ColumnRoshan Lal

ساجد اکرم، نوید اکرم اور داعش

ساجد اکرم، نوید اکرم اور داعش
تحریر : روشن لعل
آسٹریلوی ساحل بونڈائی پر اپنا مذہبی تہوار منانے میں مصروف یہودیوں پر فائرنگ کرنے والے باپ بیٹے ساجد اکرم اور نوید اکرم کی دہشت گردی کو ا ن کی داعش کے ساتھ نظریاتی وابستگی سے جوڑا جارہا ہے۔ بونڈائی فائرنگ کے فوراً بعد ، ساجد اکرم اور نوید اکرم کے ناموں کی وجہ سے انہیں پاکستانی قرار دے کر، ان کی دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے صرف بی جے پی کے لونڈوں لپاڑوں نے ہی نہیں بلکہ مودی کے عشق میں مبتلاکچھ پاکستانی سوشل میڈیا لبرلز نے بھی پاکستان کے خلاف جتنا ممکن تھا زہر اگلا۔ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ انٹرنیشنل میڈیا نے ساجد اکرم کے بھارتی اور نوید اکرم کے آسٹریلوی شہری ہونے کی خبر نشر کر دی۔ اس کے بعد ، پاکستانی میڈیا پر بیٹھے لوگوں نے اپنی تمام توانائیاں ان بھارتی اینکر پرسنز کے رویہ کو مضحکہ خیز ثابت کرنے میں صرف کر دیں جو ساجد اور نوید کو پاکستانی کہتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کا عالمی گڑھ قرار دے رہے تھے۔ جب بھارتی میڈیا کی ہرزہ سرائی کے بعد پاکستانی میڈیا بھی ان کے ساتھ فضول رسہ کشی میں مصروف تھا اس وقت عام لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ اس داعش کی نظریاتی جڑیں کہاں پیوست ہیں جس سے متاثر ہو کر ساجد اور نوید دہشت گردی کی طرف مائل ہوئے۔
جہاں تک داعش کے نظریے کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں اس جھیمان بن محمد بن سیف العتیبی کی سوچ میں پیوست ہیں جس نے 1979ء میںخانہ کعبہ کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے والا العتیبی اپنی موت کے بعد اس طرح فراموش کر دیا گیا جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں، مگر عورتوں کے حقوق اور تعلیم کی مخالفت، ٹیلی ویژن جیسی ایجادات پر پابندی، اور غیر مسلم ممالک سے تعلقات کے خاتمے جیسے مطالبات پر مبنی اس کی سوچ القاعدہ اور طالبان کے بعد اب داعش کی شکل میں زندہ ہے۔
ہمارے کچے ذہن کے نوجوانوں کونام نہاد افغان جہاد کے نام پر امریکی مفاد میں لڑی گئی جنگ میں جھونکنے کے لیے مدرسہ نما تربیت گاہوں میں اسلحہ اور فوجی ٹریننگ کے ساتھ کسی حد تک العتیبی کی سوچ سے بھی لیس کیا گیا۔ العتیبی کی سوچ کے تحت خانہ کعبہ جیسی مقدس ترین عبادت گاہ کی حرمت کو نظر انداز کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ سوچ کسی بھی بے گناہ مرد، عورت، بچے اور بوڑھے کی بلاوجہ جان لینے کا مکمل جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم کی گئی تربیت گاہوں میں اس سوچ کو پروان چڑھانے میں یورپ، سعودی عرب، امریکہ اور پاکستانی اداروں نے باہمی تعاون کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ سال 1979ء میں سعودی مفتیوں نے العتیبی اور اس کے ساتھیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی مفتی اس وقت العتیبی کے مکتبہ فکر کے کس قدر قریب تھے۔ جس سوچ کے ابلاغ کے مواقع سعودی عرب میں محدود ہو گئے تھے اس کا بلاروک ٹوک عملی اظہار افغان جہاد کے دوران جب افغانستان اور پاکستان میں شروع ہوا تو اس سوچ سے وابستہ عرب ممالک کے عقیدت مندون نے اپنی دولت عطیات کی شکل میں اسامہ بن لادن اور اس کے استاد رہ چکے عبداللہ عزام کو بھیجنا شروع کردی۔ عبداللہ عزام نے صرف عربوں کی طرف سے مالی امداد وصول کرنے کے لیے نہیں بلکہ امریکی جنگی وسائل کے حصول کی غرض سے بھی مکتب دارالخدمت قائم کیا تھا۔ 1979ء سے 1989 ء تک جاری رہنے والی افغان سوویت جنگ میں اپنے کردار، معاونت اور امداد کو امریکہ نے آپریشن سائیکلون کا نام دیا ۔ مکتب الخدمت کے فراہم کردہ وسائل سے افغان جنگجوئوں اور طالبان کی شکل میں ان کے بچوں کی جو جنگی اور ذہنی تربیت ہوتی رہی اس کے لیے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے جو کردار ادا کیا آج اس کا ذکر چاہے کوئی کرے یا نہ کرے مگر اس سیاہ کردار کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ جس سوچ کے تحت خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا تھا اس سوچ کے ماننے والوں پر سعودی عرب کی زمین تنگ ہونے کے بعد انہیں یک ایسا علاقہ چاہیے تھا جہاں وہ پوری دنیا پر اپنی سوچ کا غلبہ پانے کے لیے کارروائیاں کر سکیں۔ خانہ کعبہ پر حملہ کے کئی برس بعد جب العتیبی سوچ کا عملی اظہار 9/11واقعات کی شکل میں سامنے آیا تو پھر ترقی یافتہ دنیا کے اجارہ داروں کو احساس ہوا کہ اپنے مخصوص معاشی مفادات کے حصول کے لیے انہوں نے جس سوچ کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا وہ سوچ ان کی معاشرت اور تہذیب کے لیے کس قدر خطرہ بن چکی ہے۔ 9/11کا واقعہ تو بہت بعد کی بات ہے مگر اس سے قبل بھی دنیا میں دنیا میں دہشت گردی کے کچھ ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے جنہیں دہشت گردی کی بجائے کچھ اور نام دے کر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ چیچن دہشت گردوں نے14جون 1995ء کو روس کے بڈیونووسک ہسپتال میں 2000لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ ان یرغمالیوںکو رہا کرانے کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران 140لوگ مارے گئے جبکہ 415زخمی ہوئے تھے۔ جنوری 1996ء میں روسی ملٹری ایئر بیس پر چیچن دہشت گردوں کے حملہ کے نتیجہ میں سیکڑوں لوگ زخمی اور ہلاک ہوئے تھے۔ 1999ء میں 4سے 16ستمبر تک ماسکو سمیت روس کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں نے بموں سے حملے کیے جس کے نتیجے میں 297لوگ مارے گئے اور 1000 زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے چیچن گوریلوں نے افغان جہاد کے دوران امریکی امداد سے قائم کیے گئے ان مدرسوں میں تربیت حاصل کی تھی جہاں العتیبی، القاعدہ اور طالبان ذہنیت کے لوگ تیار کیے جاتے تھے۔ افغانستان کی طرح چیچنیا کی آزادی کے نام پر لڑی جانے والے جنگ میں بھی لڑنے ، تعاون کرنے اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کے اپنے اپنے مفادات تھے۔
سطور بالا میں دہشت گردی کی مختلف وارداتو ں کے ذکر کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ العتیبی ہو ، القاعدہ، طالبان یا پھر داعش، دہشت گرد قرار دی گئی یہ تنظیمیں خود رو پودوں کی طرح خود ہی نہیں اگتیں بلکہ اپنے مخصوص مفادات کے تحت کوئی نہ کوئی انہیں اگانے یا بنانے والا ہوتا ہے۔ داعش کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھنے والے ساجد اکرم اور نوید اکرم کے متعلق کہا جارہا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کی تربیت فلپائین سے حاصل کی ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سال 2017ء میں جب داعش کو عراق اور شام میں پسپائی اختیار کرنا پڑی ان دنوں اس تنظیم کے لوگوں نے فلپائن کے مسلم اکثریتی علاقے مورو کے شہر ماراوی کا محاصرہ کیا تھا۔ ماراوی میں بھی داعش کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی لیکن اس پسپائی کے بعد فلپائنی حکومت کو مورو کے مسلم اکثریتی علاقے میں بہت بڑی تعداد میں فوج تعینات کرنے کا جواز مل گیا تھا ۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں جن بھی علاقوں میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرتی ہیں، ان علاقوں کے عام مسلمانوں کے لیے حالات پہلے سے زیادہ برے ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button