بھارت میں خاتون کے چہرہ سے نقاب ہٹانا مذہبی آزادی پر حملہ

بھارت میں خاتون کے چہرہ سے نقاب ہٹانا مذہبی آزادی پر حملہ
تحریر : آمنہ سردار
لباس کسی معاشرے میں محض جسم ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تہذیب، شناخت اور فکری آزادی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے مہذب معاشروں میں فرد کے لباس کو اس کے ذاتی دائرہ اختیار میں شمار کیا جاتا ہے۔ ریاست کا کام یہ نہیں کہ وہ شہریوں کے حلیے طے کرے بلکہ یہ ہے کہ وہ ہر فرد کو اس کی شناخت کے ساتھ جینے کا تحفظ فراہم کرے۔ جدید سیاسی اصطلاح میں اسی رویے کو سیکولرازم کہا جاتا ہے۔ سیکولرازم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاست تمام شہریوں کے ساتھ بلا امتیاز سلوک کرے اور کسی ایک مذہب، ثقافت یا طرزِ زندگی کو فوقیت نہ دے۔ اس تصور کی کامیابی کا دارومدار نعروں پر نہیں بلکہ عملی رویّوں پر ہوتا ہے۔ جب یہی عملی رویے متزلزل ہوں تو سیکولرازم خود ایک سوال بن جاتا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت کی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ خاصی تشویش کا باعث بنا ہے۔ ایک سرکاری تقریب کے دوران ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک نو منتخب مسلم ڈاکٹر نصرت پروین کو ڈگری دیتے وقت ان کے چہرے سے نقاب کھینچ کر ہٹا دیا اور زبردستی ان کا چہرہ نمایاں کیا۔ یہ عمل نہ صرف ایک خاتون کے شخصی وقار کی خلاف ورزی تھا بلکہ مذہبی آزادی پر بھی براہِ راست حملہ تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید غم و غصے اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انسانی حقوق کے حلقوں اور سماجی مبصرین نی اسے ایک غیر ذمہ دارانہ اور توہین آمیز عمل قرار دیا ہے، جو سیکولرازم کے دعوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ لباس کسی فرد کی پیشہ ورانہ اہلیت یا تعلیمی قابلیت کا پیمانہ نہیں ہوتا۔ ایک ڈاکٹر کی پہچان اس کی مہارت، علم اور خدمت سے ہوتی ہے، نہ کہ اس کے ظاہری حلیے سے۔ کسی خاتون کو اس کے مذہبی لباس کی بنیاد پر نشانہ بنانا دراصل اس کی شناخت اور آزادی دونوں کی نفی ہے۔ مذہبی اور ثقافتی تنوع کسی بھی معاشرے کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت ہوتا ہے۔ مگر جب ریاستی سطح پر ایسے واقعات سامنے آئیں تو ان کے اثرات محض ایک فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ اقلیتوں میں عدم تحفظ اور بے اعتمادی کو جنم دیتے ہیں۔ بھارت ایک سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہے اور اس کا آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم، جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ خود کسی شہری کے مذہبی لباس میں مداخلت کرے تو یہ سوال ناگزیر ہو جاتا ہے کہ سیکولرازم عملی طور پر کہاں کھڑا ہے؟ کیا یہ صرف ایک آئینی اصطلاح بن کر رہ گیا ہے؟، یہ درست ہے کہ عام شہریوں کو بھی ایسی حرکات سے گریز کرنا چاہیے، لیکن جب اقتدار میں بیٹھے افراد خود حدود پامال کریں تو اس کے نتائج کہیں زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ ایسے اقدامات نہ صرف آئینی اقدار کی نفی کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ریاست کے جمہوری تشخص کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حقیقی سیکولرازم وہی ہے جو عملی طور پر نظر آئے جو ہر فرد کو اس کے عقیدے، لباس اور شناخت کے ساتھ جینے کا حق دے۔ جب یہ حق پامال ہو تو سیکولرازم ایک دعویٰ نہیں بلکہ ایک تضاد بن جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ مذہبی رواداری اور شخصی آزادی محض تقاریر سے قائم نہیں ہوتیں۔ اگر ریاستیں واقعی خود کو سیکولر اور جمہوری کہلوانا چاہتی ہیں تو انہیں ان اصولوں کو ہر سطح پر نافذ کرنا ہوگا، ورنہ سیکولرازم محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گا۔





