چیف الیکشن کمشنر کی راست بازی

چیف الیکشن کمشنر کی راست بازی
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
چیف الیکشن کمشنر نے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری اور حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے مسلم لیگی رہنما عابد شیر علی کو ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی کی انتخابی مہم میں تقاریر کرنے اور ووٹ ڈالتے وقت بیلٹ پیپر کی ویڈیو بنانے کی پاداش میں طلب کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے دونوں رہنمائوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی۔ عابد شیر علی کہتے رہے انہیں عمرے پر جانا ہے مگر چیف صاحب نے دونوں کو آئندہ ماہ دوبارہ طلب کر لیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا عابد شیر علی نے ووٹ کی سیکرسی کو مجروح کیا ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی پی ٹی آئی والے چیف الیکشن کمشنر کی راست بازی پر کیوں شبہ کرتے ہیں۔ جس ملک کا چیف الیکشن کمشنر انتخابی قوانین کی اس حد تک پابندی کرے الیکشن مہم میں تقریر اور بیلٹ پیپر کی ویڈیو بنانے پر سیاسی رہنمائوں کو طلب کر لے ایسے چیف الیکشن کمشنر پر کسی قسم کا شبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اس سے قبل وفاقی سیکرٹری ریلویز کے منصب پر فائز رہے، گویا اس لحاظ سے سابق وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد بھی طاقتور حلقوں کے ساتھ ان کے سفارشی تھے۔ بانی پی ٹی آءی تو پھولے نہیں سما رہے تھے انہیں ایک راست باز چیف الیکشن کمشنر کی خدمات حاصل ہو گئی ہیں۔ عمران خان کی نظر انتخاب ویسے ہی چیف صاحب پر نہیں پڑی ہو گی۔ مجھے پی ٹی آئی والوں کی سمجھ نہیں آتی وہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا شور وغوغا کیوں کرتے ہیں۔ ایک راست باز اور با اعتماد چیف الیکشن کمشنر ہوتے ہوئے انہیں الیکشن کے انعقاد پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اللہ کے بندوں ایک راست باز چیف الیکشن کمشنر کیا کر سکتا تھا فارم 45میں رد و بدل پریذائیڈنگ افسروں نے کیا ہو گا، جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے انتخابات میں مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ پی ٹی آئی والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے عام انتخابات کا انعقاد کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، پورے ملک میں پولنگ سٹیشن ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے چیف الیکشن کمشنر کو فارم 45کے ردوبدل کا علم ہی نہ ہوا ہو۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی والوں سے ان کی پارٹی کا انتخابی نشان انہی چیف الیکشن کمشنر نے واپس لیا تھا، لیکن الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی کا الزام تو کم از کم چیف صاحب پر نہ لگایا جاتا۔ ایک شخص وفاقی دارالحکومت میں اپنے آفس میں فائل ورک کر رہا ہو تو اسے کیا خبر کسی شہر کے الیکشن میں کیا ہو رہا ہے۔ جہاں تک فارم 45میں مبینہ ردوبدل کی بات ہے پولنگ سٹیشن سے کوسوں دور کوئی کر بھی کیا کر سکتا تھا۔ چیف صاحب الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف نوٹس لے لیتے تو ملک کی کتنی بدنامی تھی ؟۔ تعجب تو اس پر ہے ایک پودے کی آبیاری کرنے والا کپتان خود ہی اسے جڑ سے اکھیڑنے کی کوشش کرے تو کتنے افسوس کی بات ہے۔ ستم ہائے ستم دیکھئے الیکشن کمیشن مبینہ دھاندلی کے الزام کی پردہ پوشی کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے تمام باتوں کو صیغہ راز میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ تو خانہ خراب ہو اس راولپنڈی کے سابق کمشنر کا جس نے ناسمجھی میں تمام کھیل کا بھانڈا پھوڑ کر ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ سابق کمشنر کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے فارم 45سے عام لوگوں کو متعارف کرا دیا، ورنہ کسی کو کیا پتہ چلنا تھا فارم 45ہوتا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے اس ناچیز کو بھی فارم 45کا علم نہیں تھا۔ پی ٹی آئی والے کتنے نادان ہیں اربوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ان کی یہ خواہش تھی انتخابات ازسرنو ہونے چاہئیں۔ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے، الیکشن کے نتائج کتنے حوصلہ افزاء تھے، تینوں بڑی جماعتوں کو شریک اقتدار بنایا گیا۔ ملک کے شہری ووٹ ڈالتے وقت احتیاط کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے وفاق دو جماعتوں کودے دیا۔ کے پی کے پی ٹی آئی کے حوالے کر دیا۔ سندھ اور پنجاب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا مقدر ٹھہرا اور بلوچستان کو مخلوط حکومت دے دی گئی۔ ملک کے عوام اب بھی اگر خوش نہ ہوں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ تاسف ہے سیاسی جماعتیں انتخابات اور حکومتوں کی تقسیم کا الزام طاقتور حلقوں پر نہ جانے کیوں لگاتے ہیں۔ بھئی ووٹ عوام ڈالتے ہیں جس کی انہیں مکمل آزادی ہوتی ہے، وہ جسے چاہیں ووٹ ڈال دیں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد ان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، فارم 45پر کیا بیتی ۔ الیکشن کمیشن پریذائیڈنگ افسروں کا ہاتھ تو نہیں پکڑ سکتا تھا۔ آخر پریذائیڈنگ افسروں کی بھی کوئی ذمہ داری تھی جنہوں نے بھرپور طریقہ سے نبھا کر الیکشن کی شفافیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ پھر الیکشن کی عذرداریوں کی بات چل پڑی، ان کی سماعت ابھی تک کیوں نہیں ہوئی۔ الیکشن ٹریبونل میں بعض ایسی شخصیات کو ذمہ داریاں سونپی گئیں جنہیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے بالمشافہ طلب کرکے استعفیٰ دینے کا حکم دیا تھا ورنہ انہیں مواخذے کا سامنا پڑ سکتا تھا۔ کئی کروڑ کا چیک دینے والے سابق بیورو کریٹ ایس ایم اسماعیل آسودہ خاک ہو چکے ہیں، ان کا ہونہار بیٹا ڈاکٹر جنید ایمبسی روڈ کا پٹرول پمپ واپس لیتے لیتے سعودی عرب پہنچ گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کو الیکشن کی باتیں اب زیب نہیں دیتی۔ حکومت امور سلطنت چلا رہی ہے، سرمایہ کاری آرہی ہے، ملک معاشی بحرانوں سے نکل چکا ہے۔ عوام بھی روز بروز خوش حال ہورہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی حب الوطنی پر کسی کو شک نہیں، ایسے میں اب انہیں بھی سکون سے قید و بند کے ایام گزارنے چاہئیں۔ جب ملک معاشی بحرانوں سے نکل چکا ہے، کرپشن کے مقدمات کا خاتمہ ہو چکا ہے، تو ایسے میں انہیں ملک و قوم کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت کی کارکردگی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ابھی تک انہیں من پسند چیف الیکشن کمشنر نہیں مل سکا ہے، ورنہ کب کا نیا چیف الیکشن کمشنر آجاتا۔ بہرکیف ہمیں چیف الیکشن کمشنر کی راست بازی پر شبہ نہیں ہونا چاہیے۔





