Column

لوگ تین قسم کے ہیں

لوگ تین قسم کے ہیں
تحریر : علیشبا بگٹی
کہا جاتا ہے ایک بادشاہ تھا۔۔ طاقت اس کے تخت کے پایوں میں بندھی تھی اور اختیار اس کے ہاتھ کی انگوٹھی میں۔ ایک دن اس نے دربار میں اعلان کیا۔
” میں جاننا چاہتا ہوں کہ دنیا میں سب سے خطرناک انسان کون ہے؟”۔ درباری سوچ میں پڑ گئے۔ کسی نے کہا، ” باغی سب سے خطرناک ہوتا ہے”۔ کسی نے کہا، ” دشمن” ۔ کسی نے کہا، ” بھوک” ۔ مگر بادشاہ خاموش رہا۔ پھر اس نے شہر کے ایک بوڑھے حکیم کو بلایا جو عالم بھی تھا۔ اور دانا بھی۔ حکیم نے مسکرا کر کہا۔ حضور، ” سب سے خطرناک انسان وہ ہے جو نہ جانتا ہے، نہ جاننا چاہتا ہے، اور نہ یہ مانتا ہے کہ وہ لاعلم ہے”۔ بادشاہ چونک گیا۔ یہ جواب اس کے تاج سے زیادہ وزنی تھا۔ اور اس کی سمجھ سے بھی بالاتر تھا۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں تاریخ، مذہب، نفسیات اور فلسفہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ اسلام میں علم کو غیر معمولی حیثیت دی گئی۔ پہلی وحی کا پہلا لفظ ” اقر ” تھا۔ حضورؐ نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، عِلم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے”۔
اور حضرت علیؓ کا وہ قول تو صدیوں سے انسان کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ” لوگ تین قسم کے ہیں۔ ایک عالم، دوسرا علم حاصل کرنے والا، اور تیسرا وہ جو راستہ نہیں جانتا۔ تباہی اسی کے لیے ہے جو نہ عالم ہے، نہ طالبِ علم، اور نہ ہدایت کو تلاش کرنے والا "۔ دراصل یہ محض مذہبی نصیحت نہیں، بلکہ یہ انسانی نفسیات کا خلاصہ ہے۔ نفسیات کہتی ہے انسان کی سب سے خطرناک کیفیت ” جہالت ” نہیں بلکہ” جہالت کا احساس نہ ہونا ” ہے۔ اسے جدید علم میں Dunning-Kruger Effectکہا جاتا ہے، یعنی کم علم انسان خود کو سب سے زیادہ عقل مند سمجھتا ہے۔ وہ سوال نہیں کرتا، وہ سیکھتا نہیں، وہ ضد کو یقین سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جو گھر توڑتا ہے، معاشرے بگاڑتا ہے اور قوموں کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔ فرعون عالم نہیں تھا، طالبِ علم بھی نہیں، اور اس نے ہدایت کو حقارت سے رد کر دیا۔ نتیجہ؟ سمندر اس کا استاد بنا، مگر سبق دینے کے بعد۔ نمرود نے آگ کو علم سمجھا، مگر آگ کے خالق کو نہیں سمجھا ، انجام سب کے سامنے ہے۔ اندلس کی تباہی تلوار سے نہیں، علم سے دوری سے ہوئی۔ بغداد کتابوں کے ساتھ جلایا گیا تو امت صدیوں پیچھے چلی گئی۔ فلسفہ کہتا ہے سقراط نے خود کو دانا اس لیے مانا کہ وہ جانتا تھا کہ وہ بہت کچھ نہیں جانتا۔ یہی طالبِ علم کی پہچان ہے۔ سوال، جستجو اور عاجزی۔ اس کے برعکس جو شخص نہ سوال کرے، نہ سیکھے، اور نہ ہدایت کی طرف بڑھے، وہ اندر سے بند ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دلیل سے نہیں، شور سے بات کرتے ہیں۔ قومیں غربت سے نہیں، سوچ کی تنگی سے مرتی ہیں۔ اور سوچ تب تنگ ہوتی ہے جب انسان سیکھنا چھوڑ دے۔ جب انسان خود کو عقل کل سمجھنے لگے ۔ کسی دوسرے کی بات سننا اور اس پر توجہ دینا ترک کرے۔
بادشاہ کے قصے پر واپس آتے ہیں۔ روایت ہے کہ اس دن بادشاہ نے دربار بند کر دیا اور شہر میں مدرسے، کتب خانے اور بحث کے حلقے قائم کر دئیے۔ اس نے کہا۔ ” مجھے عالم نہیں چاہئیں، مجھے طالبِ علم چاہئیں۔ کیونکہ طالبِ علم ہی کل کا عالم بنتا ہے، اور جو طالبِ علم نہیں، وہ کل کا مسئلہ بنتا ہے”۔
سوال یہ نہیں کہ آپ عالم ہیں یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے ۔ کیا آپ سیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ سب کو سن رہے ہیں ؟ کیا آپ راستہ تلاش کر رہے ہیں ؟ یا آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی بارے میں کہا گیا۔ ” تباہی اسی کے لیے ہے جو نہ عالم ہے، نہ طالبِ علم، اور نہ ہدایت کو تلاش کرنے والا "۔
فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ تخت پر بیٹھنا آسان ہے، سیکھنے کے لیے جھکنا مشکل ، مگر نجات ہمیشہ جھکنے والوں کو ملتی ہے۔ اور لوگوں پر وہی راج کرتے ہیں جن کے دروازے ہمیشہ لوگوں کے لئے کھلے ہوتے ہیں جو لوگوں کی بات نہ صرف توجہ، خاموشی اور اطمینان سے سنتے ہیں۔ بلکہ ان سے سیکھتے بھی ہیں اور اگر ان کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اسے حل کر کے خوشیاں بھی بکھرتے رہتے ہیں۔ وہ غریبوں پر کبھی بھی فرعون نہیں بنتے۔۔

جواب دیں

Back to top button