Column

معیشت کی ترقی اور تحفظ

معیشت کی ترقی اور تحفظ
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی سفر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس سے نہ صرف فرد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں بلکہ اس کے معاشی اور قومی اثرات بھی بڑے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف اقدامات کی منظوری دی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کی کاوشوں کی تعریف بھی کی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ وزیراعظم نے پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے برآمدات میں اضافے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ یہ دونوں اقدامات نہ صرف ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے اہم ہیں بلکہ پاکستان کی عالمی ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے اور غیر قانونی بیرون ملک سفر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعدد اہم اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ غیر قانونی طور پر سفر کرنے والوں اور مشکوک سفری دستاویزات رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے یہ یقینی بنایا جائے کہ اس سے معتبر سفری دستاویزات رکھنے والے مسافر متاثر نہ ہوں۔ اس بات کو یقینی بنانا نہ صرف انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ حکومت کی ساکھ کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، وزیراعظم نے پروٹیکٹوریٹ آف ایمیگرینٹس کی کارکردگی میں بہتری لانے کی ہدایت دی ہے تاکہ غیر قانونی سفر کرنے والوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کی ہم آہنگی میں اضافہ اور امیگریشن کے نظام میں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف کارروائیوں میں تیزی آ سکتی ہے بلکہ شفافیت بھی بڑھ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کرپٹ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت بھی دی، اور اس ضمن میں ایف آئی اے میں کرپشن کے الزام میں 196افسران اور اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کرنے کا اقدام قابل تعریف ہے۔ اس سے نہ صرف اداروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے بلکہ عوام کا بھی حکومتی اقدامات پر یقین مضبوط ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے اجلاس میں بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA)نے اس سال 451افراد کو گرفتار کیا ہے جو غیر قانونی سفر اور انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث تھے۔ اس کارروائی کی بدولت یورپ کا غیر قانونی سفر کرنے والوں کی تعداد میں 47فیصد کمی آئی ہے، اور برطانیہ اور خلیج کے ممالک میں بھی غیر قانونی سفر کے واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا اشارہ ہیں کہ حکومت کے اقدامات میں موثریت ہے، مگر اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے ابھی بھی مزید محنت کی ضرورت ہے۔جہاں حکومت انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی سفر کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے، وہیں وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی ترقی کے لیے برآمدات کے شعبی میں اضافے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے اور حکومت اس مقصد کے لیے کاروباری افراد اور برآمد کنندگان کو ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔ برآمدات میں اضافہ پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ برآمدات نہ صرف ملک کے لیے زرمبادلہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، بلکہ یہ ملک کے صنعتی شعبے کی ترقی کو بھی فروغ دیتی ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر بناتی ہیں۔ وزیراعظم نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)کے فروغ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ برآمدات کے شعبے میں وسعت آئے اور روزگار کے مواقع بڑھیں۔ پاکستان کی معیشت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی ترقی سے نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے بلکہ اس سے نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔ وزیراعظم نے وفاقی وزراء برائے تجارت، صنعت و پیداوار اور قومی غذائی تحفظ کو مختلف صنعتی و تجارتی شہروں میں برآمدکنندگان سے ملاقاتیں کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ اس طرح کی ملاقاتوں سے برآمدات کے لیے بہتر حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے اور کاروباری افراد کو درپیش مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کولڈ چین اور صنعت و تجارت سے منسلک دیگر شعبوں کے فروغ کے لیے صوبوں سے روابط مزید بہتر بنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ کولڈ چین کے نظام کی ترقی سے نہ صرف زرعی مصنوعات بلکہ دیگر شعبوں کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ کولڈ چین کے ذریعے پاکستان کی زرعی مصنوعات، خاص طور پر پھل اور سبزیاں، عالمی منڈیوں میں بہتر قیمتوں پر فروخت کی جا سکتی ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کو نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرنا ہوگا، بلکہ نئی حکمت عملی بھی تیار کرنی ہوگی تاکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کا حصہ بڑھایا جا سکے۔ وزیراعظم کے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور برآمدات میں اضافے کے حوالے سے دی جانے والی ہدایات پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ اگر حکومت اپنی پالیسیوں کو موثر طریقے سے نافذ کرتی ہے اور غیر قانونی سفر کے خلاف سخت اقدامات کرتی ہے، تو نہ صرف انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی ایک نئی سمت ملے گی۔ برآمدات کے شعبے میں ترقی سے ملک کی معیشت کو استحکام ملے گا اور عوام کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے ساتھ، انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پاکستان کی عالمی ساکھ کو بہتر بنائیں گے اور پاکستانی عوام کو غیر قانونی سفر اور دھوکہ دہی سے بچائیں گے۔
بھارت: اقلیتوں کے حقوق کی پامالی
بھارت میں مودی حکومت کی زیر قیادت اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں اور ان کے حقوق کی پامالی سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی گروپوں کو مسلسل مذہبی آزادی سے محروم کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز امریکی کانگریس کے ارکان اور عالمی مذہبی آزادی کمیشن (USCIRF)کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھارت کو عالمی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان عالمی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتی گروپوں کی صورتحال مسلسل بگڑ رہی اور اس پر خاموشی اختیار کرنا عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ مودی حکومت نے بھارت کی مختلف ریاستوں میں مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین نافذ کیے ہیں، جنہیں اقلیتی کمیونٹیز کے خلاف استعمال کیا جارہا ہی۔ بھارت کی 12ریاستوں میں یہ قوانین موجود ہیں جو خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد اقلیتی گروپوں کو غیر ضروری خوف میں مبتلا کرنا اور ان کے مذہبی آزادی کے حق کو سلب کرنا ہے۔ ان قوانین کے ذریعے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا اور مذہبی رہنمائوں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ مودی حکومت نے ’’ لو جہاد’’ جیسے متنازعہ تصورات کو بھی فروغ دیا، جس کا مقصد مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان نفرت پھیلانا اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو مزید بڑھانا ہے۔ اتر پردیش میں ایک مسیحی پادری اور ان کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس الزام کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں تھی۔ امریکی رہنمائوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ مدھیہ پردیش میں جبری مذہب تبدیلی کے الزام پر سزائے موت تجویز کی جارہی ہے، جو عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ اقدام بھارت کی حکومتی پالیسی کی خطرناک نوعیت کو ظاہر کرتا ہے، جس میں اقلیتی گروپوں کے حقوق کی صریح پامالی کی جارہی ہے۔ مودی حکومت کا یہ دہرا معیار بھارت کی عالمی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک طرف بھارت عالمی سطح پر جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسری طرف وہاں اقلیتی حقوق کی پامالی اور مذہبی آزادیوں پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔ عالمی مذہبی آزادی کمیشن نے واضح کہا ہے کہ بھارت کو عالمی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دیا جائے، کیونکہ وہاں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور مودی حکومت کے اقدامات نے اقلیتی گروپوں کے لیے مسائل مزید بڑھا دئیے ہیں۔ عالمی سطح پر بھارت کی جمہوریت اور انسانی حقوق کی بارے میں سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ بھارت کو اپنی داخلی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اقلیتی حقوق کا احترام کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف اس کی داخلی سیاست مستحکم ہو، بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ بھی محفوظ رہے۔ اگر بھارت نے اپنی پالیسیوں میں فوری اصلاحات نہ کیں، تو اس کی عالمی ساکھ پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button