ColumnQadir Khan

بھارت کی ’’میڈیکل ڈپلومیسی‘‘ اور چاہ بہار کا چیلنج

بھارت کی ’’میڈیکل ڈپلومیسی‘‘ اور چاہ بہار کا چیلنج
تحریر : قادر خان یوسف زئی
خطے کی سیاسی بساط پر جو چالیں اس وقت چلی جا رہی ہیں، وہ محض خبروں کی سرخیوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ وہ خاموش زلزلے ہیں جن کے جھٹکے اسلام آباد کے ایوانوں میں محسوس کیے جانے چاہئیں۔ جب افغان طالبان رجیم کے وزیرصحت مولوی نور جلال جلالی دہلی کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو یہ محض ایک انتظامی دورہ یا ’’میڈیکل ڈپلومیسی‘‘ کا سادہ سا واقعہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس بدلتے ہوئے تزویراتی منظرنامے کی ایک تصویر ہے ۔ گزشتہ تین ماہ میں کابل سے یہ تیسرا اعلیٰ سطحی وفد ہے جو بھارت پہنچا ہے، صحت کے شعبے میں تعاون، کینسر کے مریضوں کا علاج اور ڈاکٹروں کی تربیت جیسے اقدامات بظاہر چھوٹے لگتے ہیں، لیکن یہ ’’سافٹ پاور‘‘ کا وہ ہتھیار ہیں جو عوام کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں، اور یہ وہی افغان طالبان ہیں جن کے بارے میں اسلام آباد کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ ان کی واپسی سے بھارت کا افغانستان سے ’’بوریا بسترگول‘‘ ہو جائے گا۔ لیکن آج زمینی حقائق چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارت نے نہ صرف اپنا بستر دوبارہ بچھا لیا ہے بلکہ اب وہ کابل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پی رہا ہے۔مئی 2024 میں بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے ہونے والا 10 سالہ معاہدہ اب کاغذ کے ٹکڑوں سے نکل کر ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکا ہے۔ بھارت نے اس منصوبے میں 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور 250 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن فراہم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یہ محض ایک بندرگاہ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سی پیک کے مقابلے میں کھڑا کیا جانے والا ایک متبادل تجارتی روٹ ہے جو پاکستان کی جغرافیائی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے۔ سی پیک اور چاہ بہار کے معاہدوں کا موازنہ کیا جائے تو ایک بہت بڑا تزویراتی فرق سامنے آتا ہے۔ سی پیک بلاشبہ ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جس کا حجم اربوں ڈالر ہے اور جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہے، لیکن یہ منصوبہ سکیورٹی خدشات، سیاسی عدم استحکام اور طویل المدتی قرضوں کی بحث میں الجھا ہوا ہے۔ اس کے برعکس، چاہ بہار کا بھارتی ماڈل ’’کم لاگت، زیادہ منافع‘‘ اور فوری آپریشنل صلاحیت پر مبنی ہے۔ بھارت کو امریکی پابندیوں سے حاصل ہونے والا استثنیٰ اس امر کا ثبوت ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اس متبادل روٹ کی حمایت کر رہی ہیں تاکہ خطے کا انحصار پاکستان پر کم سے کم کیا جا سکے۔2025 کے اواخر تک کے مستند اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاک افغان تجارت کا حجم سکڑ کر 1.1 ارب ڈالر رہ گیا ہے، جبکہ ایران اور افغانستان کی تجارت 1.6 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایران نے تجارتی حجم میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب ایران کی ان جارحانہ تجارتی پالیسیوں میں چھپا ہے جن کے تحت افغان تاجروں کو ٹیرف میں 30 فیصد، گودام کے کرایوں میں 75 فیصد اور ڈاکنگ چارجز میں 55 فیصد تک کی چھوٹ دی گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بارڈر کی مسلسل بندش، ویزا کے پیچیدہ حصول اور کسٹم کلیئرنس میں تاخیر نے افغان تاجروں کو یہ پیغام دیا کہ ان کے لیے پاکستان کے دروازے بند نہیں تو کم از کم ’’تنگ‘‘ ضرور ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افغان وزارت صنعت و تجارت کے مطابق 60 سے 70 فیصد نیا کارگو اب کراچی کے بجائے چاہ بہار کا رخ کر رہا ہے۔ یہ صرف تجارتی نقصان نہیں، بلکہ یہ اس ’’لیوریج‘‘کا خاتمہ ہے جو پاکستان کو افغانستان پر حاصل تھا۔اس صورتحال کو مزید گمبھیر بنانے والا عنصر ریل لنک ہے، جسے ’’مسنگ لنک‘‘ کہا جاتا رہا ہے۔ چاہ بہار سے زاہدان تک 630 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا 84 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور ایرانی حکام مارچ 2026 تک اسے مکمل فعال کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ادھر خواف ۔ ہرات ریلوے لائن بھی تکمیل کے قریب ہے۔ جس دن یہ ریل کا پہیہ چل پڑا، اس دن کراچی اور گوادر کا وہ جغرافیائی فائدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا جس پر ہم دہائیوں سے فخر کرتے رہے ہیں۔ اس وقت سامان کی ترسیل کا وقت 45 دن سے کم ہو کر 15 سے 20 دن رہ جائے گا، اور وسطی ایشیا کی ریاستیں، جو گوادر کو اپنا گرم پانیوں کا راستہ سمجھتی تھیں، ان کے لیے بھی چاہ بہار ایک زیادہ محفوظ اور تیز رفتار متبادل بن جائے گا۔ یہ وہ تزویراتی تحفظات ہیں جس کی تلافی جذباتی تقریروں سے ممکن نہیں ہوگی۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان ایک پرامن اور خود مختار ریاست بنے، لیکن پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے سائے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ٹی ٹی پی کی افغان سرزمین پر موجودگی اور وہاں سے ہونے والے حملی پاکستان کا سب سے بڑا سکیورٹی مسئلہ ہیں۔ بھارت کی حکمت عملی اب ماضی والی نہیں رہی۔ اس نے ’’ناردرن الائنس‘‘کی حمایت ترک کر کے عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان طالبان رجیم کے ساتھ براہ راست روابط استوار کر لیے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ’’دوہرے محاذ‘‘ کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ اگر بھارت چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کے پاس کابل پر دبائو ڈالنے کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ مزید برآں، اگر اس تجارتی روٹ کی آڑ میں تخریب کاری کا سامان یا فنڈنگ پاکستان مخالف عناصر تک پہنچتی ہے، تو یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے ایک بھیانک خواب ہوگا۔آج کا کابل وہ نہیں جو 90 کی دہائی میں تھا۔ آج وہاں ایک ایسی حکومت ہے جو اپنی بقا کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی سکیورٹی اور معیشت کو الگ الگ خانوں میں رکھے۔ تجارت کو بحال کیا جائے، بارڈرز پر جدید ترین ا سکینرز لگا کر 24 گھنٹے آمد و رفت یقینی بنائی جائے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹیرف کو ایران کے برابر لایا جائے۔ اگر ہم نے اب بھی گوادر کو فعال نہ کیا اور سی پیک کو محض سڑکوں کا جال سمجھ کر نظر انداز کیا، تو خطے کی معاشی بازی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یہ وقت اصلاح احوال کا ہے۔ اگر بھارت ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر کابل میں اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے تو پاکستان، جس کی تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ افغانستان کے ساتھ جڑا ہے، وہ کیوں پیچھے ہے؟ اس سوال کا جواب ہی پاکستان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔

جواب دیں

Back to top button