضاد فکری نظاموں کا سامنا تھا۔ ایک طرف وہ فکر کھڑی تھی جو کائنات کو محض حادثہ، اتفاق اور مادّے کی اندھی طاقتوں کا نتیجہ قرار دیتی ہے، جو مقصدِ حیات کو ایک سراب اور اخلاق کو محض سماجی معاہدہ کہہ کر اس کی آفاقی حیثیت ختم کر دیتی ہے اور خدا کے وجود کی ہی منکر ہے۔ دوسری طرف وہ عقیدہ پوری استقامت کے ساتھ جلوہ گر تھا جو اس کائنات کو ایک علیم و حکیم، قادرِ مطلق، ازلی و ابدی رب کی تخلیق مانتا ہے، جس کے بغیر نہ وجود کی توجیہ ممکن ہے، نہ زندگی کا مقصد واضح ہوتا ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار کو کوئی مضبوط بنیاد میسر آتی ہے۔ یعنی خدا ہمیشہ سے تھا، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ایک جانب معروف ملحد جاوید اختر تھے، جو خدا، آخرت اور ماورائے مادہ حقائق کے منکر ہیں، جبکہ دوسری جانب موحد عالمِ دین مفتی شمائل عبداللہ ندوی تھے، جو ردِّ الحاد کے فکری میدان میں اپنی سنجیدگی، استدلالی پختگی اور علمی وقار کے باعث پہچانے جاتے ہیں، اور جن کی فکری تربیت میں مشہور عالمِ دین اور فاتحِ الحاد مفتی یاسر ندیم الوجدی صاحب کی علمی بصیرت اور فکری رہنمائی نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔
مباحثے کے آغاز ہی سے یہ بات واضح ہونے لگی کہ یہ نشست محض جذباتی خطابت یا سامعین کو متاثر کرنے کے لیے بلند آہنگ جملوں کا میدان نہیں، بلکہ دلیل، منطق، فکر اور عقل کی کسوٹی ہے۔ مفتی شمائل عبداللہ ندوی نے خدا کے وجود پر گفتگو کرتے ہوئے نہ خطیبانہ جوش کو بنیاد بنایا اور نہ ہی روایتی وعظ کا سہارا لیا، بلکہ عقلِ انسانی کو مخاطب بنا کر ایسے منظم اور مربوط دلائل پیش کیے جو انسانی عقل و فطرت، کائنات کے نظم اور فلسفہ علت و معلول سے پوری طرح ہم آہنگ تھے۔
انہوں نے نہایت سادہ مگر گہرے انداز میں یہ حقیقت واضح کی کہ خدا کا وجود کسی لیبارٹری کے تجربے یا خوردبین کے مشاہدے کا محتاج نہیں، کیونکہ خود کائنات، اس کی ہم آہنگی، اس کا حسن، اس کی ترتیب اور اس کے قوانین ایک علیم خالق کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ذات خود محتاج نہیں، وہی تمام محتاجوں کی حاجت پوری کرتی ہے، اور جو ہمیشہ سے موجود ہے، وہی وجود عطا کرنے کی حقیقی اہل ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جہاں ایمان اور عقل ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آئے۔
اس کے برعکس ملحد جاوید اختر اپنے موقف کو مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم کرنے میں بارہا ناکام دکھائی دئیے۔ ان کا طرزِ استدلال زیادہ تر شخصی احساسات، جذباتی تاثرات اور جذباتی واقعات و حالات کے گرد گھومتا رہا، جو اس سطح کے سنجیدہ مباحثے کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ان کے اعتراضات کے جوابات مفتی شمائل صاحب نے اس قدر سیدھے، واضح اور مدلل انداز میں دئیے کہ دفاع کی گنجائش بھی مشکل نظر آئی۔یہ وہ لمحہ تھا جب قرآنِ کریم کی یہ صدائے حق خود بخود ذہن میں تازہ ہو گئی: فَبُھِتَ الَّذِي کَفَرَ۔ جب دلیل اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتی ہے تو انکار کی زبان خود بخود گنگ ہو جاتی ہے۔
حالانکہ اس مباحثے سے قبل یہ تاثر عام کیا جا رہا تھا کہ اس مرتبہ الحاد جدید فکر، نئے زاویوں اور مضبوط فلسفیانہ تیاری کے ساتھ سامنے آئے گا، مگر عملی صورتِ حال اس کے برعکس دکھائی دی۔ دلائل کی دنیا میں وہ ایک ایسی عمارت پر کھڑا محسوس ہوا جس کی بنیادیں کمزور تھیں اور جو مضبوط فکری طوفان کا سامنا نہ کر سکی۔ سوالات ضرور اٹھائے گئے، مگر ان سوالات کے پیچھے کوئی ایسا مربوط فکری نظام موجود نہ تھا جو انہیں وزن، وقار اور معنویت عطا کرتا۔مباحثے کے دوران بار بار ایسے لمحات آئے جب ملحد فریق عقلی سطح پر لاجواب ہو گیا، اور یہی لاجوابی اس حقیقت کی واضح دلیل تھی کہ حق کے مقابل باطل میں ٹھہرنے کی سکت نہیں ہوتی۔
یہی وہ ابدی اصول ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: جاء الحق وزھق الباطل۔
حق جب اپنی پوری روشنی کے ساتھ سامنے آتا ہے تو باطل خود بخود مٹنے لگتا ہے، کیونکہ اس کی اصل میں ہی کمزوری اور انتشار پوشیدہ ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات کہنا نہایت ضروری ہے کہ میری تمام قارئین سے بالخصوص یہ گزارش ہے کہ وہ اس تاریخی مباحثے کو مکمل توجہ، یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ ضرور سنیں۔ ان شاء اللہ اس مباحثے کو مکمل سننے سے نہ صرف ایمان میں تازگی پیدا ہوگی بلکہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا عملی اور زندہ ثبوت بھی سامنے آئے گا، اور خدا کے وجود کا عقیدہ محض ایک موروثی تصور کے بجائے ایک مضبوط فکری یقین کی صورت میں دل و دماغ میں راسخ ہو جائے گا۔ الحمدللہ، اس مباحثے کو چند ہی گھنٹے میں لاکھوں افراد کا دیکھنا اور سننا اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی انسانی عقائد میں سب سے بنیادی اور اہم عقیدہ خدا کے وجود ہی کا ہے، اور یہی عوامی دلچسپی اس مباحثے کی اہمیت، معنویت اور شان کو مزید اجاگر کرتی ہے۔
اس مباحثے کا ایک نہایت روشن اور قابلِ تقلید پہلو وہ اعلیٰ اخلاقی معیار تھا جس کا مظاہرہ دونوں فریقین نے کیا۔ شدید فکری اختلاف کے باوجود گفتگو میں شائستگی، احترام، القابات کا اہتمام اور تہذیبی حدود کی پاسداری نمایاں رہی۔ نہ طنز کی کاٹ نظر آئی اور نہ جملوں کی تلخی۔ یہ منظر ہمارے دور میں ایک خوشگوار حیرت کی مانند تھا، خصوصاً ایسے ماحول میں جہاں اختلافِ رائے اکثر الزام تراشی، بدزبانی اور انتشار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ہمارے معاشرے، بالخصوص پاکستان میں، اس طرزِ مکالمے سے سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ دہلی کے کنسٹی ٹیوشن کلب میں ہونے والا یہ مباحثہ اس بات کا عملی ثبوت بن گیا کہ سنجیدہ اختلاف کے باوجود باوقار، مہذب اور علمی گفتگو نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہی راستہ فکری ترقی، علمی بلوغت اور سماجی استحکام کی ضمانت بھی ہے۔
اس پورے فکری منظرنامے میں مفتی یاسر ندیم الوجدی صاحب کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ میدانِ الحاد میں ان کی طویل علمی جدوجہد، فکری بصیرت اور مسلسل محنت نے ردِّ الحاد کو ایک منظم، سنجیدہ اور موثر فکری تحریک کی صورت دے دی ہے۔ مفتی شمائل عبداللہ ندوی کی گفتگو میں جو اعتماد، تحمل، ضبط اور فکری پختگی نمایاں تھی، وہ استاد کی تربیت، رہنمائی اور سرپرستی کا واضح عکس تھی۔ یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ علمی میدان میں افراد نہیں بلکہ مضبوط فکری تربیت اور ادارہ جاتی محنت کامیابی کی ضمانت بنتی ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دہلی کے کنسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہونے والا یہ مباحثہ محض ایک علمی نشست نہیں بلکہ ایمان کی تازگی، حق کے غلبے اور باطل کی کمزوری کا عملی مظہر ہے۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے دینی اور فکری حلقوں کی جانب سے مفتی شمائل عبداللہ ندوی صاحب کو اس باوقار اور کامیاب علمی کاوش پر دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کی جاتی ہے، اور ساتھ ہی مفتی یاسر ندیم الوجدی صاحب کے لیے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے رفقاء کو اس مشکل مگر عظیم میدان میں مزید استقامت، قبولیت اور فکری فتوحات عطا فرمائے۔ یہ مباحثہ اس حقیقت کی زندہ گواہی بن کر سامنے آیا ہے کہ ایمان محض دل کی تسلی نہیں بلکہ عقل کی تسکین بھی ہے، اور جب حق دلیل کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو باطل کے لیے خاموشی کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔

جواب دیں

Back to top button