
جگائے گا کون ؟
کروڑوں میں سے ایک میر حاصل
تحریر: سی ایم رضوان
بنی نوع انسان کی اب تک کی معلومہ تاریخ کے دیانت دارانہ اور تلخ ترین تجزیہ کے بعد ایک بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بہترین حاکم وہ ہے جو اپنے دور حاکمیت میں ظلم کو ختم کرے اور عدل کو زندہ اور نافذ کرے۔ اب اگر بالفرض یہ ہی مان لیا جائے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی سپرمیسی ہے تو کیا حال ہی میں فوجی عدالت کی جانب سے فیض حمید کو سنائی جانے والی سزا کو اسٹیبلشمنٹ کے اندر عدل کو زندہ اور نافذ کرنے کی فوجی تاریخ کی پہلی اور تاریخی سزا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس امر سے جزوی اور وقتی طور پر اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن بالآخر یہ ماننا ہی پڑے گا کہ سچ بالآخر نکھر کر سامنے آ ہی جاتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ بھی طے شدہ ہے کہ وقت اور حالات چاہے جس قدر بھی جابر ہوں۔ حاکم وقت چاہے جتنا بھی قاہر ہو اور زمانے میں چاہے جتنا بھی طویل عرصے تک اندھیر پھیلا رہے بالآخر ایک وقت وہ ضرور آتا ہے کہ سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور یہ بھی اب سب پاکستانی مان رہے ہیں اب سچ یہ سامنے آیا ہے کہ وطن عزیز کے ایک طاقتور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ فیض حمید کو فوجی عدالت کی جانب سے سال ڈیڑھ کی عرق ریز تحقیقات اور ان گنت مشکل اور طویل سماعتوں کے بعد بالآخر چودہ سال قید بامشقت سنائے جانے کا فیصلہ عدل کا اظہار ہے۔ عدل کے زندہ اور نافذ ہو جانے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ملکی سطح کے بڑے بڑے اینکر، صحافی، تجزیہ کار، وی لاگر اور یوٹیوبرز اب فیض دور کے خاتمے کی طویل عرصے بعد آپ بیتیوں اور آنکھ دیکھیوں سے پردے چاک فرما رہے ہیں۔ اس سزا سے عدل کے زندہ ہو جانے کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ اب ملک بھر کو اپنی کہانیوں، تبصروں، تجزیوں، من موہنی حکایتوں اور نت نئی مثالوں سے قائل کرنے والے اہل قلم و خرد خود تسلیم کر رہے ہیں کہ جب فیض حمید فلاں ظلم کر رہے تھے تو ہم عینی شاہد تھے، جب فلاں نوعیت کی لاقانونیت وقوع پذیر ہو رہی تھی تو ہم سے ڈائریکٹ بات ہوئی تھی۔ ایک صاحب تو اپنے وی لاگ اور پوڈ کاسٹ میں متعدد بار ایک آڈیو کال ثبوت کے طور پر سنا چکے ہیں جس میں فیض حمید بطور آئی ایس آئی چیف ان سے دو ٹی وی چینلوں کو مطلوبہ حیثیت دیئے جانے کی سفارش کر رہے ہیں اور مذکورہ آڈیو کال میں موصوف پیمرا کے سربراہ ہونے کے ناطے واضح طور پر فیض حمید کو یس یس کہہ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ جب عمرانی سیاست پر وقت بدلا تھا تو اسی آڈیو کو ن لیگ نے اپنی گلوخلاصی کی لئے چند دیگر آڈیوز کے ساتھ منظر عام پر لا کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے تھے۔ تب بھی اس آڈیو کا کیا فائدہ تھا بلکہ یہ آڈیو تو اس روز منظر عام پر آنی چاہیے تھی جب موصوف کو اسلام آباد کے پارک میں سیر کرتے ہوئے پیٹ میں فائر لگا تھا مگر تب وہ مضروب تھے اور ملکی صحافت بھی ایک جبر کی وجہ سے نہ صرف خاموش تھی بلکہ بیک زبان فیض حمید کی بولیاں بول رہی تھی۔ اب ایک اور اینکر یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے فلاں چینل سے فیض حمید نے نکلوایا تھا اور فلاں پروگرام اور فلاں انٹرویو عین اس وقت روک دیا گیا تھا جبکہ وہ آن ایئر جا چکا تھا یا جانے والا تھا جو کہ فیض حمید نہیں چلوانا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں فیض دور کے کئی اداروں کے سربراہان اور اس وقت کے کئی بااختیار اب فیض حمید کے جبر کی داستانیں سنا رہے ہیں کہ وہ تب کس حد تک مجبور اور خاموش تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ نظام کا جبر تھا لیکن سوال یہ ہی کہ کیا خاموشی سے آگے فیض فیکٹر کی ترویج بھی ان اینکرز کی مجبوری تھی۔ یعنی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ گو کہ باشعور پاکستانیوں کو تو اسی وقت بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ کن حلقوں کی طرف سے یہ سب ہو رہا ہے لیکن اس وقت ان صحافیوں اور وی لاگرز کو ہمت کیوں نہ ہوئی کہ وہ فیض حمید کا نام واضح طور پر لیتے۔ کیوں اس وقت ان حق گو تجزیہ کاروں اور بولنے کی آزادی کے نقیبوں کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے وہ حقائق بتاتے جن کے وہ عینی شاہد اور مجسم نشانہ تھے۔ اب جبکہ فیض سلاخوں کے پیچھے چلا گیا ہے اور ایک عادل مزاج فوجی سربراہ کے ہاتھ میں کمان کی چھڑی ہے اور صرف وہی ہو رہا ہے جو ملک وقوم کے حق میں درست ہے تو فیض حمید بھی انجام کو پہنچ رہا ہے اور اس کو سیاہ و سفید کی اجازت دینے والا گفتنی دیانتدار سابق وزیر اعظم بھی انصاف کی چکی میں پس رہا ہے تو ان سب کو کم از کم بولنے کی تو جرات ہوئی ہے۔ اب تو دیانتدار سابق وزیراعظم کے خلاف توشہ خانہ ٹو کیس کا فیصلہ بھی آ گیا ہے۔ جس میں خصوصی عدالت نے بانی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 17، 17سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ یہ کیس مئی 2021ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران سعودی ولی عہد کی جانب سے وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی کو تحفے میں دینے گئے قیمتی بلغاری جیولری سیٹ کی انتہائی کم قیمت پر توشہ خانہ سے خریداری سے متعلق ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ نے مقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے بانی نے تقریباً 8کروڑ روپے مالیت کا جیولری سیٹ محض 2کروڑ 90لاکھ روپے ادا کر کے اپنے پاس رکھا تھا۔ یہ فیصلہ خصوصی جج سنٹرل شاہ رخ ارجمند نے گزشتہ روز ( ہفتے کو) راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران سنایا ہے۔ بانی اور ان کی اہلیہ کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 34( مشترکہ نیت) اور 409( امانت میں خیانت) کے تحت 10سال قیدِ سخت، جبکہ انسدادِ بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 5(2)( سرکاری ملازمین کی مجرمانہ بدعنوانی) کے تحت سات سال قید کی سزا دی گئی۔ عدالت نے دونوں پر ایک کروڑ 64لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ قانون کے مطابق جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اضافی قید کی سزا ہو گی۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت نے سزا سناتے وقت عمران احمد خاں نیازی کی عمر رسیدگی اور بشریٰ بی بی کے خاتون ہونے کے پہلوئوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے سزا میں نرمی برتی ہے۔ حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ فوجداری ضابطہ کار ( سی آر پی سی) کی دفعہ 382-B( حراست کی مدت کو سزا میں شمار کرنے) کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں اس کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی اگست 2023ء سے190ملین پائونڈ کے بد عنوانی کیس میں 14سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بشریٰ بی بی بھی 190ملین پائونڈ کے بدعنوانی کیس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔
اب اگر دیانتداری سے بات کی جائے فیض کے بے فیض دور کی تو اس دور میں صرف ایک ہی سیاستدان تھا جس نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ سینیٹ کے منحرف اراکینِ فیض حمید کے بندے تھے کوئی اشارہ کنایہ نہیں برتا بلکہ سوال کرنے والے صحافی سی صاف کہا تھا کہ آپ جنرل فیض حمید کو جانتے ہیں یہ اس کے بندے ہیں۔ افسوس کہ کروڑوں پاکستانیوں اور درجنوں اہل صحافت اور سیکڑوں سیاستدانوں میں سے صرف یہ ایک میر حاصل بزنجو ہی سچ بولنے والا حاصل ہے جو ببانگ دہل بولا تھا کہ یہ بد دیانتی فیض حمید نے کروائی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس میر حاصل بزنجو نے تو آج تک نہیں کہا کہ اس جرم حق گوئی میں اسے فلاں فلاں ظلم اور زیادتی کا بعدازاں سامنا کرنا پڑا تھا۔ شاید یہی فرق ہوتا ہے کاغذی حق گو اور حقیقی حق گو میں۔ ماضی قریب کے ان حالات کے تجزیہ سے سردست یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فیض کے خوف سے جہاں وطن عزیز کے بڑے بڑے حق گو اور تحقیقاتی صحافی خاموش تھے وہاں بڑے بڑے انقلابی اور سب پر بھاری سمجھے جانے والے سیاستدان بھی محض اشارے کنائے اور روایتی لفظی رنگ بازی سے بھی فیض کا نام لینے سے کنی کتراتے تھے۔
بہرحال اس فیصلے کے بعد یہ بھی سامنے اتا ہے کہ ملکی سیاست اور سول ملٹری تعلقات پر ماضی میں موجود گہرے برے اثرات کار فرما تھے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی اس فیصلے کے ملکی سیاسی اور حکومتی معاملات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اب جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان، بشریٰ بی بی اور سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید تینوں کو مخلتف مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ گو کہ ان تینوں پر الزامات مختلف ہیں لیکن ان کے جرائم کی نوعیت ایک ہی ہے کہ اپنی اپنی حکومتی حیثیت اور اختیارات کا ناجائز استعمال۔ گو کہ اب بھی اگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی یکطرفہ اور لایعنی الزام تراشیاں اور سب وشتم اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہیں اور دوسری طرف نو مئی کے ملزمان کے خلاف سزاں کے فیصلے سامنے آ رہے ہیں تو یہ طے ہو گیا ہے کہ عمرانی دورِ حکومت میں فیض حمید وزیر اعظم کے انتہائی قریب، حکومت کے تمام تر سیاہ و سفید کے مالک اور ایک اندر ورلڈ ڈان کی طرح سب کو زندگی اور عزت دینے کے عملی دعویدار بنے ہوئے تھے اور بڑے غرور سے یہ ڈائیلاگ وہ اکثر بولا کرتے تھے۔ وہ تو یہاں تک قاہر تھے کہ فوجی عہدیدار ہونے کے باوجود پاک فوج کے شہداء کے یادگاری مجسمے بھی نو مئی کے اس جھوٹے احتجاج میں توڑے گئے جس کا ماسٹر مائنڈ بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید تھے۔
اب بہرحال اصولی طور پر ان فیصلوں کو قانون کی حکمرانی اور بے لاگ احتساب قرار دینا چاہئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ صرف ابتدا ہے اور مزید سخت کارروائیوں کے لئے فضا ہموار کی گئی ہے۔ فیض حمید کو ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ سزا دی جا سکتی تھی اور موجودہ سزا دراصل ابتداء ہے۔ ملٹری کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیض حمید کے خلاف چار الزامات ثابت ہوئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کا غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ اس فیصلے کو درست بلکہ ’’ تاخیر سے ملنے والا انصاف‘‘ قرار دینا درست ہے کیونکہ فیض حمید کا کردار انتہائی متنازعہ تھا۔ تمام منصف مزاج پاکستانی مطمئن ہیں کہ پہلی بار سیاست میں مداخلت پر کسی طاقتور جرنیل کو سزا ملی ہے۔ اب سلسلہ آگے بڑھے گا اور حلف شکنی کرنے والوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جوابدہ بنایا جا سکے گا۔ اب اگر اس کیس کے شواہد کو بنیاد بنا کر عمران خان کو سزا سنائی گئی تو پھر احتساب کا دائرہ فیض حمید کے پورے دور کے سینئر فوجی افسران سے لے کر عدالتی شخصیات اور سیاست دانوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ بلاشبہ یہ فیصلہ فوج کے اندر سخت نظم و ضبط کا اظہار ہے۔ فوج میں کسی افسر کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رعایت نہیں ملتی۔ البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ریٹائرڈ جرنیل کو سیاسی مداخلت کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ یہ قدم پاکستان میں جمہوری استحکام کے لئے بھی مثبت اور دیرپا اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس سمت کی نشان دہی کرتا ہے؟ کیا یہ سول ملٹری توازن بہتر بنانے کی کوشش ہے یا فوجی ادارے کی اندرونی صفائی کا عمل؟ کیا اب سیاسی انجینئرنگ کا بیانیہ کمزور ہو گا یا مزید مضبوط؟ کیا احتساب کا عمل دیگر افسران تک بھی پہنچے گا؟ یا اسی پر اکتفا کیا جائے گا اور کیا اس کا اثر آئندہ انتخابات میں سیاسی صف بندیوں پر بھی پڑے گا؟ ان سب سوالات کے جواب وقت ہی دے گا لیکن اتنا واضح ہے کہ پاکستانی طاقت کی حرکیات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایک ایسا مرحلہ جو کم از کم مجرم کی حوصلہ شکنی کرے اور سچ کو تقویت دے۔





