ColumnRoshan Lal

مسائل، خواہشیں اور امیدیں

مسائل، خواہشیں اور امیدیں
تحریر : روشن لعل
اگر وطن عزیز کے طول و عرض میں نظریں دوڑائی جائیں تو جو شے فراوانی میں نظر آئے گی اس کا نام ’’ مسائل‘‘ ہے۔ عجیب بات ہے کہ جس قدر یہاں مسائل موجود ہیں اسی قدر ان کے حل کی خواہشیں بھی پائی جاتی ہیں مگر خواہشیں پوری ہونے کی امید نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ یہ صورتحال یہاں ہر طبقہ، ہر علاقے اور ہر سطح پر یکساں دکھائی دیتی ہے۔ فرد واحد سے معاشرتی گروہوں تک یہاں ہر کوئی مسائل کے حل کے لیے خواہشوں کا اسیر نظر آتا ہے۔ یہ صفت ملک کی سیاسی جماعتوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہی۔ جب بھی انتخابات کے انعقاد کا وقت قریب آتا ہے، تقریباً ہر سیاسی جماعت عوام کو خواہشوں کا چورن بیچنا شروع کر دیتی ہے مگر اکثر ہوائی باتیں کرنے والی ہماری سیاسی جماعتیں کوئی بھی ایسا لائحہ عمل پیش کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کے ساتھ ملکی مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کی جاسکیں۔ یہ بات تو یہاں تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ ملک کے موجودہ مسائل کیا ہیں مگر یہ احساس کم ہی کسی کو ہے کہ مسائل کس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے یہاں لوگ امید کا دامن تھامنے کی بجائے خواہشوں کے ایسے ابلاغ سے مرعوب ہو جاتی ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ خواہش اور امید کو باہم مترادف سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ خواہش ایک ایسا تصور ہے جس میں کسی مادی بنیاد کے بغیر توقعات کی تکمیل کے خواب دیکھے یا دکھائے جاتے ہیں جبکہ امید ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی موجود کے سہارے آگے بڑھنے اور حالات بہتر کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ خواہش اگر خوابوں کی دنیا ہے تو اس کے برعکس امید راہ عمل ہے۔ خواہشوں کی تکمیل کو جادوئی عمل سے وابستہ کیا جاسکتا ہے مگر امید کو نہیں۔ کچھ پانے کی خواہش کے ساتھ سکہ فوارے کے تالاب میں پھینک کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جاسکتا ہے مگر کسی کوپانے کی امید کرنے کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے حصول کے لیے جستجو کی جائے۔ خواہش ایک ایسا سراب ہے جس کی جانب سفر کا حاصل، پیاس کو مستقل اپنا ہم سفر بنائے رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، مگر امید ایک ایسی توقع ہے جس کے سہارے شدید ترین پیاس برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ کسی زلزلے یا سیلاب کی آفت میں تباہی کا شکار ہو نے کے بعد خواہشوں کے اسیر تو اپنی جائیداد کے نقصان پر روتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’ کاش ‘‘ یہ آفت ان پر نازل نہ ہوتی مگر پر امید لوگ اپنی جان بچ جانے پر شکر ادا کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ نہیں رہا اسے زندگی کے سہارے پھر سے دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ خواہشیں اگر توقعات تک محدود رہنے کی حجت ہیں تو امید توقعات کی تکمیل کے لیے منصوبہ سازی اور عمل کا نام ہے۔
اب ذکر ہو جاءے ان ملکی مسائل کا جن کا حل پیش کرنے کی بجائے عوام کو خواہشوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی کشتی کا مسافر بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو شاید دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو اس وقت وطن عزیز کے عوام کو درپیش نہ ہو۔ بیرونی قرضے، تجارتی خسارہ، غربت، ناخواندگی، توانائی کا بحران، بد عنوانی، سیاسی عدم استحکام، معاشرتی عدم برداشت، بیرونی مداخلت، دہشت گردی، معاشی عدم استحکام، آبادی میں اضافہ، افراط زر، بیروزگاری ، صحت اور پانی کی کمیابی ہمارے ملک کے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ ان مسائل کا سامنا دنیا کے کئی دیگر ملکوں کو بھی ہے مگر جس طرح پاکستان میں یہ مسائل شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں اس کی مثال شاید کہیں اور ہے۔ مسائل کی یہ شدت ملک میں کس قدر افراتفری، انتشار اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے اس کا احساس نہ یہاں طاقت کا مرکز سمجھے جانے والے اداروں اور نہ ہی ان مراکز کی آشیر باد سے اپنی حکمرانی ممکن بنانے میں مصروف رہنے والے سیاستدانوں کو ہے۔
تقریباً ہر الیکشن سے قبل یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں جو کام بادل نخواستہ کرتی ہیں وہ منشور کی تیاری اور اسے پیش کرنا ہوتا ہے۔ تقریبا ہر سیاسی جماعت کے منشور میں ملکی مسائل کی نشاندہی تو کی جاتی ہے مگر ان کے حل کا کوئی روڈ میپ پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا ہوتا۔ بعض اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مکمل منشور پیش کرنے کی بجائے صرف کچھ ایسے نکات پیش کرنے پر اکتفا کرتی ہیں جنہیں کسی سیاسی پروگرام کا خاکہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے نکات کو ان مسائل کی نشاندہی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاسکتا جن سے عوام پہلے سے آگاہ ہوتے ہیں۔ عوام کی خواہش اپنے مسائل کا پائیدار حل ہے مگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسائل کا ٹھوس حل پیش کرنے اور لوگوں میں کوئی امید اجاگر کرنے کی بجائے ان کی خواہشوں کو پالش کر کے منشور نما کتابچہ کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ یہ کام کس حد تک کاروائی ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ہر سیاسی جماعت انتخابات کے سے قبل منشور پیش کرنے کے بعد کبھی مڑ کر نہیں دیکھتی کہ اس نے عوام سے کیا وعدی کیے تھے۔ یہاں تقریباً ہر سیاسی جماعت کی طرف سے ہر الیکشن سے قبل اپنے منشور میں جو وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں وہ اس قسم کے ہوتے ہیں؛ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں بہتری لاتے ہوئے لائن لاسز کو کم کیا جائے گا، گردشی قرضوں کا بحران مکمل ختم کیا جائے گا، حکومتی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کردی جائے گی، ریاستی اداروں کے سربراہوں کو مکمل خود مختار بنایا جائے گا، پولیس کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ختم کر دیا جائے گا، ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی جائے گی، انصاف کی تیز ترین فراہمی کو ممکن بنایا جائے گا، سیاسی معاملات میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت ختم کرکے پارلیمنٹ کی خود مختاری اور بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا، تمام بڑے منصوبوں میں احتساب کا عمل یقینی بنایا جائے گا، نیب کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ بنایا جائے گا، محتسب کے کردار کو زیادہ کارآمد اور موثر بنایا جائے گا، توانائی اور قدرتی وسائل کو عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کیا جائے گا، ٹیکس کی وصولی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا اور ملک میں تمام تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی۔سیاسی جماعتیں اپنے منشور وں میں عرصہ دراز سے جو مسائل حل کرنے کے وعدے کرتی چلی آرہی ہیں ان کے حجم اور تعداد میں ہر نئی حکومت آنے کے بعد مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں دانشوروں اور میڈیا کی طرف سے بہت کم اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ وعدے اور دعوے پورے کیے بغیر کچھ سیاسی جماعتیں کونسا وسیلہ استعمال کرتے ہوئے انتخابات میں اپنی جیت ممکن بنا لیتی ہیں۔ یہاں نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ انہیں آشیر باد دیتے رہنے والے طاقتور اداروں میں بیٹھے لوگ بھی کوہ ہمالیہ جتنے بلند ملکی مسائل کا غیر منطقی حل پیش کرتے ہوئے، عوام کے ذہنوں میں، کے ٹو، کی چوٹی تک اونچے خواہشوں کے پہاڑ تو کھڑے کر دیتے ہیں۔مگر امید کی کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں کرتے جس پر وہ زینے استوار ہو سکیں جو مسائل کی چوٹیاں سر کرنا ممکن بنا دیں۔

جواب دیں

Back to top button