ColumnImtiaz Aasi

جبر اور سیاسی جماعتوں کا مستقبل؟

جبر اور سیاسی جماعتوں کا مستقبل؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قیام پاکستان سے اب تک جن جن سیاسی جماعتوں کے خاتمے کی کوشش کی گئی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کی سیاسی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جسے سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش نہ کی گئی ہو، اس کے باوجود ہم تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کی تاریخ کی طرف جائیں تو نیلسن مینڈلا اور آیت اللہ خمینی جیسی شخصیات جبر و استبداد کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئیں۔ گو انہیں بادل نخواستہ ملک چھوڑنا پڑا، لیکن آخر دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد 1954ء مسلم لیگ کی شکست کے بعد جگتو فرنٹ اقتدار میں آیا، جس کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ وجود میں آگئی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔ ایوب خان نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو موت کی سزا دے دی، لیکن آج جماعت اسلامی عوامی خدمت کے ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں پر سبقت لے چکی ہے۔ بادی النظر میں جماعت اسلامی عوامی خدمت میں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگوا دی۔ یہ اسی دور کا واقعہ ہے جب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ولی خان کے جلسے میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی فائرنگ سے کئی افراد ہلاک ہوئے۔ آج عوامی نیشنل پارٹی گو علاقائی جماعت سہی ملکی سیاست میں سرگرم ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد موت کی سزا دے دی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو کوڑوں اور قید و بند کی سزائیں دینے کے باوجود بھٹو کی ہونہار بیٹی دو مرتبہ وزیراعظم بنی۔ اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن سے باہر جانا پڑا جب وطن لوٹیں تو عوام نے تاریخی استقبال کرکے طاقتور حلقوں کو پیغام دیا یہ ملک عوام کا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض ان دیکھے ہاتھوں وہ لیاقت باغ کے تاریخی جلسے میں شہید ہوگئیں تاہم اس کے باوجود پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا مقدمہ بنا کر انہیں جلاوطن کر دیا گیا جس کے بعد نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم بنے اور ان کی جماعت سیاسی میدان میں پوری طرح سرگرم عمل ہے۔
اب ہم آتے ہیں ایک ایسی جماعت کی طرف جس کا وجود دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح طاقتور حلقوں کا مرہون منت ہے۔ عوام میں مقبولیت کے بعد اب اس کا شمار ملک کی معتوب سیاسی جماعتوں میں ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے عوام میں جس طرح شہرت حاصل کی ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی کا اقتدار طاقتور حلقوں کی مرہون منت تھا یہ اور بات ہے عمران خان کی حکومت بعض اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوگئی۔ سیاست دان ہوں خواہ طاقتور حلقے انہیں زمینی حقائق سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے۔ بانی پی ٹی آئی نے اقتدار میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کی یا نہیں اس سے ہٹ کر بات کریں تو ذہنوں میں سوال آتا ہے آخر وہ کون سی وجوہات ہیں عوام کی اکثریت عمران خان کی گرویدہ ہے۔ عمران خان کی بڑی خوبی یہ تھی اس نے اپنے دور میں میڈیا ہائوسز کے مالکان کو دور رکھا، شائد یہی وجہ ہے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بعض میڈیا ہائوسز پی ٹی آئی کی خبروں کی اشاعت جرم سمجھتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے عوام کو باشعور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاسف ہے جن حلقوں کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں لایا گیا انہی حلقوں نے اسے کرپشن کرنے والوں کا احتساب کرنے سے روکے رکھا، جس کا اظہار اس نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد نجی ٹی وی چینل پر کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا بانی پی ٹی آئی اقتدار میں رہتے ہوئے ٹی وی چینل پر ان حلقوں کا نام لے کر اس بات کا اظہار کرتا تو عوام میں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتا تھا۔
مقام افسوس ہے ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، ملک کا ایک بڑا بازو ہم نے کھو دیا، بلوچستان کے رہنے والے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ بلوچستان میں سرکاری ملازمت کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے۔ میرٹ پر آنے والوں کو آئی بی، سپیشل برانچ اور ملک کی ایک بڑی ایجنسی سے کلیئرنس لینی ہوتا ہے۔
آخر ہم کب تک الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی سے اقتدار میں آنے والوں کے عتاب کا شکار رہیں گے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی ہے، ماسوائے کے پی کے ملک کے کسی صوبے میں انہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سیاسی معاملات کا حل سیاسی طور پر ہی نکالنے میں عافیت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، الٹا ہمارا ملک افراتفری کا شکار رہے گا۔ اس وقت ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے، میڈیا پر طرح طرح کی قدغنیں ہیں۔ سیاست دانوں کو غدار کہنے کا وتیرہ بن گیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو حکومت حالات درست کرنے میں سنجیدہ نہیں، وہ بانی پی ٹی آئی کو قید و بند میں رکھتے ہوئے اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔
ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا جا رہا ہے، سرمایہ کاری نام کی کوئی چیز نہیں ہے، الٹا سرمایہ کار واپس جا رہے ہیں۔ حکومت کا فوکس صرف ایک ہی شخص پر ہے، کسی طرح وہ جیل سے باہر نہ آجائے۔ آخر نواز شریف بھی بیان حلفی دے کر وطن سے باہر گئے تھے، ان کے خلاف آرمی چیف کا طیارہ اغوا کرنے کا مقدمہ تھا، وہ مقدمہ قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ سانحہ نو مئی سے کسی کو انکار نہیں۔ فتح مکہ ہماری اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے، رسالت مآبؐ نے کن کن دشمنوں کو معاف فرما کر تاریخ رقم کی، لہذا عفو اور درگزر کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button