ٔٔٔدانشوروں کی الٹی گنگا

ٔٔٔدانشوروں کی الٹی گنگا
تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ
سیاسی جماعتوں کے ترجمان اگر دانشور بن جائیں تو ہر معاملے میں ان کی گنگا الٹی بہتی ہے۔ وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ جب وقت انہیں مزاحمت کے لیے پکارے تو وہ ٹھنڈے میٹھے غیر جانب دارانہ تجزیوں کی آڑ میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں۔ ان کے ترکش بدعنوان اشرافیہ کے دفاع کے لیے ہر وقت تیروں سے بھرے رہتے ہیں ہوتا ہے۔ جب بھی صدق و صفا اور کذب و افترا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو دانشور سفینہ کذب و افترا پر سوار ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسند دانش وری پر کمال ڈھٹائی سے براجمان بھی رہتے ہیں۔ یہ دانشور سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے ٹاک شوز ، کالم نویسی اور صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ ہر سیمینار میں کلیدی مقرر کے طور پر مدعو کیے جاتے ہیں۔
یہ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں اور اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ حکمت و دانائی منہ دیکھتے رہ جاتی ہیں۔ ان کا مطالعہ تاریخ تعصبات کا اسیر ہے۔ یہ تاریخ کے ایک دور کو تمام برائیوں کا محور قرار دیتے ہیں۔ اس طبقہ دانشوروں کے نزدیک صرف ایک فرد پر تنقید کرکے 78برس کی غلطیوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ اسے آئین ، جمہوریت، طرز حکومت، گڈ گورننس اور ریاست کی ذمہ داریوں سے کوئی غرض نہیں۔
یہ دانشور وراثتی سیاست کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک متبادل اور نئی قیادت کے سامنے آنے سے کہیں بہتر ہے کہ سیاسی جماعتیں چند ہاتھوں میں یرغمال بنی رہیں۔ وراثتی سیاست کے دفاع کے لیے یہ دانشور تاریخ سے حوالے دیں گے۔ ابن خلدون کی کتابیں انہیں ازبر ہیں۔ عصبیت کا تصور تو گویا گھٹی میں ملا ہے۔ ان کا تصور ریاست خوشامد کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے خیال میں ایک سیاسی جماعت ذاتی کاروبار یا جاگیر کی طرز پر چلائی جانی چاہیے اور باپ کے بعد یہ ورثہ لازماً اولاد کو منتقل ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں میرٹ کی پامالی ہو تو ہو لیکن عصبیت کے تصور کی لاج ضرور رکھنی چاہیے۔ اس منطق کی رو سے ایک بدعنوان سیاست دان کے بعد اس کی بدعنوان اولاد سیاسی جماعت کی مالک بن جائے اور اپنے گرد خوشامدیوں، راتب خوروں اور درباریوں کا ٹولہ اکٹھا کر لے تو اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔
ان دانشوروں کے فہم سیاست کی روشنی میں بار بار سلیکشن جمہوریت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ جب انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت کا ہر حال میں دفاع کرنا ہے تو یہ سلیکشن پر شرمسار نہیں ہوتے بل کہ اسے درست سمجھتے ہیں۔ ان قصیدہ گو دانشوروں کے اصول دانش وری کی رو سے ہر بار اسی در پر دستک دینا، جھولی پسارنا، اقتدار کی بھیک مانگنا تاریخ کا جبر ہیں۔ ایک غلط عمل کو غلط کہنے کے بجائے لفظوں کی ملمع کاری سے ڈھانپ لینا انہی کے دست ہنر کا کرشمہ ہے۔
ان دانشوروں کی فکری سطح اس وقت اپنے جوبن پر پہنچ جاتی ہے جب یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں۔ یہ اس نقطہ نظر کے حامی ہیں کہ جو مینڈیٹ ان کی منشاء کے مطابق نہ ہو ، چھین لینا چاہیے۔ جس مینڈیٹ سے ان کے ممدوح کی مقبولیت پر حرف آتا ہو، ضبط کرلیا چاہیے۔ ہر اس مینڈیٹ پر جو طرز کہن کے بجائے آئین نو کا آئینہ دار ہو، شب خون مارنا چاہیے۔ ان دانشوروں کو وطن عزیز کے 78برسوں کی سیاسی تاریخ میں صرف ایک سلیکشن نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے اور بعد کی سیاست پر گفت گو کرنے سے ان کی زبانوں پر آبلے پڑتے ہیں۔ جب ان کے ناپسندیدہ لوگ برسرِ اقتدار تھے تو اخبارات میں ان دانشوروں کے کالم حق گوئی ، جمہوریت پسندی ، انقلابی فکر اور نعرہ مستانہ سے مزین ہوتے تھے۔ جوں ہی اقتدار کا ہما ان کے سیاسی آقا کے سر پر بیٹھ گیا ، انہوں نے اپنے اصول بدل دیئے، معیارات فراموش کر دئیے اور آدرش بھلادئیے۔ ان کے مطالعہ تاریخ کی رو سے سیاست میں صرف ایک ہی پراجیکٹ لانچ کیا گیا ہے۔ جب یہ اس ناپسندیدہ پراجیکٹ پر تنقید کرتے ہیں ، عین اسی وقت یہ اپنے پسندیدہ پراجیکٹ کے دفاع کے لیے استدلال، زور بیاں اور معجز بیانی ۔ سب صرف کر ڈالتے ہیں۔ اس قبیل کے دانشوروں کی فکر کا سب سے خوب صورت پہلو ان کی رعنا نثر ہے۔ ان کی تحریریں جھرنوں کی راگنی ، ندیوں کی مدھر موسیقی ، بادصبا کے خرام اور کلیوں کے تبسم کی مانند ہوتی ہیں۔ اس دل کش نثر کے لبادے میں یہ دانش ور اپنی فکری کجی چھپا لیتے ہیں۔ دانشوروں کی اس جماعت کے سرخیل نے ایک دوسرے دانشور کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اپنی خوب صورت نثر کی مدد سے استدلال کی کم زوری کا مداوا کر دیتے تھے۔ ان دانشوروں کو شعور کی ہر صدا سے چڑ، مزاحمت کی ہر للکار سے بغض اور حریت کی ہر آواز سے نفرت ہے۔ ان دانشوروں کے فہم ریاست کی رو سے بدعنوانی جائز جبکہ بدعنوانی پر سوال اٹھانا ناجائز ہے۔ ان کے سامنے جب ان کے پسندیدہ سیاست دان پر تنقید ہو تو یہ اسے گالی قرار دیتے ہیں۔ یہ دانشور گالی کی سیاست کی مذمت کرتے وقت بھی تاریخ مسخ کرتے ہیں۔
ان کے فہم سیاست کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ بس یہی ہے کہ دہائیوں سے قوم پر مسلط گدھوں ، مگر مچھروں اور بھیڑیوں سے مصالحت کرلی جائے، دذدان قافلہ جمہوریت سے مفاہمت کرلی جائے اور تیرہ شبی کے رفیقوں سے صلح کرلی جائے ، ظلم پر خاموشی اختیار کرلی جائے، استبداد پر سکوت اختیار کیا جائے اور ریاستی جبر کو ریاست کی رٹ قرار دیا جائے۔ ریاست لوگوں کا لہو پیے، استحصال کرے، متاع آبرو سے محروم کرے، لاقانونیت پر اتر آئے ، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرے تو بھی اس کے قصیدے پڑھے جائیں۔
ان دانشوروں کے تجزیے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حریفانہ تجزیہ اور حبیبانہ تجزیہ۔ جب یہ اپنے حریف سیاست دان کی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو بہت سخت پیمانوں سے اسے جانچتے، بڑے سخت معیارات پر پرکھتے اور کڑی سے کڑی کسوٹیوں پر اسے تولتے ہیں۔ حریفانہ تجزیوں میں جمہوریت ، اخلاقیات ، آئین ، گڈ گورننس اور علم معیشت ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پر بھی پورا نہ اترنے پر مطلوبہ شخصیت راندہ درگاہ قرار پاتی ہے۔
پھر وہ شخصیت بھی غلط، اس کی پیدائش بھی غلط، اس کے وابستگان بھی غلط، اس کے حمایتی بھی غلط اور روئے زمین ان کا وجود بھی غلط۔ حبیبانہ تجزیے کے وقت یہ دانش ور یک سر اپنے معیارات بدل لیتے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ یہ سب کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ پاور پالیٹکس ہے۔ اس میں ایسا ہی ہوتا ہے اور کچھ حتمی نہیں ہوتا گویا کسی سیاست دان کا ہزاروں کے مجمعے میں کھڑے ہوکر کسی کے احتساب کا نعرہ مستانہ بلند کرنا اور وقت آنے پر اسی کو گلے لگا کر اقتدار کی بھوک مٹانا کوئی معمولی بات ہے۔ اس کا اخلاقیات سے کوئی واسطہ اور جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محض اس لیے کہ کچھ کجیوں میں مبتلا شخصیت ان دانشوروں کی پسندیدہ ہے، معیارات بدل لینا ، اصول پر سمجھوتہ کر لینا اور پیمانے بدل لینا ، دانشوری ہرگز نہیں ہے۔
یہ دانشور اپنے ممدوح قائدین کے طرز زندگی کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ دانشور نما اس طبقے نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ مفلس کے بجائے امیر شہر ، مظلوم کے بجائے ظالم اور مقتول کے ورثا کے بجائے قاتل کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ان میں سے کچھ شعور کی اس سطح پر فائز ہیں کہ مدرز ڈے پر بھی انہیں اپنی والدہ کے بجائے اپنے قائد کی والدہ یاد آئی۔
یہ کیسے دانشور ہیں کہ غاصبوں کی دعوت طعام میں ان کا پس خوردہ کھاکر خوش ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی انہیں دانشوری کا دعویٰ بھی ہے اور اس پر زعم بھی۔
قائم نقوی نے کیا خوب کہا ہے:
سچ کو سچ لکھنے سے قائم ہم اکثر گھبرائے ہیں
جانیں کتنے جھوٹ گھڑے تو دانشور کہلائے ہیں
حافظ محمد قاسم مغیرہ





