افغان سرزمین سے دہشتگردی، سنگین چیلنج

افغان سرزمین سے دہشتگردی، سنگین چیلنج
پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حالیہ دہشتگرد حملے ایک بار پھر ہماری سرحدی اور داخلی سلامتی کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملے اور افغان سرزمین سے دہشتگردوں کے حملے میں پاکستانی فوجیوں کی شہادت دونوں ہی واقعات اس بات کا غماز ہیں کہ ہمارے علاقے میں دہشتگردی کے خطرات ابھی تک موجود ہیں، اور یہ خطرات ایک پیچیدہ عالمی اور علاقائی سیاسی صورتحال کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت اور طالبان پر اس بات کا دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشتگرد گروپوں کے خلاف کارروائی کریں۔ تاہم، افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والی پیچیدہ سیاسی اور سکیورٹی صورتحال نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو طلب کر کے باضابطہ طور پر احتجاج کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی قوتوں کے خلاف اپنے موقف کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ افغان طالبان نہ صرف خوارج بلکہ ٹی ٹی پی جیسے گروپوں کی معاونت کر رہے ہیں، جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے ایک بڑی خطرہ بن چکے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھ گئے ہیں اور ان حملوں میں افغان طالبان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہ پاکستانی سرزمین پر حملے کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں دہشتگرد گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کریں تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔ دہشتگردی کے خلاف مشترکہ جنگ میں افغان حکومت کی عدم تعاون کی وجہ سے پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ ایک اور سنگین واقعہ تھا، جس میں پاک فوج کے 4جوان شہید ہوگئے۔ اس حملے میں بھارتی اسپانسرڈ خوارج کے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے، جو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حملے کے دوران ایک خودکش بمبار نے بارودی مواد سے بھری گاڑی سکیورٹی فورسز کے کیمپ کی دیوار سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ اس حملے کی شدت اور اس میں ہونے والے نقصانات نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ اس کارروائی میں سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کی حملے کو ناکام بنایا، اور ان کی تعداد کو کم کیا۔ اس کارروائی میں شہید ہونے والے جوانوں کی قربانیوں نے ان کی بہادری کو ظاہر کیا ہے۔ اس کے باوجود اس حملے میں شہریوں کو بھی نقصان پہنچا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشتگردوں کی کارروائیاں صرف فوج تک محدود نہیں رہتیں بلکہ عام شہری بھی ان کا شکار بنتے ہیں۔ پاکستان کا یہ موقف کہ افغان طالبان دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کررہے ہیں، ایک حقیقت ہے جس پر عالمی سطح پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ طالبان کی حکومت نے اپنے اقتدار میں آکر اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ تاہم، گزشتہ چند سال میں طالبان کی حکومت کی کارکردگی نے اس وعدے کو مشکوک بنادیا ہے۔ طالبان کے تحت افغانستان میں مختلف دہشت گرد گروپوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور ان گروپوں کو بیرونی سرپرستی اور مدد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ ان دہشتگرد گروپوں کی کارروائیاں پاکستانی سرحدوں تک پہنچ رہی ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانیں ان کی کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ طالبان کی حکومت نے اب تک دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی، جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اپنے موقف کو عالمی سطح پر موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو طلب کرنے اور ڈی مارش دینے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں کسی بھی قسم کی خاموشی یا ہچکچاہٹ برداشت نہیں کرے گا۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان طالبان پر دبائو ڈالے تاکہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشتگرد گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کریں اور پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔پاکستان کے لیے یہ وقت ایک سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے افغان طالبان اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر افغانستان میں امن اور استحکام کی ضرورت ہے تاکہ پورے خطے میں دہشت گردی کے خطرات کو کم کیا جا سکے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک اور گروپوں کے خلاف عالمی کارروائی ہو۔
بھارت کی آبی دہشت گردی
پاکستان کے دریائی وسائل پر بھارت کی یکطرفہ کارروائیاں نہ صرف علاقائی سالمیت بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کے لیے شدید خطرہ بن گئی ہیں۔ حال ہی میں انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے دریائوں میں پانی کے بہائو میں رکاوٹ ڈالنے کے سبب دریائے چناب اور جہلم میں پانی کی مقدار میں 90فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں موجود دریاں میں صرف 10فیصد پانی کی دستیابی باقی رہ گئی ہے، جو نہ صرف زراعت بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی کے لیے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ نے بھارتی یکطرفہ کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پاکستان کے موقف کی تصدیق کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی مکمل طور پر فعال ہے اور کسی بھی فریق کو اس میں یکطرفہ تبدیلی یا معطلی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی قانونی فتح ہے جو پاکستان کے موقف کو تقویت دیتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ بھارت کے اقدامات نہ صرف خطے میں پانی کے استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے محض ایک دستاویز نہیں بلکہ اس کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔ پانی، خوراک، روزگار، صحت، ماحول اور ترقی کے حقوق براہِ راست دریائوں کے بہائو سے منسلک ہیں۔ اگر پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا کی جائے یا اس کے ذریعے دبائو ڈالا جائے تو کروڑوں افراد کی زندگیوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پانی کو سیاسی یا معاشی دبا کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا اور کوئی فریق یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔ بھارت کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کے الزامات کو آبی معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کرنا بے بنیاد اور غیر متعلقہ ہے۔ بھارت نے نہ تو کوئی قابلِ اعتبار شواہد فراہم کیے اور نہ ہی معاہدے کی روح کے مطابق عمل کیا۔ پاکستان نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ مگر بھارت کی یکطرفہ اقدامات نے نہ صرف دوطرفہ اعتماد کو نقصان پہنچایا بلکہ علاقائی پانی کے استحصال کے خطرات کو بھی بڑھایا۔ پاکستان کا موقف شفاف اور اصولی ہے: دریائی وسائل پر حقِ ملکیت اور استعمال کے حوالے سے کوئی مداخلت قابلِ قبول نہیں، اور کسی بھی فریق کو معاہدے کی شرائط کے مطابق تعاون کرنا لازمی ہے۔ اس معاملے کی سب سے بڑی پہلو یہ ہے کہ پانی کی یکطرفہ روک تھام یا دھمکی کسی ایک ملک کے اندرونی مسائل تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ انسانی بنیادی حقوق، زراعت، معیشت اور ماحولیات پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان میں کروڑوں کسان، شہری اور کاروباری طبقہ اس بحران سے متاثر ہوتے ہیں، اور ان کی زندگیوں کی حفاظت عالمی قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت ضروری ہے۔ اس لیے بھارت کو نہ صرف معاہدے کی شرائط کے مطابق عمل کرنا چاہیے بلکہ پاکستان کے حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہنا لازمی ہے۔ آخر میں یہ واضح ہے کہ سندھ طاس معاہدہ محض ایک سیاسی یا سفارتی دستاویز نہیں بلکہ ایک عالمی قانونی فریم ورک ہے جو پاکستان کے عوام کے حقِ حیات اور ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ بھارت کی یکطرفہ کارروائیاں اس معاہدے کی روح کے خلاف ہیں اور عالمی برادری کے لیے بھی ایک تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان کے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے اور بھارت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ نیک نیتی سے معاہدے پر عمل کرے۔ پانی کو سیاسی یا معاشی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی زندگیوں کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔





