لامذہبیت کا بڑھتا سایہ اور ہماری اجتماعی غفلت

لامذہبیت کا بڑھتا سایہ اور ہماری اجتماعی غفلت
تحریر : ثناء اللہ مجیدی
پاکستانی معاشرہ بظاہر مذہبی شناخت کا حامل ہے۔ اذانوں کی صدائیں، مساجد کی رونقیں، مذہبی تہواروں کی گہماگہمی اور دین سے وابستگی کے دعوے ہماری اجتماعی تصویر کا حصہ ہیں، مگر اس ظاہری منظر نامے کے پس منظر میں ایک خاموش، گہرا اور فکری بحران جنم لے چکا ہے۔ یہ بحران لامذہبیت کا ہے جو نہ صرف کھلے انکار کی صورت میں سامنے آ رہا ہے بلکہ زیادہ خطرناک انداز میں بے تعلقی لاپرواہی اور عملی دوری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس میں انسان نہ دین کا انکار کرتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل کو لازم سمجھتا ہے، بلکہ عملی زندگی میں اسے غیر اہم تصور کرنے لگتا ہے، یہی طرزِ فکر کسی بھی معاشرے کے فکری انحطاط کی واضح ترین نشانی ہوتا ہے۔
لامذہبیت کوئی اچانک وارد ہونے والی آفت نہیں، بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ اس کی جڑیں سب سے پہلے گھروں میں پیوست ہوتی ہیں۔ گھر کسی بھی معاشرے کی فکری نرسری ہوتا ہے۔ اگر اس نرسری میں دینی تربیت کا پانی نہ دیا جائے تو ایمان کا پودا سوکھنے لگتا ہے۔ جب والدین خود دین کو ترجیح نہ دیں، نماز محض بزرگوں کا عمل سمجھی جائے، حلال و حرام کی تمیز رسمی باتوں تک محدود ہو اور اخلاقیات کو حالات کے مطابق بدلنے والی چیز سمجھ لیا جائے اور دین صرف ظاہری تصویر بن جائے تو اولاد کے ذہن میں دین کی اہمیت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، نہ کہ وہ جو انہیں نصیحت کے طور پر سنایا جاتا ہے۔ جب عمل اور قول میں فرق ہو تو سوالات جنم لیتے ہیں، اور یہی سوالات بعد میں شکوک میں بدل جاتے ہیں۔
یہ فکری کمزوری محض ایک عارضی کیفیت نہیں بلکہ ایک منظم فکری یلغار کا نتیجہ ہے، جو جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے نہایت خاموشی مگر غیر معمولی قوت کے ساتھ انسانی ذہنوں کو مسخر کر رہی ہے۔ آج کے دور میں انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا محض معلومات کی ترسیل کے ذرائع نہیں رہے، بلکہ یہ کردار سازی کے مضبوط مراکز بن چکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ادارے کسی نصاب، کسی اخلاقی ضابطے اور کسی جواب دہی کے پابند نہیں۔ یہ ایسے اساتذہ ہیں جو نہ طالبِ علم کی عمر دیکھتے ہیں، نہ اس کی ذہنی تیاری، اور نہ اس کے فکری تحفظ کا کوئی اہتمام کرتے ہیں، بلکہ بلا اجازت ذہنوں میں داخل ہو کر نظریات، رجحانات اور خواہشات کو منتقل کر دیتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں ایک خاص طرزِ فکر کو نہایت مہارت کے ساتھ ’’ ترقی‘‘، ’’ آزادی‘‘ اور ’’ خوشحالی‘‘ کے خوش نما نعروں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ سیکولر طرزِ زندگی کو اس انداز سے دکھایا جاتا ہے گویا یہی کامیابی کی واحد شاہراہ ہے، جبکہ دین کو قدامت، جمود اور رکاوٹ کے استعارے کے طور پر نمایاں کیا جاتا ہے۔ لبرل بداخلاقیات کو شخصی آزادی کا مقدس نام دے کر جائز ٹھہرا دیا جاتا ہے اور فحاشی و بے حیائی کو فن، تفریح اور جدیدیت کے دل فریب پردوں میں چھپا کر اس طرح عام کیا جاتا ہے کہ قبح، قبح ہی نہیں رہتا۔ نتیجتاً نوجوان نسل مسلسل انہی مناظر، انہی خیالات اور انہی نعروں کے زیرِ اثر رہتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کے لاشعور میں یہ تصور راسخ ہو جاتا ہے کہ دین پابندیوں کا مجموعہ ہے اور بے دینی سہولت، لذت اور آسانی کا دوسرا نام۔
یہ اثر محض لباس، خوراک یا نشست و برخاست تک محدود نہیں رہتا، بلکہ آہستہ آہستہ انسان کی ذہنی ساخت کو بدل دیتا ہے۔ سوچ کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے، حق و باطل کا پیمانہ بدل جاتا ہے اور اقدار کی وہ ترتیب جو وحی اور اخلاق پر قائم تھی، دنیاوی فائدے اور فوری لذت کے تابع ہو جاتی ہے۔ اب اچھائی وہی سمجھی جاتی ہے جو مفاد دے اور برائی وہی رہ جاتی ہے جو ذاتی خواہش میں رکاوٹ بنے۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں کامیابی کا معیار آخرت کی فلاح نہیں بلکہ دنیاوی ترقی، شہرت اور مالی آسودگی بن جاتی ہے، چاہے اس کی قیمت اصولوں کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔
جب مسلسل یہی فکری فضا میسر آئے تو دین ایک نعمت کے بجائے بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ عبادات ذمہ داری نہیں بلکہ رکاوٹ نظر آتی ہیں، احکامِ شریعت سہارا نہیں بلکہ قید دکھائی دیتے ہیں، اور دینی شناخت ذہنی دبا کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں انسان یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ دین سے فاصلہ ہی ذہنی سکون اور شخصی آزادی کی ضمانت ہے۔ یہی وہ نازک مرحلہ ہے جہاں لامذہبیت محض ایک فکری سوال یا نظریاتی بحث نہیں رہتی، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی میں ڈھل جاتی ہے، جو سوچ، عمل، ترجیح اور شناخت، سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔۔
تعلیمی نظام اس فکری انتشار کو روکنے کے بجائے اکثر اسے تقویت دیتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ دین اور دنیا دو الگ دنیائیں محسوس ہوتی ہیں۔ ایک طرف سائنسی، معاشی اور سماجی علوم ہیں جنہیں عملی زندگی کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔
اور دوسری طرف دین ہے جسے عبادات، اخلاقی اسباق اور چند رسومات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ طالب علم کے ذہن میں یہ تقسیم بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ وہ یہ سیکھتا ہے کہ کامیابی، ترقی اور فیصلہ سازی کا تعلق عقل، تجربے اور مفاد سے ہے، جبکہ دین محض ذاتی عقیدے کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھنے والی نسل کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دین بھی زندگی کے نظام کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جب تعلیم یافتہ نوجوان عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تو اسے ایسے نظاموں کا سامنا ہوتا ہے جہاں دین کا حوالہ غیر ضروری بلکہ بعض اوقات رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ یوں تعلیم اسے شعوری یا لاشعوری طور پر اس نتیجی تک پہنچا دیتی ہے کہ مذہب کا تعلق صرف نجی زندگی سے ہے، اجتماعی اور ریاستی معاملات سے نہیں۔ یہی تصور لامذہبیت کی فکری بنیاد بن جاتا ہے۔
لسانی اور قوم پرستانہ تعصبات بھی اس بحران کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام نے انسانوں کو نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بجائے ایک امت کی صورت میں جوڑا تھا، مگر جدید سیاسی اور سماجی نظریات نے ان شناختوں کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ جب زبان یا قومیت کو اسلام پر فوقیت دی جاتی ہے تو دینی اخوت کمزور پڑ جاتی ہے۔ لوگ اپنی شناخت کے لیے دین کے بجائے قوم، علاقے اور ثقافت کو بنیاد بنانے لگتے ہیں۔ اس عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام ایک جامع نظریہ حیات کے بجائے محض ایک ثقافتی علامت بن کر رہ جاتا ہے، جسے حالات کے مطابق استعمال یا نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
روایت سے بیزاری اور حد سے زیادہ تجدد پسندی اس فکری زوال کی ایک اور سنگین صورت ہے۔ جدیدیت کے نام پر ہر پرانی چیز کو فرسودہ اور ہر نئی چیز کو بہتر سمجھنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مذہبی روایات، دینی اقدار اور اخلاقی حدود کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اس فضا میں دین پر عمل کرنے والا شخص دقیانوسی، تنگ نظر یا پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان جب یہ تاثر بار بار سنتا ہے تو اس کے لاشعور میں دین سے فاصلہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض مذہبی طبقے بھی جدیدیت کے دبائو میں آ کر اپنی دینی شناخت کو نرم کرنے لگتے ہیں، جس سے فکری کمزوری مزید بڑھ جاتی ہے۔ لامذہبیت کا یہ رجحان صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی المیہ ہے۔ یہ خاندان، تعلیمی اداروں، میڈیا اور سماجی رویوں کی مشترکہ ناکامی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس کا بروقت ادراک نہ کیا گیا تو اس کے اثرات صرف مذہبی زندگی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اخلاقی انحطاط، سماجی بے راہ روی اور فکری انتشار کی صورت میں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں دین محض رسمی شناخت بن جائے، وہاں انصاف، دیانت اور ذمہ داری جیسے اوصاف بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔
اس صورتِ حال کا حل نعروں یا وقتی اقدامات میں نہیں، بلکہ سنجیدہ اور طویل المدت فکری اصلاح میں ہے۔ گھروں میں دینی تربیت کو دوبارہ مرکزی حیثیت دینا ہوگی، تعلیم میں دین اور زندگی کے باہمی تعلق کو واضح کرنا ہوگا، میڈیا کے منفی اثرات کا شعوری مقابلہ کرنا ہوگا اور جدیدیت کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کی قدر کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ آنے والی نسلیں نہ دین کی مخالفت کریں گی اور نہ اس سے وابستہ رہیں گی، بلکہ اسے ایک غیر متعلق خیال سمجھ کر زندگی کے حاشیے پر ڈال دیں گی، اور یہی لامذہبیت کی سب سے خاموش مگر سب سے خطرناک شکل ہے۔
ثنااللہ مجیدی





