ColumnQadir Khan

چاہ بہار کی سرگوشی اور گوادر کی خاموشی

چاہ بہار کی سرگوشی اور گوادر کی خاموشی
تحریر : قادر خان یوسف زئی
خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال، بین الاقوامی تعلقات کی بساط پر چلنے والی نئی چالیں اور جغرافیائی سیاست کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے تقاضے اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ایک نئے اور پیچیدہ دور میں داخل ہو چکا ہے۔ جب ہم دہلی میں سجنے والی سفارتی محفلوں اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پر بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ایک انتہائی تشویشناک سوال، جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں ابھرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کے گرد ایک تزویراتی حصار (Strategic Encirclement)تنگ کیا جا رہا ہے؟ یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک ایسا سنجیدہ عسکری و سفارتی سوال ہے جس کا تعلق براہِ راست ہماری قومی سلامتی اور اقتصادی بقا سے جڑا ہے۔ ہمارے روایتی حریف اور پڑوسی ممالک ایک خاموش لیکن انتہائی موثر حکمت عملی کے تحت ہمیں خطے کی اہم تجارتی گزرگاہوں سے الگ تھلگ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔دہلی کی جانب سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط اور خاص طور پر افغانستان کی صورتحال پر منعقد کیے جانے والے اجلاس محض رسمی ملاقاتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ اس ”گریٹ گیم” کا حصہ ہیں جس میں بھارت پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے یوریشیا تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روایتی طور پر، جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو وسطی ایشیا کا گیٹ وے سمجھا جاتا رہا ہے، اور یہی ہماری سب سے بڑی تزویراتی طاقت بھی تھی، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی اس جغرافیائی اہمیت کو معاشی فوائد میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے بھارت نے ایران کے ساتھ اشتراک عمل کو فروغ دیا اور چاہ بہار بندرگاہ کو ایک متبادل راستے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ چاہ بہار کی فعالیت اور وہاں بھارتی سرمایہ کاری کا حجم اس امر کا ثبوت ہے کہ بھارت بحر ہند سے وسطی ایشیا اور روس تک رسائی کے لیے پاکستان کے انحصار کو ختم کرنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اگر بین الاقوامی تجارت کے راستے پاکستان کے بجائے ایران سی ہوکر گزرنے لگے تو گوادر اور سی پیک کی افادیت پر گہرے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
بھارت نے طالبان رجیم کے ساتھ بھی اپنے سفارتی تعلقات کو جس ہوشیاری سے بحال کیا ہے اور وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے نام پر جو ’’سافٹ پاور‘‘ استعمال کی ہے، اس نے پاکستان کو مغربی سرحد پر بھی ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ افغانستان اب اپنی تجارت کے لیے کراچی کی بندرگاہ پر انحصار کم کرتے ہوئے چاہ بہار کے راستے کو ترجیح دے رہا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسٹمز اور بارڈر مینجمنٹ کے مسائل اور سیاسی تنا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ محض مذہب یا مشترکہ ثقافت بین الریاستی تعلقات میں معاشی مفادات پر غالب نہیں آ سکتے۔ جب ریاستیں اپنے مفادات کا تعین کرتی ہیں تو وہ جذبات کے بجائے ٹھوس معاشی حقائق کو پیش نظر رکھتی ہیں، اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہماری خارجہ پالیسی کو ایک بڑے ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ کی ضرورت ہے ۔ چاہ بہار بندرگاہ محض ایک تجارتی اڈہ نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کے لیے ’’انٹرنیشنل نارتھ سائوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور‘‘ (INSTC) کا نقطہ آغاز ہے، جو ممبئی کو بذریعہ ایران، روس اور یورپ سے جوڑتا ہے۔ اس منصوبے کو سی پیک کے مقابلے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ سی پیک جغرافیائی اعتبار سے ایک مختصر اور زیادہ موزوں راستہ فراہم کرتا ہے، لیکن بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال، سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کا فقدان سرمایہ کاروں اور تاجروں کو متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بھارت اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر محفوظ راستہ ہے، جبکہ چاہ بہار ایک محفوظ اور قابل اعتماد متبادل ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت کا چاہ بہار کے لیے استثنیٰ حاصل کرنا اور وہاں طویل مدتی معاہدے کرنا اس امر کا غماز ہے کہ عالمی طاقتیں بھی، بھارت کے اس منصوبے کی درپردہ حمایت کر رہی ہیں۔
اس تزویراتی حصار کی نوعیت محض عسکری نہیں بلکہ شدید معاشی ہے۔ آج کی دنیا میں جنگیں سرحدوں پر کم اور اسٹاک مارکیٹوں، تجارتی معاہدوں اور سپلائی چینز کے ذریعے زیادہ لڑی جاتی ہیں۔ جب دہلی وسطی ایشیائی ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی میزبانی کرتا ہے اور ان کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور باہمی تجارت پر بات چیت کرتا ہے، تو وہ دراصل پاکستان کو خطے کے سکیورٹی آرکیٹیکچر سے باہر کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ تشکیل دیا جا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے جبکہ بھارت خطے میں استحکام کا ضامن۔ بدقسمتی سے، ہماری اندرونی سیاسی انتشار نے ہمارے دشمنوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے خلاف اس بیانیے کو مزید تقویت دیں۔ جب ہم اپنے گھر میں دست و گریباں ہوں گے، تو باہر کی دنیا ہماری بات کیوں سنے گی؟ ہم نے اپنی توانائیوں کا بڑا حصہ داخلی سیاسی جوڑ توڑ میں ضائع کر دیا، جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور سفارت کاری میں آگے نکل گئے۔
پاکستان کا محل وقوع اب بھی اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ وسطی ایشیا کے لیے سب سے مختصر اور کم لاگت راستہ پاکستان ہی ہے۔ چاہ بہار کا راستہ طویل بھی ہے اور مہنگا بھی، اور ایران پر بین الاقوامی پابندیاں بھی ایک مستقل رکاوٹ ہیں۔ لیکن جغرافیہ خود بخود تقدیر نہیں بدلتا، اسے درست پالیسیوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری خارجہ پالیسی کو ’’سکیورٹی اسٹیٹ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’جیو اکنامکس‘‘ کی بنیادوں پر بھی استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں، بشمول ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو جذباتیت کے بجائے باہمی تجارتی مفادات کی بنیاد پر نئے سرے سے تشکیل دینا ہوگا۔ اگر ہم گوادر کو فعال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بلوچستان کے عوام کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا اور وہاں حقیقی ترقی کا آغاز کرنا ہوگا، ورنہ کنکریٹ کی عمارتیں اور سڑکیں ویران رہیں گی اور تجارت کا رخ چاہ بہار کی طرف مڑتا رہے گا۔ دہلی کی میزبانی اور چاہ بہار کی سرگرمیاں ہمارے لیی خطرے کی گھنٹی ضرور ہیں، لیکن یہ ہمارے لیے ایک ’’ویک اپ کال‘‘ بھی ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان اپنی داخلی صفوں کو درست کر لے، سیاسی استحکام لائے، اور دنیا کے ساتھ تجارتی شراکت داریوں کو فروغ دے، تو کوئی بھی حصار ہماری ترقی کا راستہ نہیں روک سکتا۔

جواب دیں

Back to top button