نفی اثبات
نفی اثبات
تحریر : صفدر علی حیدری
قرآن مجید کا موضوع توحید ہے اور مخاطب حضرت انسان ۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس کائنات کی مرکزی ہستی حضرت انسان ہے اور اس کائنات کے خالق کا سب سے بڑا مطالبہ توحید۔
بے شک اسلامی تعلیمات کا مرکز و محور توحید ہے، جو نہ صرف ایک مذہبی اصول ہے بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات اور فکری بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ کائنات میں صرف ایک ہستی ہے جو ہر طرح سے کامل، بے نیاز، اور ہر قسم کی عبادت اور اطاعت کے لائق ہے۔ توحید کی یہ گہرائی انسان کو شرک ( اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا) کی ہر شکل سے آزاد کرتی ہے اور اسے حقیقی آزادی، سکون اور بندگی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
لغوی طور پر توحید کا مطلب "ایک کرنا” یا "یکتا جاننا” ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی ذات میں، اس کے افعال ( ربوبیت) میں، اس کے ناموں اور صفات ( اسماء و صفات) میں، اور اس کے حقوق ( عبادت/الوہیت) میں منفرد اور بے مثال تسلیم کرنا ہے۔ یہ ہر اس عقیدے یا عمل کی نفی ہے جو اللہ کے سوا کسی اور کو ان میں شریک ٹھہرائے۔
توحید کسی ایک نبیٌ کی خاص تعلیم نہیں، بلکہ یہ آدمٌ سے لے کر محمدؐ تک تمام رسولوںٌ کی بنیادی دعوت اور ان کے پیغام کا مرکزی نقطہ رہی ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کو بار بار واضح کرتا ہے: ’’ اور ہم نے تم سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو‘‘۔
یہاں تک کہ شرک کا ارتکاب کرنے والی قوموں کی ہلاکت کا سبب ہمیشہ توحید سے انحراف اور غیر اللہ کی پوجا یا اطاعت رہا ہے۔
توحید کا صحیح طور پر درک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے تین بنیادی اقسام میں سمجھا جائے، جو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں:
الف۔ توحید الربوبیت ( اللہ کے افعال میں یکتائی) یہ اقرار کرنا کہ صرف اللہ ہی خالق، مالک، رزق دینے والا، کائنات کا مدبر ( انتظام کرنے والا) ، اور ہر چیز کو وجود بخشنے والا ہے۔ قرآنِ مجید کے تقریباً تمام مخاطبین، یہاں تک کہ کفارِ مکہ بھی، اس بات کے قائل تھے کہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ ہے۔
’’ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے، اللہ نے‘‘۔
اب ربوبیت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ کی تخلیق کی طاقت پر شک نہ کرے، اور یہ یقین رکھے کہ کوئی بھی طاقت ( سائنس، ٹیکنالوجی، یا فطرت کی قوتیں) اللہ کے اذن اور قانون سے آزاد ہو کر کوئی کام نہیں کر سکتی۔ بارش ہو، زلزلہ ہو، یا نئی زندگی کی پیدائش، ہر چیز کا سبب حقیقی اللہ کی مشیت ہے۔
توحید میں شرک یہ ہے کہ کوئی شخص یہ مانے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی نظامِ کائنات میں شریک ہے، جیسے کہ کوئی دوسرا خالق، یا کوئی ایسی ہستی جو اللہ کی اجازت کے بغیر نقصان یا فائدہ پہنچانے کا مستقل اختیار رکھتی ہو۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء ( نام) اور صفات ( خوبیوں) کو بغیر کسی تحریف ( تبدیلی)، تعطیل ( انکار)، تمثیل ( تشبیہ دینا)، یا تکییف ( کیفیت بیان کرنا) کے تسلیم کیا جائے۔
’’ کوئی چیز اس کے مانند نہیں، اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے‘‘۔
ان تمام صفات کو ثابت کرنا جو اللہ نے خود اپنی ذات کیلئے یا اس کے رسول نے بیان کی ہیں، لیکن مخلوق سے تشبیہ دیے بغیر۔ مثال کے طور پر، اللہ سنتا ہے، لیکن مخلوق کی طرح نہیں۔
اللہ کو مخلوق کی صفات سے پاک قرار دینا، لیکن اس کی صفات کا انکار کیے بغیر۔ یعنی یہ کہنا کہ اللہ کا علم ہے، لیکن یہ نہیں کہنا کہ اس کا علم ہماری طرح محدود ہے۔
اللہ کے ناموں ( جیسے الرحمٰن، الحکیم، الغفور) کے مفہوم کو سمجھنا اور زندگی میں ان صفات کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا۔
شرک فی الاسماء و الصفات ، یہ شرک اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے برابر سمجھے، یا اللہ کے مخصوص ناموں ( جیسے رحمٰن) کو کسی مخلوق پر اس طرح سے لاگو کرے کہ وہ اللہ کے مقام پر فائز ہو جائے، یا اللہ کی صفات کا انکار کر دے۔
توحید العبادہ/الُوہیت ( عبادت کے لائق صرف اللہ) یہ اقرار کرنا کہ تمام عبادات، خواہ ظاہری ہوں یا باطنی، صرف اور صرف اللہ وحدہُ لا شریک لہ کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ توحید کی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے انبیاٌ اور ان کی قوموں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے، کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے۔
عبادت صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ عمل، قول یا سوچ جو اللہ کو پسند ہو اور جس سے اس کی رضا مقصود ہو، عبادت ہے۔
اس میں شامل ہیں: دعا ( سب سے بڑی عبادت)، نذر و نیاز، قربانی، خوف ( صرف اللہ سے ڈرنا)، امید ( صرف اللہ سے رکھنا) ، محبت ( اللہ سے سب سے زیادہ)، توبہ، توکل ( اللہ پر بھروسہ)، اور عاجزی۔
شرک فی العبادہ ( شرکِ اکبر و شرکِ اصغر): شرک اکبر: اگر کوئی شخص اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے قبروں، بتوں، یا کسی فوت شدہ ہستی کو اللہ کے بجائے پکارے یا ان کے لیے نذر مانے۔
شرک اصغر: ریاکاری ( دکھاوا)، یعنی کوئی نیک کام غیر اللہ کی رضا کے لیے کرنا یا لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے کرنا۔ یہ ایمان کو کمزور کرتا ہے۔
توحید محض ایک رسمی عقیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انقلابی تصور ہے جو فرد اور معاشرے کو یکسر بدل دیتا ہے۔توحید کا سب سے بڑا ثمر انسان کو غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلانا ہے۔ جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ رازق، مالک اور طاقت کا منبع صرف ایک اللہ ہے، تو وہ دنیا کے تمام ظالم حکمرانوں، دولت مندوں، یا جھوٹے مذہبی پیشوائوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کا سر صرف ایک در پر جھکتا ہے، جس سے اس کے وقار اور خودداری میں اضافہ ہوتا ہے۔
اخلاقی بلندی اور اطمینانِ قلب
توحید انسان کو ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ہر عمل دیکھا جا رہا ہے ( توحیدِ اسماء و صفات: السمیع، البصیر) اور اس کا حساب لیا جائے گا۔ یہ خوف اور امید ( خوف اور رجائ) کا حسین توازن پیدا کرتا ہے، جو اسے گناہوں سے بچاتا ہے اور اطاعت پر ابھارتا ہے۔
جیسا کہ آپ نے فرمایا، مشکلات کے وقت مومن کو ’’ لاحول ولا قوۃ لا باللہ‘‘ کا سہارا ملتا ہے۔ یہ جملہ اعلان کرتا ہے کہ انسان اپنی کوشش ضرور کرے گا، لیکن نتیجہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس سے اس کے دل کو ہر حال میں سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ جملہ غرور کو ختم کر کے عاجزی پیدا کرتا ہے۔
توحید کی وجہ سے تمام انسان، امیر و غریب، گورے و کالے، ایک ہی خالق کے سامنے برابر ہیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو اسلامی معاشرے میں نسل، زبان اور طبقاتی امتیازات کو ختم کر کے مساوات، بھائی چارے اور عدل کی بنیاد ڈالتا ہے۔
توحید درحقیقت وہسرمایہ ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جب تک وہ توحید کی بنیاد پر نہ کیا گیا ہو اور اخلاص پر مبنی نہ ہو۔
روزِ قیامت مغفرت اور جنت کا حصول صرف موحدین ( توحید پر قائم رہنے والوں) کے لیے ہے۔ شرک ناقابلِ معافی گناہ ہے۔
’’ بے شک اللہ اسے معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ ہر گناہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا‘‘۔
خلاصہ کلام یہ کہ توحید وہ لازمی فریم ورک ہے جو انسانی وجود کے تمام سوالات ( میں کون ہوں؟ میرا خالق کون ہے؟ میرا مقصد کیا ہے؟) کا تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمان کے عقیدے، اخلاق، معاشرتی تعلقات اور سیاسی سوچ کا تعین کرتی ہے۔ ایک سچا موحد وہ ہے جو اللہ کو اس کی ذات، صفات اور حقوق میں یکتا جانتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے میں اس یکتائی کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔
آخر میں یہ شعر جو اس کالم کی لکھت کا سبب بنا
الف اللہ چمبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ھو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھو
اندر بوٹی مشک مچایا جاں پھلاں تے آئی ھو
جیوے مرشد کامل باہو، جیں ایہہ بوٹی لائی ھو
صفدر علی حیدری





