ColumnQadir Khan

ایران کا ’’ مزاحمتی محور‘‘ بکھر چکا

ایران کا ’’ مزاحمتی محور‘‘ بکھر چکا
قادر خان یوسف زئی
یہ 12جون 2025ء کی جھلساتی ہوئی گرمی تھی جب مشرقِ وسطیٰ کے آسمان پر بارود کی بو اور جنگی جہازوں کی گرج نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ آپریشنز، جنہیں ’’ آپریشن رائزنگ لائن‘‘ اور ’’ مڈ نائٹ ہیمر‘‘ کا نام دیا گیا، نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو دنیا نے سمجھا کہ شاید تہران کے ایٹمی عزائم اب ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہوا؟ آج جب ہم دسمبر 2025ء کے آخری ایام میں کھڑے ہیں، نطنز (Natanz)کے تپتے صحرا سے آنے والی خاموش مگر چیختی ہوئی سیٹلائٹ تصاویر ایک الگ ہی کہانی سنا رہی ہیں۔ حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کی جانب سے جاری کردہ 13 دسمبر کی تصاویر نے بین الاقوامی سطح پر تھرتھراہٹ پیدا کر دی ہے۔ یہ تصاویر بتاتی ہیں کہ نطنز کے پائلٹ فیول انرچمنٹ پلانٹ میں ملبے کے ڈھیر پر خاموشی نہیں، بلکہ پراسرار ہلچل ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آیت اللہ علی خامنہ ای کا یہ دعویٰ سچ تھا کہ جون کی جنگ میں ’’ دشمن کچھ خاص حاصل نہیں کر سکا‘‘، تو پھر آج نطنز میں تباہ شدہ تنصیبات کے اوپر ’’ پینلز‘‘ لگا کر انہیں چھپانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا یہ محض ملبہ ہٹانے کا عمل ہے یا اس ملبے کے نیچے بچ جانے والا وہ انتہائی افزودہ یورینیم ہے جسے دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنا اب تہران کی مجبوری بن چکا ہے؟۔
سچائی اکثر ملبے کے نیچے دبی ہوتی ہے اور طاقتور ترین کیمرے بھی صرف سطح کو دیکھ سکتے ہیں، نیتوں کو نہیں۔ نطنز میں تباہ شدہ اینٹی ڈرون پنجرے کے باقیات پر پینلز کی تنصیب دراصل ایک نفسیاتی اور اسٹریٹجک پردہ پوشی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران ان پینلز کے نیچے ان ’’ چند کلوگرام ‘‘ انتہائی افزودہ یورینیم کو نکالنے یا محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو حملے کے وقت وہاں موجود تھا۔ یہ مقدار اگرچہ ایران کے کل ذخیرے کے مقابلے میں کم ہے، لیکن جوہری تکنیک اور حفاظتی نقطہ نظر سے اس کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ایک مہلک غلطی ہوگی۔ لیکن اصل خطرہ نطنز کا ملبہ نہیں، بلکہ وہ جگہ ہے جو ان حملوں میں بھی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ محفوظ رہی۔ جون 2025ء کے حملوں سے بہت پہلے، دسمبر 2024ء میں، ایران نے فردو میں خاموشی سے ایک ایسی تکنیکی تبدیلی کر لی تھی جس نے اس کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو چار سے چھ گنا بڑھا دیا۔ یہ وہ ’’ گیم چینجر‘‘ ہے جس پر عالمی میڈیا کی نظریں کم گئیں۔
فردو میں نصب کیے گئے نئے سینٹری فیوجز کے سیٹ اپ نے ایران کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اب 25سے 34کلوگرام ماہانہ کی رفتار سے 60فیصد تک خالص یورینیم تیار کر رہا ہے۔ یہ مقدار کسی بھی سویلین پروگرام کے لیے نہیں ہوتی۔ 60 فیصد افزودگی کا مطلب ہے کہ آپ ایٹم بم کے لیے درکار 90فیصد پاکیزگی سے صرف ایک قدم کی دوری پر ہیں۔ آئی اے ای اے (IAEA)کے سربراہ رافیل گروسی کی تشویش بے جا نہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس پہلے ہی اتنا مواد موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو چند ہی ہفتوں میں کئی ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ جون کی جنگ میں اسرائیل اور امریکہ نے نطنز کی اوپری عمارتوں کو تو خاکستر کر دیا، لیکن فردو کے پہاڑوں میں محفوظ وہ مشینری جو 20فیصد افزودہ یورینیم کو براہ راست 60فیصد میں بدل رہی ہے، اب بھی پوری رفتار سے گھوم رہی ہے۔
روس اور ایران کے درمیان جنوری 2025ء میں ہونے والے اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے اور بعد ازاں ستمبر میں 25 بلین ڈالر کے نیوکلیئر پلانٹ ڈیل نے مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جب دنیا کے دروازے تہران پر بند ہو رہے تھے، ماسکو نے اپنی کھڑکیاں کھول دیں۔ یہ اتحاد محض اقتصادی نہیں بلکہ عسکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایران کو اپنے تباہ شدہ ایٹمی ڈھانچے کی تعمیرِ نو کے لیے حساس پرزہ جات یا تکنیکی مہارت درکار ہوگی، تو اسے بلیک مارکیٹ میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کا نیا اتحادی اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ دوسری جانب، ایران کی داخلی سیاست اور سپریم لیڈر کا رویہ ایک عجیب تضاد کا شکار ہے۔ جون کے حملوں کے بعد خامنہ ای کا یہ بیان کہ ’’ ایران کبھی سر نہیں جھکائے گا‘‘ اور پارلیمنٹ کا آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا فیصلہ، دراصل کمزوری نہیں بلکہ ایک خطرناک ڈیٹرنس کی حکمت عملی ہے۔ ایران یہ پیغام کہ اگر اسے روایتی ہتھیاروں اور پراکسی نیٹ ورکس ( جیسے حزب اللہ اور شام) کے ذریعے تحفظ نہیں مل سکتا، تو پھر جوہری ہتھیار ہی بقا کا واحد راستہ ہیں۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کے تباہ ہونے کے بعد، ایران کا ’’ مزاحمتی محور‘‘ بکھر چکا، یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ کسی ریاست کے روایتی بازو کاٹ دئیے جائیں، تو وہ اپنے دفاع کے لیے آخری اور مہلک ترین آپشن کی طرف دیکھتی ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام اب صرف ’’ توانائی‘‘ یا ’’ سائنس‘‘ کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ حکومت کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش اور ’’ زیادہ سے زیادہ دبائو‘‘ کی پالیسی کے درمیان جو خلا پیدا ہوا، اس نے تہران کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ این پی ٹی سے علیحدگی ہی شاید اگلا منطقی قدم ہو۔
اس منظر نامے میں سب سے زیادہ تشویشناک پہلو نگرانی کے نظام کا خاتمہ ہے۔ رافیل گروسی کا یہ اعتراف کہ ’’ ایجنسی کی ایران میں نگرانی کی صلاحیت ٹوٹ چکی ہے‘‘۔ جب کیمرے بند ہوں، انسپکٹرز کو رسائی نہ ہو اور سیٹلائٹ صرف اوپری سطح کو دیکھ سکیں، تو یہ اندازہ لگانا ناممکن ہو جاتا ہے کہ کب ایران ’’ بریک آئوٹ‘‘ کر کے ایٹمی دہلیز عبور کر لے گا۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ موجودہ رفتار سے ایران 2026ء کے وسط تک 10ایٹم بموں کے برابر مواد جمع کر سکتا ہے۔
ہر گزرتا دن جب تک کوئی حتمی سفارتی حل نہیں نکلتا، ایران کو بم کے مزید قریب لے جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ، جو خود داخلی مسائل اور عالمی تنازعات میں گھری ہوئی ہے، ایران کو اس راستے سے ہٹا پائے گی؟ یا پھر ہم ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو شاید 12دن پر محیط نہ ہو بلکہ نسلوں تک چلے؟۔

جواب دیں

Back to top button