تازہ ترینخبریںسیاسیاتپاکستان

فتنہ الخوارج یا پاکستان افغانستان کو فیصلہ کرنا ہوگا

فتنہ الخوارج یا پاکستان
افغانستان کو فیصلہ کرنا ہوگا
چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قومی علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب محض ایک رسمی تقریر نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے داخلی و خارجی بیانیے کی ازسرِنو تشکیل، ریاستی مقف کی وضاحت اور امتِ مسلمہ کے تناظر میں پاکستان کے کردار کی فکری تشریح تھی۔ اس خطاب میں مذہب، ریاست، سلامتی اور خطے کی سیاست کو ایک مربوط فریم ورک میں پیش کیا گیا، جو موجودہ حالات میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ملک بھر سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور مشائخ شریک تھے۔ یہ اجتماع خود اس امر کی علامت تھا کہ ریاست اب مذہبی بیانیے کو محض سیکیورٹی کے زاویے سے نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی سطح پر بھی مضبوط بنیاد فراہم کرنا چاہتی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا خطاب اسی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان کے قیام کو محض جغرافیائی یا سیاسی واقعہ قرار دینے کے بجائے ایک نظریاتی مشن کے طور پر پیش کیا۔ ریاستِ طیبہ اور ریاستِ پاکستان کے مابین مماثلت کا حوالہ دے کر انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان کی شناخت محض ایک قومی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی ہے، جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔ رمضان کے مقدس مہینے میں قیام کا ذکر ایک علامتی پہلو رکھتا ہے، جس کے ذریعے انہوں نے عوام اور علماء کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کا وجود ایک الٰہی امانت ہے۔ فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک میں سے محافظینِ حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا، ایک مضبوط نظریاتی دعویٰ ہے۔ اس بیان کے ذریعے انہوں نے نہ صرف پاکستان کے عسکری کردار کو امتِ مسلمہ کے تناظر میں اجاگر کیا بلکہ قومی سلامتی کو مذہبی ذمے داری سے جوڑ دیا۔ یہ بیانیہ داخلی طور پر عسکری اداروں کے کردار کو اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے اور خارجی سطح پر پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک ذمے دار قوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ان کا موقف انتہائی واضح اور دوٹوک تھا۔ انہوں نے یہ بات پوری صراحت سے کہی کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں جہاد کا اعلان صرف ریاست کا حق ہے، کسی فرد، گروہ یا تنظیم کو یہ اختیار حاصل نہیں۔ یہ بیان دراصل ان مذہبی و عسکری گروہوں کے بیانیے کی براہِ راست نفی ہے جو دین کے نام پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔ علماء کے مجمع میں یہ بات کہنا اس لیے بھی اہم ہے کہ مذہبی طبقہ ہی اس بیانیے کو عوام تک موثر انداز میں پہنچا سکتا ہے۔ افغانستان سے متعلق فیلڈ مارشل کا بیان خطے کی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشان دہی کرتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ افغانستان کو فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک واضح سفارتی و سیکیورٹی پیغام ہے۔ یہ بیان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اب دہشت گردی کے معاملے پر کسی قسم کی ابہام یا نرمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ افغان طالبان کی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی اور معصوم شہریوں، بچوں کو نشانہ بنانے کا ذکر ایک تلخ حقیقت ہے، جسے نظر انداز کرنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ فیلڈ مارشل نے دہشت گرد عناصر کو فتنہ الخوارج قرار دیا۔ یہ اصطلاح محض عسکری نہیں بلکہ مذہبی وزن رکھتی ہے۔ خوارج کی تاریخ اسلامی تناظر میں شدت پسندی، تکفیر اور ریاست کے خلاف بغاوت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کے استعمال سے ریاست نے شدت پسند عناصر کو دینی طور پر بھی غیر معتبر قرار دینے کی کوشش کی ہے، جو ایک مضبوط فکری حکمتِ عملی ہے۔ آپریشن بُنیان مرصوص کا ذکر کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ انہوں نے اس میں اللہ کی مدد کو محسوس کیا، عسکری کامیابی کو روحانی پہلو سے جوڑتا ہے۔ یہ بات نہ صرف فوج کے مورال کو بلند کرتی ہے بلکہ عوام میں یہ تاثر بھی مضبوط کرتی ہے کہ ریاستی اقدامات محض طاقت کے بل پر نہیں بلکہ اخلاقی اور دینی اصولوں کے تحت کیے جارہے ہیں۔ خطاب کا ایک اہم اور نسبتاً کم زیرِ بحث آنے والا پہلو علم، فکر اور قلم کی اہمیت پر زور تھا۔ فیلڈ مارشل نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ قومیں زوال کا شکار ہوئیں جنہوں نے اپنی علمی و فکری میراث کو چھوڑ دیا۔ یہ پیغام دراصل اس بات کی یاد دہانی ہے کہ سیکیورٹی محض بندوق سے نہیں بلکہ سوچ، علم اور فکری استحکام سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ علماء کے اجتماع میں یہ بات کہنا اس بات کی علامت ہے کہ ریاست علماء کو محض مذہبی رہنما نہیں بلکہ فکری سپاہی کے طور پر بھی دیکھ رہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ خطاب پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک جامع ریاستی بیانیہ پیش کرتا ہے، جس میں نظریہ، سلامتی، مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ خطاب اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان اب دہشت گردی، انتہاپسندی اور بیرونی دبا کے سامنے واضح موقف کے ساتھ کھڑا ہے۔ علمائ، عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کیے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی اور یہی پیغام اس کانفرنس اور خطاب کا اصل خلاصہ ہے۔
انڈر 19ایشیا کپ پاکستان کے نام
پاکستان انڈر 19 ٹیم کی جانب سے ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت کے خلاف 191رنز کی شاندار فتح محض ایک میچ نہیں بلکہ قومی کرکٹ کی تاریخ کا ایک یادگار باب ہے۔ دبئی میں کھیلا گیا یہ فائنل پاکستان کی نوجوان ٹیم کے عزم، تیاری اور بے خوف کرکٹ کا عملی ثبوت تھا، جس نے برسوں سے چلے آ رہے ایک خلا کو پُر کر دیا۔ میچ کا آغاز ہی پاکستان کے حق میں ہوا جب اوپنر سمیر منہاس نے ایسی طوفانی اننگز کھیلی جو انڈر 19کرکٹ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ 113گیندوں پر 172رنز کی اننگز میں اعتماد، تکنیک اور جارحیت کا شاندار امتزاج نظر آیا۔ یہ صرف ایک بڑی اننگز نہیں تھی بلکہ فائنل جیسے دبا والے میچ میں حریف کو نفسیاتی طور پر زیر کرنے کا اعلان تھا۔ احمد حسین کی 56اور عثمان خان کی 35رنز کی معاون اننگز نے اس اسکور کو مزید مضبوط بنیاد فراہم کی، جس کے نتیجے میں پاکستان نے 50اوورز میں 347رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ اتنے بڑے ہدف کے تعاقب میں بھارتی بیٹنگ لائن مکمل طور پر دبائو کا شکار نظر آئی۔ پاکستان کے نوجوان بائولرز نے نہ صرف لائن اور لینتھ برقرار رکھی بلکہ فیلڈنگ میں بھی بھرپور توانائی دکھائی۔ علی رضا کی چار وکٹیں میچ کا اہم موڑ ثابت ہوئیں، جبکہ محمد صیام، عبدالسبحان اور حذیفہ احسن نے بروقت وکٹیں لے کر بھارت کی واپسی کے تمام دروازے بند کر دئیے۔ یہ حقیقت کہ بھارت کا ٹاپ اسکورر دسویں نمبر پر آنے والا بیٹر تھا، پاکستانی بولنگ کی برتری کو واضح کرتی ہے۔ یہ فتح اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان انڈر 19ٹیم ماضی میں دو مرتبہ آئی سی سی انڈر19ورلڈکپ جیت چکی تھی مگر ایشیا کپ کا ٹائٹل کبھی تنہا اپنے نام نہ کر سکی تھی۔ 2012ء میں بھارت کے ساتھ مشترکہ چیمپئن بننے کے بعد یہ خواب 13سال تک ادھورا رہا۔ اس بار نوجوانوں نے نہ صرف یہ انتظار ختم کیا بلکہ تاریخی مارجن سے جیت کر ایشیائی کرکٹ میں اپنی بالادستی منوائی۔ یہ کامیابی پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے مثبت پیغام ہے۔ درست منصوبہ بندی، نچلی سطح پر ٹیلنٹ کی شناخت اور کھلاڑیوں پر اعتماد کا نتیجہ اس شاندار فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ سمیر منہاس جیسے کھلاڑی اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ اگر ان کی درست رہنمائی کی گئی تو یہی نوجوان کل قومی ٹیم کا مضبوط ستون بن سکتے ہیں۔ ایشیا کپ کی یہ فتح صرف ایک ٹرافی نہیں بلکہ اس یقین کی تجدید ہے کہ پاکستانی کرکٹ میں صلاحیت کی کمی کبھی نہیں رہی، ضرورت صرف درست سمت اور اعتماد کی ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button