ColumnImtiaz Ahmad Shad

پاکستان کا اصل مسئلہ

ذرا سوچئے
پاکستان کا اصل مسئلہ
امتیاز احمد شاد
پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، ان پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ایک بنیادی سوال ابھرتا ہے کہ آیا پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی بحران ہے یا اخلاقی۔ بظاہر دیکھا جائے تو مہنگائی، بے روزگاری، قرضوں کا بوجھ، کمزور کرنسی اور صنعتی زوال ہماری توجہ فوراً اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، مگر گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ تمام معاشی مسائل دراصل اخلاقی زوال کے نتائج ہیں، نہ کہ اس کی اصل وجہ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں کے پاس وسائل کم تھے مگر کردار مضبوط تھا، وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئیں، اور جن کے پاس وسائل تو بہت تھے مگر اخلاقیات کا فقدان تھا، وہ زوال کا شکار ہو گئیں۔
اسلام نے فرد اور معاشرے دونوں کی بنیاد اخلاق پر رکھی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار عدل، دیانت، سچائی اور امانت کا ذکر آیا ہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ ہم نے ان بستیوں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قوموں کی تباہی کا سبب وسائل کی کمی نہیں بلکہ اخلاقی بگاڑ اور ظلم ہے۔ اگر کسی معاشرے میں ناانصافی، دھوکہ اور خودغرضی عام ہو جائے تو وہاں معیشت خود بخود کمزور ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں معاشی بحران کی ظاہری شکل ہمیں مہنگائی، بجلی و گیس کے مسائل، ٹیکس نظام کی ناکامی اور غیر ملکی قرضوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ بدعنوانی، نااہلی، اقربا پروری، ٹیکس چوری اور قومی وسائل کا غلط استعمال ہے۔ یہ تمام عوامل دراصل اخلاقی بحران کی واضح علامات ہیں۔ اگر حکمران دیانت دار ہوں، ادارے میرٹ پر چلیں اور عوام قانون کی پابندی کریں تو معیشت کبھی اس حد تک تباہ نہ ہو۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا کہ امانت کیسے ضائع ہوتی ہے ؟۔ فرمایا کہ جب نااہل لوگوں کو ذمہ داریاں دے دی جائیں۔
یہ حدیث ہمارے قومی حالات کی بالکل صحیح تصویر پیش کرتی ہے، جہاں اکثر عہدے قابلیت کے بجائے سفارش اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ قومی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اخلاق کو ذاتی معاملہ سمجھ لیا ہے، جبکہ اسلام میں اخلاق اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے۔ آج تاجر منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو کاروباری مہارت سمجھتے ہیں، سرکاری ملازمین رشوت کو حق تصور کرنے لگے ہیں، اور عام شہری قانون توڑنے کو ہوشیاری خیال کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا بحران دراصل اخلاقی ہے، جس نے معاشی نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ نے قوموں کے عروج و زوال کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ جب فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چھوڑ دے اور صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچے تو پوری قوم اس کا خمیازہ بھگتتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے، جہاں اجتماعی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل لے‘‘۔ یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معاشی اصلاحات سے پہلے اخلاقی اصلاح ضروری ہے۔ جب تک ہم جھوٹ، بددیانتی اور ناانصافی کو چھوڑ کر سچائی، دیانت اور عدل کو اختیار نہیں کریں گے، اس وقت تک کوئی معاشی پالیسی ہمیں کامیابی نہیں دلا سکتی۔
عظیم مفکر ابن خلدون کے مطابق جب کسی قوم میں عیش پرستی، کرپشن اور ناانصافی عام ہو جائے تو اس کی معیشت خود بخود زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اسلامی نظام کی بنیاد اخلاقی ذمہ داری پر ہے، نہ کہ صرف دولت کے انبار پر۔ یہ آراء اس حقیقت کو مزید مضبوط کرتی ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت محض ایک کھوکھلا ڈھانچہ ہے۔
پاکستان میں کرپشن کو اکثر صرف معاشی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے۔ رشوت لینا اور دینا دونوں ہی اسلام میں حرام ہیں۔ نبی کریم ٔ نے فرمایا کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ جب کسی معاشرے میں حرام کو معمول بنا لیا جائے تو وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے، اور معیشت مسلسل خسارے میں چلی جاتی ہے۔
اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اخلاقی اصلاح کی طرف آنا ہوگا۔ تعلیم میں صرف ڈگری نہیں بلکہ کردار سازی کو شامل کرنا ہوگا، قیادت کو سادہ، دیانت دار اور جواب دہ بنانا ہوگا، قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا اور ہر فرد کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ اس کا کردار پوری قوم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ قومیں کفر سے تو زندہ رہ سکتی ہیں، مگر ظلم سے نہیں۔ یہ قول ہمارے لیے ایک واضح پیغام ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی بحران نہیں بلکہ اخلاقی بحران ہے۔ معاشی مسائل اخلاقی زوال کے نتائج ہیں، نہ کہ اس کی وجہ۔ جب تک ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں درست نہیں کریں گے، اس وقت تک کوئی بھی معاشی منصوبہ یا بیرونی مدد ہمیں پائیدار ترقی نہیں دے سکتی۔ قومیں دولت سے نہیں بلکہ کردار سے بنتی ہیں، اور پاکستان کی بقا اور ترقی کا راستہ بھی اخلاقی انقلاب سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button