قوموںکی ترقی سیاسی استحکام سے جڑی ہے

قوموںکی ترقی سیاسی استحکام سے جڑی ہے
تحریر : امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے قوموں کی ترقی سیاسی استحکام میں مضمر ہے۔ جن ملکوں میں سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے ترقی سے محروم رہتے ہیں۔ مملکت خداداد آج اسی نہج پر کھڑا ہے ملک کے دو بڑے صوبے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ گو ہماری مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں ان کے ساتھ دونوں صوبوں کے لوگ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ۔ آخر اس کا کوئی شافی حل تو ہمیں نکالنا ہوگا ورنہ ہمارا ملک سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا شکار رہا تو ہماری ترقی خواب رہے گا۔ ماسوائے ان ملکوں کے جہاں بادشاہت قائم ہے جن ملکوں میں انتخابات کے ذریعے حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم کئی عشروں سے اپنے بہادر سپوتوں کے لاشے اٹھانے میں لگے ہیں۔ چلیں دہشت گردی افغانستان روس کی جنگ کے بعد وجود میں آئی لیکن جہاں تک داخلی امن و امان کی بات ہے سیاسی جماعتوں کو جبر سے ختم کرنے سے سیاسی استحکام کی کوشش کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے خاتمے کے لئے تمام حربے بروئے کار لانے کے باوجود بھٹو کی پارٹی آج بھی موجود ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو جنہیں عوام کی حمایت حاصل ہو انہیں جبر سے ختم کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ سانحہ نو مئی ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا جس کی تفصیلات میں جائے بغیر مبینہ طور پر جو لوگ ملوث تھے انہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں ہو چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کا بانی دو سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہے اس کے خلاف کئی سو مقدمات ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرگان آئے روز جیل کے باہر دھرنے دیتی ہیں جن کے ساتھ کئی پی ٹی آئی رہنما اور ورکرز بھی ہوتے ہیں، پولیس کو ان کا دھرنا ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ہفتہ وار قیدیوں سے ان کے لواحقین کی ملاقات کا قانون موجود ہے، بانی پی ٹی آئی اپنی بہنوں سے کوئی سیاسی گفتگو کر بھی لے کون سی قیامت آجائے گی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، آئے روز گورنر راج لگانے کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ گورنر راج سے صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ ایسے حالات میں جب ہمارا ملک پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہے دہشت گردی کے آئے روز واقعات نے کے پی کے اور بلوچستان کے عوام کا سکون تباہ کر دیا ہے سیاسی عدم استحکام سے مطلوبہ مقاصد پور ے ہو سکیں گے؟ بلاشبہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں کسی صورت میں پی ٹی آئی سے مفاہمت کے حق میں نہیں ہیں جس کی بڑی وجہ وہ انتخابات میں مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کے نتیجہ میں اقتدار میں آئی ہے ۔ بھلا انہیں کیا ضرورت ہے جیلوں میں پڑے سیاسی رہنمائوں اور ورکرز کی رہائی کی وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ آخر یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی جنرل ضیاء الحق بھٹو کو عوام کے دلوں سے نکال نہیں سکے تھے لہٰذا بانی پی ٹی آئی کو عوام کے دلوں سے نکالنے کا کوئی نسخہ حکمرانوں کے پاس ہے؟ ہمارا ملک دو صورتوں میں ترقی کر سکتا ہے پہلی بات جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا ہمارا ملک ترقی سے محروم رہے گا۔ جب تک کرپشن میں ملوث خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہوں انہیں عبرت ناک سزائیں نہیں دی جائیں گی کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے جس ملک میں کرپشن میں ملوث سیاست دان خود ہی قوانین میں ترامیم کرکے اپنے خلاف مقدمات ختم کرا لیں ایسے ملک کیونکر ترقی کر سکتے ہیں۔ سیاست دان جب تک اداروں کے بل بوتے سے اقتدار میں آنے کی کاوشوں کو ترک نہیں کریں گے ہمارا ملک جمہوریت سے دور رہے گا۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے سیاست دانوں کی اکثریت اقتدار میں آنے کے لئے اداروں کی طرف دیکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں میں مماثلت کوئی بری بات نہیں جہاں تک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے کی بات ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے منڈیٹ لینے کی عادت ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ گذشتہ الیکشن میں جو کچھ ہوا دہرانے کی ضرورت نہیں اندرون اور بیرون ملک جمہوریت کی دعویٰ دار ریاست کا کوئی اچھا تاثر نہیں گیا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو ملک کی ترقی مطلوب ہو تو انہیں اداروں کا سہارہ نہیں لینا ہوگا۔ بدقسمتی سے سیاسی قائدین کا المیہ یہ ہے وہ اداروں کا سہارا لئے بغیر ایک قدم چلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بے نظیر بھٹو ہو یا نواز شریف ، شہباز شریف اور عمران خان سبھی اداروں کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے ۔ سیاست دانوں میں ملک و قوم کی ترقی کی لگن ہو وہ اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کو ترجیح دیں جس ملک میں سیاست دانوں کی اکثریت مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہو وہ اداروں کا سہارا لئے بغیر کبھی اقتدار میں نہیں آسکتے۔ ہم ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیں تو عوام کی اکثریت کرپشن میں ملوث سیاست دانوں سے عاجز آئی ہوئی ہے بدقسمتی سے بار بار وہی سیاست دان عوام پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں جن پر ملک و قوم کو لوٹنے کے الزامات ہوتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد عوام کے ذہن بدل چکے ہیں وہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو اقتدار میں دیکھنے کے متحمل نہیں۔ اقتدار میں مبینہ دھاندلی سے آنے والوں نے اقتدار کو طوالت دینے کی خاطر عدالتی نظام کو بلڈوز کر دیا ہے۔ اداروں کی کاسہ لیسی ان کا وتیرہ بن گیا ہے اقتدار سے باہر رہیں تو ان کی موت ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے عوام کے ذہنوں کو بدل دیا ہے عوام کرپٹ نظام اور سیاست دانوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں جنہیں بار بار مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہی ملک میں کسی طرح سیاسی استحکام لایا جائے وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام سیاسی قیدیوں کو بلاامتیاز جیلوں سے رہا کیا جائے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو اقتدار میں آنے دیا جائے تو ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔





