تعصب اور ادارے اور ہم

تعصب اور ادارے اور ہم
یاسر دانیال صابری
تعصب کسی معاشرے کے لیے صرف ایک اخلاقی خرابی نہیں بلکہ ایک ایسا ذہنی زہر ہے، جو آہستہ آہستہ انسانوں کے رویوں، فیصلوں، رشتوں، عدل کے پیمانوں اور اداروں کے ڈھانچے تک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، اور افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر یہ زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ انسان اپنے ہی جیسے انسان کو محض اس کی شناخت، لہجے، مسلک، علاقے یا ذات کی بنیاد پر کمتر سمجھنے لگا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں انسانیت دم توڑ دیتی ہے اور معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ تعصب کسی بھی شکل میں ہو چاہے زبان پرستی ہو، علاقہ پرستی ہو، مذہبی وابستگی ہو، فرقہ واریت ہو، یا ادارہ جاتی ترجیح اس کا نتیجہ صرف اور صرف انتشار، ناانصافی اور بے اعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ گلگت بلتستان میں شین، یشکن، دوم، کمین، ملک، گرائے، نگری، ہنزائی، حراموشی، دیامری اور دنیوری جیسی شناختیں اصل میں ثقافتی علامات ہیں، جو سیکڑوں سالہ تاریخ کی یادگار ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہی شناختیں بہت سے اداروں، حلقوں، خاندانوں اور سیاسی گروہوں میں تعصب کی بنیاد بن چکی ہیں۔ لوگ کسی فرد کو اس کی قابلیت سے نہیں، بلکہ اس کی کاسٹ کے نام سے پہچان کر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کتنا معتبر یا کتنا کمتر ہے، اور یہی بدترین ذہنی بیماری معاشرتی بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔ گلگت بلتستان کے اکثر اداروں میں دیکھا گیا ہے کہ بڑے افسر، خواہ وہ پاکستانی اسامی پر ہوں یا مقامی پوسٹ پر، اپنے ہی تعلق، اپنی کلاس، اپنے علاقے اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں، اور اس ترجیحی فیصلے کا براہ راست نقصان میرٹ اور انصاف کو پہنچتا ہے؛ ایک ملازم جو برسوں سے محنت کر رہا ہو وہ محض اس لیے پیچھے رہ جاتا ہے کہ وہ ’’ اپنوں‘‘ میں شامل نہیں، جبکہ کوئی دوسرا صرف تعلق، سفارش یا ریفرنس کی بنیاد پر ترقی پا جاتا ہے، اور اس لمحے نہ صرف ادارے کے اندر اعتماد ٹوٹتا ہے، بلکہ پورا سماجی ڈھانچہ لرز جاتا ہے۔ پاکستان میں بغیر ریفرنس کے کوئی کام نہ ہونا بھی اسی ذہنی تعصب کی بدترین شکل ہے، جہاں قابلیت ثانوی اور تعلق بنیادی معیار بن جاتا ہے، اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ پیغام بیٹھ جاتا ہے کہ محنت نہیں بلکہ سفارش کامیابی کا راستہ ہے، جو دراصل نوجوان نسل کے حوصلے توڑ دینے کے مترادف ہے۔ مذہبی تعصب کی صورت بھی اس معاشرتی بیماری کی انتہائی خطرناک شکل ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسرے کو باطل پر سمجھنے لگا ہے، اور یہی ذہنیت نہ صرف مذہب کی اصل روح کو مجروح کرتی ہے بلکہ دشمنوں کو اندر گھس کر حملہ کرنے کا موقع دیتی ہے۔ فرقہ واریت کے شعلے جب بھڑکتے ہیں تو دشمن آسانی سے مذہبی منافرت کو استعمال کرتے ہوئے فسادات کراتا ہے، جس سے قوم کمزور ہوتی ہے اور دشمن مضبوط۔ علاقائی اور لسانی تعصب بھی اسی طرح خطرناک ہے، گلگت، اسکردو، دیامر، غذر، ہنزہ، نگر، گانچھے، شگر وغیرہ یہ سب ایک ہی خطے کے حسین نگینے ہیں، مگر تعصب کی آگ نے لوگوں کے دلوں میں ایسی دوریاں پیدا کر دی ہیں کہ ایک شخص دوسرے کو صرف اس کے علاقے کی بنیاد پر’ باہر والا‘ کہہ کر رد کر دیتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی قابل، باصلاحیت اور دیانتدار کیوں نہ ہو۔
یہ رویے نہ صرف نفرت کو جنم دیتے ہیں بلکہ انسانی سوچ کو محدود، تنگ نظر اور خود غرض بنا دیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگ اپنے ہی معاشرتی بھائی کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تعصب نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں جو وہ گھروں میں سنتے ہیں، جو وہ اسکولوں میں دیکھتے ہیں، اور جو وہ میڈیا پر پڑھتے ہیں، جب ان کے سامنے ’’ ہم‘‘ اور ’’ وہ‘‘ کی تقسیم رکھی جاتی ہے تو وہ بڑے ہو کر محبت نہیں بلکہ تعصب بانٹتے ہیں، ان کے دل نرم نہیں بلکہ سخت ہوتے ہیں، ان کی سوچ وسیع نہیں بلکہ تنگ ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کا کردار بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ آج یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک پر ایسے لوگ بھی نظریاتی رہنمائوں کا روپ دھارے بیٹھے ہیں جن کے پاس نہ علم ہے نہ تربیت، مگر وہ مذہب، قومیت، قبیلے اور علاقے کے نام پر ایسی نفرت پھیلاتے ہیں کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے انہیں سچ سمجھنے لگتے ہیں، نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمیں معاشرتی تقسیم کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ قومی تعصب، مذہبی تعصب اور ادارہ جاتی تعصب جب ایک جگہ مل جائیں تو معاشرہ بکھر جاتا ہے، ادارے ناکام ہو جاتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں نفرت پروان چڑھتی ہے اور طاقتور طبقے مزید طاقتور ہو جاتے ہیں جبکہ کمزور مزید دب جاتے ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان اور جی بی میں واضح طور پر نظر آتی ہے جہاں ہر سطح پر ’ اپنوں‘ کو ترجیح دی جاتی ہے اور ’ دوسروں‘ کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
اسلام نے انسانیت، بھائی چارے، عدل اور یکجہتی کا درس دیا ہے۔ قرآن میں صاف تحریر ہے کہ سب مومن بھائی بھائی ہیں، مگر ہم نے اس تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، اور اپنے آپ کو شین، یشکن، دوم، کمین، مسلک یا قبیلے کے خول میں بند کر لیا ہی، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان کی عزت اس کے کردار سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی شناخت سے۔ تعصب انسان کو اتنا اندھا کر دیتا ہے کہ وہ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتا، وہ دلیل سے بھاگتا ہے، عقل کو چھوڑ دیتا ہے، حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے، اور جذبات کا قیدی بن کر ایسے فیصلے کرتا ہے جو معاشرے کو تقسیم کرتے ہیں نہ کہ جوڑتے ہیں۔ اس سماجی زہر کا علاج صرف ایک ہے۔ شعور، برداشت اور انصاف۔ ہمیں اپنے گھروں سے تعصب کا خاتمہ شروع کرنا ہوگا، اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ انسانیت رنگ، نسل، لہجے، مسلک اور علاقے سے بڑی ہے؛ ہمیں اداروں میں میرٹ کو فوقیت دینی ہوگی، سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کو رد کرنا ہوگا، اور یہ باور کرانا ہوگا کہ معاشرے کی ترقی کا راستہ نفرت نہیں بلکہ انصاف سے گزرتا ہے۔
اگر ہم واقعی اس خطے کو ترقی دیتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں سے تعصب کے دھبے دھونے ہوں گے، اپنی سوچ کے دروازے کھولنے ہوں گے، ایک دوسرے کو دشمن نہیں بھائی سمجھنا ہوگا، کیونکہ جب تک ہم ’’ میں‘‘ اور ’’ میرا گروہ‘‘ کی ذہنیت سے باہر نہیں نکلیں گے، ہم نہ ملکی سطح پر ترقی کر سکیں گے، نہ علاقائی سطح پر، اور نہ ہی فرد کی سطح پر۔ تعصب آگ ہے، اور آگ اگر ایک بار بھڑک جائے تو وہ گھر، محلہ، شہر اور قوم سب کو جلا دیتی ہے، اس لیے وقت آچکا ہے کہ ہم اس آگ کو بجھائیں، محبت اور انصاف کا دامن تھامیں اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھیں جہاں انسان کی پہچان اس کا کردار ہو، نہ کہ اس کا قبیلہ، اس کا مسلک یا اس کی زبان۔





