عالمی امن فورس اور پاکستان

عالمی امن فورس اور پاکستان
محمد مبشر انوار
اسرائیل کی فلسطین پر موجودہ جارحیت کو دو برس سے زیادہ ہو چکے ہیں او ر اس دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہریوں کی نسل کشی کی جو داستان رقم کی ہے وہ ناقابل بیان و ناقابل برداشت ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہم نہ صرف اس نسل کشی کو برداشت کئے جارہے ہیں بلکہ اس کے متعلق صفحات بھی کالے کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے باوجود ،نسل کشی کئے جارہا ہے۔ میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ آسٹریلیا میں ہونے والے ’’ ہنوکا ‘‘ کے یہودی اجتماع میں ممکنہ طور پر اسرائیل اس قتل عام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گا ،جس کی کوشش بہرحال اسرائیل نے کی لیکن بدقسمتی سے ،اسرائیل کے ساتھ ڈھول کی تاپ پر رقص کرنے والے بھارتی میڈیا کی اچھل کود اور چیخ و پکار نے بھارتی جھوٹے پول کی قلعی بیچ بازار میں ایسے کھولی ہے کہ اسے الٹا لینے کے دینے پڑ چکے ہیں اور بھارت کی ریاستی دہشت گردانہ کارروائیاں ساری دنیا کے سامنے کھل چکی ہیں۔ بھارت کے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہر ایسی دہشت گردی کے پیچھے،کسی مسلم نام کو بغیر تحقیق و تفتیش و ثبوت ،پاکستان کے سر منڈھ دے اور دنیا بھی اس کی ایسی لایعنی و بغیر ثبوت باتوں کو تسلیم کر لے بلکہ اب دنیا بھارتی ایسی چیخ و پکار پر سب سے پہلے بھارت کو مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے اور اس کی تفتیش و تحقیق کا بنیادی سرا ہی بھارت سے شروع ہوتا ہے ،یوں بھارت ساری دنیا میں اپنی بدنامی کا باعث خود بن رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ساری دنیا سمجھ چکی ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے خلاف انتہائی سے زیادہ تعصب کا شکار ہو چکی ہے اور مسلمانوں کے انفرادی و گروہی و عالمی کردار کو داغدار کرنے کے لئے ایسے ’’ جھوٹے آپریشن‘‘ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی کہ کسی طرح ایسی کارروائیوں کا ملبہ بہرطور مسلمانوں پر بالعموم اور پاکستان پر بالخصوص گرے۔ اس ضمن میں بھارتی و اسرائیلی گٹھ جوڑ کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں مبینہ طور پر بھارت کی سرزمین سے اسرائیلی ساختہ ڈرونز کی اڑان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،اور آسٹریلیا میں ہونے والی حالیہ قتل و غارت کے پیچھے اب مبینہ طور پر بھارتی شہری کا ملوث ہونا بہرطور بھارتی مذموم مقاصدکو دنیا پر آشکار کررہا ہے گو کہ اسرائیل کی حمایت میں صرف بھارت ہی شامل نہیں بلکہ امریکہ سمیت کئی دوسرے مغربی ممالک بھی اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں لیکن بھارتی گھنائونا کردار سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔اس وقت تک یہی محسوس ہو رہا ہے کہ آسٹریلیا میں ،یہودی شہریوں کے قتل عام کا منصوبہ اسرائیل و بھارت کو خاطر خواہ نتائج نہیں دے پایا اور غزہ میں ٹرمپ کے امن معاہدے کو اگلے مرحلے میں لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے تاہم اس میں تاحال کئی ایک رکاوٹیں بدستور موجود ہیں،جن کو حل کرنے میں جتنا وقت صرف ہو رہا ہے،اسرائیل کے لئے یہ کسی نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں کہ وہ اس میسر وقت میں مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ،نہتے شہریوں کا قتل عام و نسل کشی کررہا ہے۔
اس وقت جنگ بندی کے اگلے مرحلے میں جانے کے لئے،امریکی منصوبے کے مطابق امن بورڈ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ،امن فورس کی تعیناتی ایک اہم مسئلہ ہے گو کہ امن بورڈ کے لئے تاحال چھ ممالک نے رضامندی کااظہار کردیا ہے لیکن اس بورڈ کے حوالے سے حماس کے اپنے تحفظات بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف امن فورس کی تعیناتی بھی ایک سردرد بنی ہوئی ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح غزہ میں مسلم ممالک کی افواج کو تعینات کیا جائے اور حماس کو غیر مسلح کروانے کا کام اسی فوج سے لیا جائے کہ اس عمل میں اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو بہرطور یہ مسلمانوں کے درمیان ہی رہے نہ کہ کسی غیر مسلم ملک کے لئے یہ مسئلہ بنے۔ جب کہ مسلم ممالک کے لئے دریں حالات میں اپنی فوجوں کو غزہ میں تعینات کرنا بذات خود ایک مشکل ترین امر ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کہ حماس کو جلد ازجلد غیر مسلح کیا جائے تا کہ کل کو اسرائیل بآسانی غزہ میں بغیر کسی مزاحمت کے قتل عام کر سکے۔ امن فورس کے اہداف میں سرفہرست ہدف بھی یہی رکھا گیا ہے کہ وہ حماس کو جلد ازجلد غیر مسلح کرے ،جبکہ دیگر اہداف میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان ایک بفرزون کا قیام کوئی ایسی بڑی بات نہیں کہ جس کی اسرائیل کو ضرورت ہے یا اس کا پاس اسرائیل کرے گا کہ اسرائیل تو اس وقت بھی جنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود ،اس کو کسی خاطر میں نہیں لارہااور مسلسل اس کی خلاف ورزی کررہا ہے،جس پر امریکہ سوائے زبانی جمع خرچ کے ،کوئی عملی تادیبی کارروائی اسرائیل کے خلاف نہیں کررہا۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ،اسرائیل کی جانب سے کسی بفر زون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے،نہ صرف امن فورس بلکہ کلیتا غیر مسلح و غیر محفوظ فلسطینیوں کے قتل عام سے رک جائے گا اور امریکہ بھی اس وقت اس کو روکنے کی بجائے،اس کے شانہ بشانہ فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک نہیں ہو گا؟لہذا یہ سمجھنا کہ اسرائیل اپنی کسی بات پر کھڑا رہے گا،عبث ہے اور اسی وجہ سے مسلم ممالک تاحال امن فورس میں شمولیت کے لئے کھل کر سامنے نہیں آر ہے۔
اس وقت تک صرف انڈونیشیا وہ واحد اسلامی ملک ہے،جس نے اپنی فوج امن فورس کے لئے فراہم کرنے کاواضح ا علان کر رکھاہے جبکہ دیگر ممالک تاحال سوچ بچار میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی حیثیت اس امن فورس میں تقریبا کلیدی حیثیت رکھتی ہے لیکن تاحال پاکستان کی جانب سے بھی واضح طور پر اس کا اعلان سامنے نہیں آیا کہ اس کے پس پردہ نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ کا ،امن معاہدے کے حوالے سے وہ خصوصی بیان ہے ،جس میں انہوں نے شقوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ معاہدہ ہی نہیں،جس پر پاکستان نے اتفاق کیا تھا ،لہذا پاکستان کے اس معاہدے پر تحفظات دور ہونے تک مزید تعاون کھٹائی کا شکار ہے۔ دوسری طرف امریکہ جلد ازجلد اس کھیل کو نپٹانے کے چکر میں ہے اور اس سلسلے میں فیلڈ مارشل اگلے چند دنوں میں دوبارہ امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں، بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ فیلڈمارشل سے فوری تعاون کا مطالبہ کرے گاتو کیا فیلڈ مارشل اس مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں گے؟عام تاثر اور پاکستانی اندرونی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی سمجھا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہو گا لیکن میری دانست میں فیلڈمارشل بھی اعصاب کی جنگ میں خاصے تربیت یافتہ ہیں اور اتنی آسانی سے فوری تعاون کا مطالبہ نہیں مانیں گے البتہ یہ اہم ہو گا کہ بدلے میں ٹرمپ سے کیا مانگیں گے؟۔ شطرنج کی بچھی اس بساط پر مہروں کی ترتیب دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ فریقین کے ہاتھ میں ترپ کا پتہ ایک ہی ہے اور فریقین اس ترپ کے پتے کو کس طرح کھیلتے ہیں ،یہ ان کی مہارت و حب الوطنی کا مظہر ہو گا۔ ایک طرف ٹرمپ کی مطالبات نہ ماننے پر ،ٹرمپ پاکستان میں ہونیوالی انسانی حقوق کی پامالیوں پر بالعموم اور سابق وزیر اعظم کے حوالے سے بالخصوص بات کریں گے،بازو مروڑتے ہوئے،فیلڈ مارشل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے اور اگر فیلڈ مارشل ٹرمپ کی بات مان لیتے ہیں تو امریکہ حسب سابق،انسانی حقوق کی پامالیوں کو اندرونی معاملات قرار دیتے ہوئے، اپنی آنکھیں بند کرلے گا ۔ بصورت دیگر فیلڈ مارشل معدنی وسائل کے علاوہ بگرام ایئر بیس کے حصول کی پیش کش کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ دونوں ،غزہ کی صورتحال کا نعم البدل ہو سکتے ہیں؟یا کیا ایسی صورتحال میں فیلڈمارشل،سابق وزیراعظم کے ساتھ مفاہمت کی کوئی راہ اپنا سکتے ہیں؟۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے روز اول سے ہی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور اسے ایک ناجائز ریاست اور خطہ عرب میں پیوست خنجر سمجھا ہے،امن فورس کا حصہ بن کر ایک طرف امریکی و اسرائیلی خواہشات کی مطابق نہ صرف حماس کو غیر مسلح کیا جانا ہے بلکہ دوسری طرف اس کا مطلب یہ بھی لیا جارہا ہے کہ امن فورس بہرطور اسرائیلی سرحدوں کی نگہبانی بھی کرے گی۔اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان جو روز اول سے ہی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست تصور کرتا ہے،اس کی سرحدوں کی نگہبانی کرے اور فلسطین جس کی حمایت میں پاکستان ہر سطح پر بھرپور کوششیں کرتا رہا ہے ،اس کے مجاہدین کو اپنے ہاتھوں سے غیر مسلح کرے،کیا پاکستان اپنے اس اصولی موقف سے دستبردار ہو گا یا اپنے اندرونی معاملات کو حل کرکے،اجتماعی طور پر ان مسائل کا سامنا کرے گا؟۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، پاکستان تاحال اس پر مزاحمت کر رہا ہے اور امریکہ و اسرائیل کو فیلڈ مارشل سے بہت زیادہ توقعات ہیں، اس وقت تک تو عالمی امن فورس اور اس میں پاکستان کا کردار، واضح نہیں ہور ہا البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فیلڈ مارشل کے دورہ امریکہ کے بعد ہی اس کا پتہ چل سکے گا، اللہ پاکستان اور مسلم ممالک کے لئے بہتری کا در وا کرے۔ آمین





