غربت: سب سے بڑا جرم
غربت: سب سے بڑا جرم
تحریر : صفدر علی حیدری
یہ شہر، جسے ہم فخر سے ’’شہر خواب‘‘ کہتے ہیں، درحقیقت خواب دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک سخت حقیقت سے لڑنے کی جگہ ہے۔ یہ روشنیوں اور بلند و بالا پلازوں کے پیچھے ایک نہ نظر آنے والی جنگ چھپی ہے، جو روزانہ کروڑوں محنت کش اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے لڑتے ہیں۔یہاں قتل، چوری یا بغاوت اتنے بڑے جرائم نہیں ہیں جن کی سزا قانون فوراً سناتا ہو۔ اس شہر کا سب سے بڑا اور معافی نہ دیا جانے والا جرم غریب ہونا ہے۔ غربت وہ خاموش الزام ہے جو کسی تھانے میں درج نہیں ہوتا، کسی عدالت میں اس کا ثبوت پیش نہیں کیا جاتا، مگر اس کی سزا ہر گلی، ہر فٹ پاتھ، ہر چوک اور ہر سرکاری دفتر میں فوراً نافذ کر دی جاتی ہے۔ اس شہر میں اگر آپ کے پاس سرمایہ، طاقت یا سفارش کا ویزہ نہیں ہے، تو آپ خود ہی مجرم ہیں۔یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں قانون کی آواز آئین یا کتابوں سے نہیں نکلتی، بلکہ لاٹھی کی نوک اور رشوت کی کھنک میں گونجتی ہے۔ شہر خواب: جہاں آنکھ کھلتے ہی سزا ملتی ہے جب ہم شہر کی تعریف کرتے ہیں تو صرف اس کی چمکتی سڑکوں، اسٹیل اور شیشے کے اونچے ڈھانچوں اور بڑے مسکراتے اشتہارات کو دیکھتے ہیں۔ مگر ان روشن چہروں کے سائے میں ایک اور شہر بھی آباد ہے غربت کا شہر سائے۔اس شہر سائے میں ریڑھی بان، چھابڑی والا، مزدور، دہاڑی دار، رکشہ ڈرائیور اور فٹ پاتھ پر بیٹھا ہر انسان صبح آنکھ کھلتے ہی اپنی روزانہ کی جنگ کا آغاز کرتا ہے۔ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا محض روزگار نہیں، بلکہ ریاستی مشینری کے سامنے اپنے وجود کو جرم ثابت ہونے سے بچانے کی جدوجہد ہے۔’’ریڑھی لگانا ان کے لیے روزگار نہیں، بلکہ تجاوز ہے۔ فٹ پاتھ پر بیٹھنا ناجائز قبضہ ہے، حالانکہ وہ نہ کسی کے گھر کا راستہ روکتے ہیں نہ کسی کی ملکیت پر دعویٰ کرتے ہیں‘‘۔ دو وقت کی روٹی کی کوشش کو یہ نظام محض بدنظمی قرار دے کر کچل دیتا ہے۔ریاست کا نعرہ ہے: ’’ قانون کی پاسداری کرو۔‘‘ یہ نعرہ دیواروں پر خوب لگتا ہے، مگر جب بھوک سے پیٹ مڑ رہا ہو اور جسم تھکاوٹ سے ٹوٹ رہا ہو، تو ریاست یہ نہیں بتاتی کہ قانون کی پاسداری کے لیے درکار امن اور آسودگی کہاں سے خریدی جائے؟ جب کوئی اور دروازہ کھلا نہ ہو تو سڑک ہی آخری پناہ گاہ بن جاتی ہے۔جب بھی شہر میں نام نہاد ’’تجاوزات کے خلاف آپریشن‘‘ہوتا ہے، تو قانون کا بازو سب سے پہلے غریب کی کمر اور اس کی ریڑھی پر پڑتا ہے۔ یہ ایک منتخب انصاف کا عمل ہے جو صرف کمزور کو دیکھتا ہے۔بلدیاتی عملے کی گاڑیاں اور اہلکار پورے سرکاری کروفر کے ساتھ آتے ہیں اور نہ صرف سامان ضبط کرتے ہیں بلکہ غریب کی محنت، امید اور عزت نفس کو بھی روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔کوئی نہیں پوچھتا کہ اس ریڑھی بان نے اس سڑک کو کیوں چنا؟ کوئی نہیں سوال کرتا کہ اس کے پاس کوئی اور قانونی متبادل، کوئی ہاکر زون یا کوئی مناسب روزگار تھا بھی یا نہیں؟رپورٹ میں لکھا جاتا ہے: ’’شہر صاف کر دیا گیا‘‘۔مگر اس صفائی کے عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہر تو صاف ہو جاتا ہے، لیکن اس غریب محنت کش کو سماجی گندگی اور قانون شکن مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہ صفائی غریب کو بے دخل کرنے کا محض ایک خوبصورت نام ہے۔ریاست، آپریشن کے بعد غریب سے کہتی ہے کہ ’’قانونی ہو جائو‘‘۔ یہ مطالبہ تو جائز ہے، مگر اس ’’قانونی‘‘ ہونے کے راستے میں اتنے دفتری بوجھ، فیسیں، کاغذات، دلال اور رشوت کے جال بچھے ہیں کہ اس شخص کے لیے جو روز کمائے تو شام کو چولہا جلے، یہ سب عبور کرنا ایک دیوانے کا خواب ہے۔لائسنس کی فیس اس کی ایک ہفتے کی کمائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ دفاتر کے چکروں میں اس کا پورا دن برباد ہو جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس دن اس کے بچے بھوکے سوئیں گے۔یوں، ریاست خود اس کو قانونی راستہ فراہم نہیں کرتی، بلکہ اس کے لیے دروازے بند کر کے اسے غیرقانونی بننے پر مجبور کرتی ہے۔ اور پھر اسی مجرمانہ غیرقانونی حیثیت پر اسے جرمانہ کیا جاتا ہے، تذلیل کی جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ انصاف نہیں، یہ ایک تنظیمی اور ادارہ جاتی بے حسی ہے جو غریب کو زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھتی ہے۔جب ایک بے بس مزدور محض دو ہزار روپے کے چالان یا جرمانے پر خود کو آگ لگا لیتا ہے، تو یہ واقعہ ایک سادہ خودکشی نہیں رہتا۔ یہ ریاست کے استحصالی نظام پر ایک چیخ اور سوال بن کر تاریخ کے ماتھے پر ثبت ہو جاتا ہے۔اصل مسئلہ دو ہزار روپے نہیں تھے، وہ ایک چنگاری تھی جس نے اس بارود کو آگ لگا دی جو اس کے اندر سالوں سے جمع تھا۔ مسئلہ وہ ریاستی خوف تھا جو تھانے کے نام سے جڑا تھا، مسئلہ وہ عوامی تذلیل اور ذلت تھی جو قانون کے محافظوں نے اسے دی۔ مسئلہ وہ ناقابل برداشت بے بسی تھی جس میں جینا مرنے سے زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔اس دن صرف وہ آدمی نہیں جلا تھا اس دن اس ملک کی سڑکوں پر غربت، بے بسی اور انصاف کی غیر موجودگی جل گئی تھی۔ قانون صرف نیچے کیوں دیکھتا ہے؟یہ کیسا قانون ہے جو صرف فٹ پاتھ پر بیٹھے کمزور اور بے آسرا ریڑھی بان کو ہی دیکھ سکتا ہے؟ اس قانون کی آنکھیں ان طاقتور مافیاز کو کیوں نہیں دیکھتیں جو شہروں میں غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز بناتے ہیں، جو سڑکوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کرتے ہیں، اور جو اربوں کے ٹیکس چوری کرتے ہیں؟جب قانون صرف نیچے کی طرف دیکھتا ہے، اور اس کی لاٹھی صرف کمزور کے ہاتھ پر پڑتی ہے، تو وہ قانون نہیں رہتا۔ وہ طاقتور کی خواہشات اور مٹھی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔اگر ہم ایک مہذب معاشرہ ہیں، تو قانون کو برابر ہونا چاہیے ’’ اندھا نہیں، بلکہ متوازن‘‘۔یہ ایک بنیادی سوال ہے: جب کارخانے کم ہوں، روزگار ناپید ہو، زراعت برباد ہو چکی ہو اور شہر میں محنت کش کے لیے ریڑھی لگانا بھی جرم بن جائے، تو یہ محنت کش کہاں جائے؟اگر ریاست اپنے شہری کو باعزت روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہے، تو اخلاقی طور پر اسے کم از کم اس کا کمایا ہوا روزگار چھیننے کا حق بھی نہیں ہے۔دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ شہر اس مسئلے کو جرم قرار دینے کی بجائے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ: رجسٹریشن دیتے ہیں: تاکہ ہاکرز کا ڈیٹا اور شناخت ہو۔ ہاکر زونز بناتے ہیں تاکہ ان کی روزی بھی چلے اور ٹریفک بھی متاثر نہ ہو۔ کم فیس پر اجازت نامے دیتے ہیں: انہیں قانونی دائرے میں لایا جائے۔ جرمانے نہیں، اصلاح کرتے ہیں: انہیں قانون کے دائرے میں کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں وہ اندھا، بے رحم شہر عزیز ہے جو محض چمکتا ہے، یا ہمیں انسان اور اس کی باعزت زندگی عزیز ہے؟آخر میں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جائے کہ غربت کسی فرد کی ذاتی ناکامی، کاہلی یا کم ہمتی نہیں ہے۔ یہ ریاست اور پورے معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے۔جو معاشرہ محنت کو سزا دے، جو قانون کو غریب کی تذلیل کا ہتھیار بنا دے، جو شہر کو اس میں رہنے والے انسان سے زیادہ عزیز رکھے وہ معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور جلد ہی اپنی ہی بے حسی کا شکار ہو کر تباہ ہو جاتا ہے۔قصوروار تخت ہوتا ہے، بھوکا نہیںہارون رشید اور بہلول دانا کی حکایت اس بات کا ابدی سچ بیان کرتی ہے۔ جب خلیفہ نے پوچھا کہ روٹی چرانے والے کی کیا سزا ہو گی، تو بہلول کا جواب ’’خلیفہ وقت کے ہاتھ کاٹ دو‘‘ کوئی بغاوت نہیں تھی، یہ احتساب تھا۔بہلول نے چور کو نہیں، اس نظام کو مجرم ٹھہرایا جو انسان کو روٹی چرانے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ جہاں بھوک قانون سے بڑی ہو جائے، وہاں جرم ہاتھ کا نہیں، حکمرانی کا ہوتا ہے۔آج کے دور میں جب مزدور دو ہزار کے چالان پر جل جائے، جب غریب کی ریڑھی جرم ہو، اور جب قانون صرف چوکیدار کا کام کرے، تو یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ انصاف کا مطلب صرف سزا نہیں، بلکہ سبب کا خاتمہ ہے۔جب روٹی چوری نہیں ہوتی بلکہ چھینی جاتی ہے، تو تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: قصوروار تخت ہوتا ہے، بھوکا نہیں۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے: کیا ہم اپنے قوانین کو انسان کے لیے بنائیں گے، یا ہم انسان کو اپنے بے رحم قوانین کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟
غربت: سب سے بڑا جرم
تحریر : صفدر علی حیدری
یہ شہر، جسے ہم فخر سے ’’شہر خواب‘‘ کہتے ہیں، درحقیقت خواب دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک سخت حقیقت سے لڑنے کی جگہ ہے۔ یہ روشنیوں اور بلند و بالا پلازوں کے پیچھے ایک نہ نظر آنے والی جنگ چھپی ہے، جو روزانہ کروڑوں محنت کش اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے لڑتے ہیں۔یہاں قتل، چوری یا بغاوت اتنے بڑے جرائم نہیں ہیں جن کی سزا قانون فوراً سناتا ہو۔ اس شہر کا سب سے بڑا اور معافی نہ دیا جانے والا جرم غریب ہونا ہے۔ غربت وہ خاموش الزام ہے جو کسی تھانے میں درج نہیں ہوتا، کسی عدالت میں اس کا ثبوت پیش نہیں کیا جاتا، مگر اس کی سزا ہر گلی، ہر فٹ پاتھ، ہر چوک اور ہر سرکاری دفتر میں فوراً نافذ کر دی جاتی ہے۔ اس شہر میں اگر آپ کے پاس سرمایہ، طاقت یا سفارش کا ویزہ نہیں ہے، تو آپ خود ہی مجرم ہیں۔یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں قانون کی آواز آئین یا کتابوں سے نہیں نکلتی، بلکہ لاٹھی کی نوک اور رشوت کی کھنک میں گونجتی ہے۔ شہر خواب: جہاں آنکھ کھلتے ہی سزا ملتی ہے جب ہم شہر کی تعریف کرتے ہیں تو صرف اس کی چمکتی سڑکوں، اسٹیل اور شیشے کے اونچے ڈھانچوں اور بڑے مسکراتے اشتہارات کو دیکھتے ہیں۔ مگر ان روشن چہروں کے سائے میں ایک اور شہر بھی آباد ہے غربت کا شہر سائے۔اس شہر سائے میں ریڑھی بان، چھابڑی والا، مزدور، دہاڑی دار، رکشہ ڈرائیور اور فٹ پاتھ پر بیٹھا ہر انسان صبح آنکھ کھلتے ہی اپنی روزانہ کی جنگ کا آغاز کرتا ہے۔ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا محض روزگار نہیں، بلکہ ریاستی مشینری کے سامنے اپنے وجود کو جرم ثابت ہونے سے بچانے کی جدوجہد ہے۔’’ریڑھی لگانا ان کے لیے روزگار نہیں، بلکہ تجاوز ہے۔ فٹ پاتھ پر بیٹھنا ناجائز قبضہ ہے، حالانکہ وہ نہ کسی کے گھر کا راستہ روکتے ہیں نہ کسی کی ملکیت پر دعویٰ کرتے ہیں‘‘۔ دو وقت کی روٹی کی کوشش کو یہ نظام محض بدنظمی قرار دے کر کچل دیتا ہے۔ریاست کا نعرہ ہے: ’’ قانون کی پاسداری کرو۔‘‘ یہ نعرہ دیواروں پر خوب لگتا ہے، مگر جب بھوک سے پیٹ مڑ رہا ہو اور جسم تھکاوٹ سے ٹوٹ رہا ہو، تو ریاست یہ نہیں بتاتی کہ قانون کی پاسداری کے لیے درکار امن اور آسودگی کہاں سے خریدی جائے؟ جب کوئی اور دروازہ کھلا نہ ہو تو سڑک ہی آخری پناہ گاہ بن جاتی ہے۔جب بھی شہر میں نام نہاد ’’تجاوزات کے خلاف آپریشن‘‘ہوتا ہے، تو قانون کا بازو سب سے پہلے غریب کی کمر اور اس کی ریڑھی پر پڑتا ہے۔ یہ ایک منتخب انصاف کا عمل ہے جو صرف کمزور کو دیکھتا ہے۔بلدیاتی عملے کی گاڑیاں اور اہلکار پورے سرکاری کروفر کے ساتھ آتے ہیں اور نہ صرف سامان ضبط کرتے ہیں بلکہ غریب کی محنت، امید اور عزت نفس کو بھی روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔کوئی نہیں پوچھتا کہ اس ریڑھی بان نے اس سڑک کو کیوں چنا؟ کوئی نہیں سوال کرتا کہ اس کے پاس کوئی اور قانونی متبادل، کوئی ہاکر زون یا کوئی مناسب روزگار تھا بھی یا نہیں؟رپورٹ میں لکھا جاتا ہے: ’’شہر صاف کر دیا گیا‘‘۔مگر اس صفائی کے عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہر تو صاف ہو جاتا ہے، لیکن اس غریب محنت کش کو سماجی گندگی اور قانون شکن مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یہ صفائی غریب کو بے دخل کرنے کا محض ایک خوبصورت نام ہے۔ریاست، آپریشن کے بعد غریب سے کہتی ہے کہ ’’قانونی ہو جائو‘‘۔ یہ مطالبہ تو جائز ہے، مگر اس ’’قانونی‘‘ ہونے کے راستے میں اتنے دفتری بوجھ، فیسیں، کاغذات، دلال اور رشوت کے جال بچھے ہیں کہ اس شخص کے لیے جو روز کمائے تو شام کو چولہا جلے، یہ سب عبور کرنا ایک دیوانے کا خواب ہے۔لائسنس کی فیس اس کی ایک ہفتے کی کمائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ دفاتر کے چکروں میں اس کا پورا دن برباد ہو جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس دن اس کے بچے بھوکے سوئیں گے۔یوں، ریاست خود اس کو قانونی راستہ فراہم نہیں کرتی، بلکہ اس کے لیے دروازے بند کر کے اسے غیرقانونی بننے پر مجبور کرتی ہے۔ اور پھر اسی مجرمانہ غیرقانونی حیثیت پر اسے جرمانہ کیا جاتا ہے، تذلیل کی جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ انصاف نہیں، یہ ایک تنظیمی اور ادارہ جاتی بے حسی ہے جو غریب کو زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھتی ہے۔جب ایک بے بس مزدور محض دو ہزار روپے کے چالان یا جرمانے پر خود کو آگ لگا لیتا ہے، تو یہ واقعہ ایک سادہ خودکشی نہیں رہتا۔ یہ ریاست کے استحصالی نظام پر ایک چیخ اور سوال بن کر تاریخ کے ماتھے پر ثبت ہو جاتا ہے۔اصل مسئلہ دو ہزار روپے نہیں تھے، وہ ایک چنگاری تھی جس نے اس بارود کو آگ لگا دی جو اس کے اندر سالوں سے جمع تھا۔ مسئلہ وہ ریاستی خوف تھا جو تھانے کے نام سے جڑا تھا، مسئلہ وہ عوامی تذلیل اور ذلت تھی جو قانون کے محافظوں نے اسے دی۔ مسئلہ وہ ناقابل برداشت بے بسی تھی جس میں جینا مرنے سے زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔اس دن صرف وہ آدمی نہیں جلا تھا اس دن اس ملک کی سڑکوں پر غربت، بے بسی اور انصاف کی غیر موجودگی جل گئی تھی۔ قانون صرف نیچے کیوں دیکھتا ہے؟یہ کیسا قانون ہے جو صرف فٹ پاتھ پر بیٹھے کمزور اور بے آسرا ریڑھی بان کو ہی دیکھ سکتا ہے؟ اس قانون کی آنکھیں ان طاقتور مافیاز کو کیوں نہیں دیکھتیں جو شہروں میں غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز بناتے ہیں، جو سڑکوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کرتے ہیں، اور جو اربوں کے ٹیکس چوری کرتے ہیں؟جب قانون صرف نیچے کی طرف دیکھتا ہے، اور اس کی لاٹھی صرف کمزور کے ہاتھ پر پڑتی ہے، تو وہ قانون نہیں رہتا۔ وہ طاقتور کی خواہشات اور مٹھی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔اگر ہم ایک مہذب معاشرہ ہیں، تو قانون کو برابر ہونا چاہیے ’’ اندھا نہیں، بلکہ متوازن‘‘۔یہ ایک بنیادی سوال ہے: جب کارخانے کم ہوں، روزگار ناپید ہو، زراعت برباد ہو چکی ہو اور شہر میں محنت کش کے لیے ریڑھی لگانا بھی جرم بن جائے، تو یہ محنت کش کہاں جائے؟اگر ریاست اپنے شہری کو باعزت روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہے، تو اخلاقی طور پر اسے کم از کم اس کا کمایا ہوا روزگار چھیننے کا حق بھی نہیں ہے۔دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ شہر اس مسئلے کو جرم قرار دینے کی بجائے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ: رجسٹریشن دیتے ہیں: تاکہ ہاکرز کا ڈیٹا اور شناخت ہو۔ ہاکر زونز بناتے ہیں تاکہ ان کی روزی بھی چلے اور ٹریفک بھی متاثر نہ ہو۔ کم فیس پر اجازت نامے دیتے ہیں: انہیں قانونی دائرے میں لایا جائے۔ جرمانے نہیں، اصلاح کرتے ہیں: انہیں قانون کے دائرے میں کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں وہ اندھا، بے رحم شہر عزیز ہے جو محض چمکتا ہے، یا ہمیں انسان اور اس کی باعزت زندگی عزیز ہے؟آخر میں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جائے کہ غربت کسی فرد کی ذاتی ناکامی، کاہلی یا کم ہمتی نہیں ہے۔ یہ ریاست اور پورے معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے۔جو معاشرہ محنت کو سزا دے، جو قانون کو غریب کی تذلیل کا ہتھیار بنا دے، جو شہر کو اس میں رہنے والے انسان سے زیادہ عزیز رکھے وہ معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور جلد ہی اپنی ہی بے حسی کا شکار ہو کر تباہ ہو جاتا ہے۔قصوروار تخت ہوتا ہے، بھوکا نہیںہارون رشید اور بہلول دانا کی حکایت اس بات کا ابدی سچ بیان کرتی ہے۔ جب خلیفہ نے پوچھا کہ روٹی چرانے والے کی کیا سزا ہو گی، تو بہلول کا جواب ’’خلیفہ وقت کے ہاتھ کاٹ دو‘‘ کوئی بغاوت نہیں تھی، یہ احتساب تھا۔بہلول نے چور کو نہیں، اس نظام کو مجرم ٹھہرایا جو انسان کو روٹی چرانے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ جہاں بھوک قانون سے بڑی ہو جائے، وہاں جرم ہاتھ کا نہیں، حکمرانی کا ہوتا ہے۔آج کے دور میں جب مزدور دو ہزار کے چالان پر جل جائے، جب غریب کی ریڑھی جرم ہو، اور جب قانون صرف چوکیدار کا کام کرے، تو یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ انصاف کا مطلب صرف سزا نہیں، بلکہ سبب کا خاتمہ ہے۔جب روٹی چوری نہیں ہوتی بلکہ چھینی جاتی ہے، تو تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: قصوروار تخت ہوتا ہے، بھوکا نہیں۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے: کیا ہم اپنے قوانین کو انسان کے لیے بنائیں گے، یا ہم انسان کو اپنے بے رحم قوانین کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟







