Columnمحمد مبشر انوار

دہشت گردی کی نئی لہر

دہشت گردی کی نئی لہر
محمد مبشر انوار(ریاض)
مذہبی جنونیت کے آثار، دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں اور عالمی طاقتوں کا، طاقت کے نشے میں چور سمجھیں یا فاتح عالم بننے کا خواب، بویا ہوا بیج، تناور درخت بننے کی جانب رواں دواں ہے۔ امریکہ میں ہونے والی ٹون ٹاور کی تباہی کے بعد، کروسیڈ کا نعرہ لگا کر میدان میں اترنے والی غیر مسلم طاقتوں نے، جو تباہی و بربادی پھیلائی اور آج بھی کسی نہ کسی صورت وہ تباہی و بربادی بالخصوص مسلم دنیا میں جاری ہے، اس آگ کے شعلے بہرطور، پرامن و مہذب معاشروں میں بھڑکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گو کہ ایسی واردات دنیا کے کسی بھی خطے میں رونما ہو، کسی بھی طور قابل ستائش قطعا نہیں اور نہ ہی اس کو کسی مخصوص مذہب سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے کہ مذاہب کے ماننے والے، ایسی کارروائیوں کی قطعا اجازت نہیں دیتے۔ بالخصوص دین اسلام، اس حوالے سے انتہائی واضح ہے کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا قتل، انسانیت کا قتل ہے لہٰذا کسی مسلم کو یہ اجازت نہیں کہ ناحق کسی کا قتل کرے کجا کہ ایک گروہ پر چڑھ دوڑے اور نہتے انسانوں کے خون کی ہولی کھیلے۔ دہشت گردی کی نئی واردات آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہوئی جہاں یہودیوں کے ایک مذہبی اجتماع (ہنوکا) میں، مبینہ طور پر باپ بیٹے نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے، پندرہ سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا جبکہ کئی ایک زخمی ہوئے ہیں، حملہ آوروں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں لیکن جیسا پہلے گذارش کی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، اسی طرح ان حملہ آوروں کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس دہشت گردی کو کسی بھی صورت اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا تا وقت کہ پوری طرح تفتیش نہیں ہو جاتی اور حقائق سامنے نہیں آ جاتے۔ دوسری طرف ماضی میں ایسی کئی ایک وارداتیں انہی مہذب معاشروں میں غیر مالکوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ہو چکی ہیں اور ایسی وارداتوں کو بھی بہر طور غیر مسلم مذاہب کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا تاہم یہ حقیقت ہے کہ مذہبی جنونیت ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے جس کا تدارک کرہ ارض کے امن کے لئے کیا جانا ضروری ہے۔ جبکہ ان حملہ آوروں کو قابو کرنے والا شخص بھی مبینہ طور پر ایک سبزی فروش مسلمان ہے، جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، دبوچ کر مزید جانی نقصان سے بچایا لیکن ذرائع کے مطابق اسرائیلی میڈیا اس حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے اور کسی بھی طرح اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
دوسری طرف افغان و بھارتی میڈیا اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ متحرک و فعال دکھائی دے رہا ہے اور واقعے کو بغیر ثبوت کے پاکستان کے سر منڈھنے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظر آ رہا ہے۔ بھارت کی پھرتیاں تو خیر سمجھ میں آتی ہیں کہ ہمیشہ کی طرح ہر ایسی واردات کا تعلق سچ یا جھوٹ پاکستان سے جوڑنے میں بے تاب رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح عالمی سطح پر پاکستان کو دبائو میں رکھا جا سکے اور اس امر میں بھارت ایک عرصہ تک عالمی برادری کو، صرف اپنی بڑی منڈی کی کشش میں ، گمراہ رکھنے میں کامیاب بھی رہا ہے لیکن اب حالات قدرے بدل رہے ہیں اور عالمی دنیا بھارتی شرارتوں سے بخوبی واقف ہو چکی ہے۔ ممکنہ طور پر عالمی برادری آج بھی بھارتی گمراہ کن پراپیگنڈے کا شکار رہتی لیکن بھارت اپنے قد سے زیادہ اٹھنے کی کوشش میں خود کو بے نقاب کر چکا ہے، بالخصوص کینیڈا میں ہونے والی کارروائیوں نے، بھارتی نقاب کو الٹ دیا اور کل تک جو ممالک بھارت کو دراندازی کا شکار سمجھ رہے تھے، کینیڈا کے واقعات کے بعد ان ممالک کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اب بھارت کے نکلتے پر پرزوں کو اوقات میں رکھنے کے لئے عالمی برادری اس گمراہ کن پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہو رہی۔ حد تو یہ ہے کہ جس شخص کے متعلق بھارتی میڈیا گلا پھاڑ رہا ہے کہ اس واقعہ میں وہ پاکستانی نعاد ملوث ہے، اس کی جان کو شدید ترین خطرے میں ڈال دیا ہے اور مذکورہ شخص سوشل میڈیا پر اس گمراہ کن پراپیگنڈے کے خلاف مسلسل اپنی پوسٹ شیئر کرکے خود کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے لیکن تعصب و غیر ذمہ داری کی انتہا بھارت کی جانب سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ تقریباً یہی صورتحال اس وقت افغانی میڈیا کی ہے جو آنکھیں بند کر کے، بھارت کے جھوٹے پراپیگنڈے کو پھیلانے کی مذموم حرکت میں ملوث ہو رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارت و افغانستان، دونوں کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے اور دنیا اس ہرزہ سرائی کو پہچان چکی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے دنیا بھر کو بخوبی علم ہو چکا ہے کہ اولا بھارتی را اس میں ملوث رہی ہے تو اس وقت افغانستان، پراکسی کے طور پر بھارتی خواہشات کی تکمیل میں جتا ہے۔ مزید برآں یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان حکومت نتائج سے لاپرواہ ہو کر، ایسی کارروائیوں میں ملوث ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے میں دیگر ممالک کے اندر بھی اب ان کی کارروائیاں سامنے آئی ہیں، جنہیں عالمی برادری میں بہرطور اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا جبکہ حالیہ کارروائی میں چین کے شہریوں کی ہلاکت سے، افغانستان نے اپنے لئے مزید مسائل پیدا کر لئے ہیں۔ بھارت و چین کے معاملات کے علاوہ چین و امریکی تعلقات کو ذہن میں رکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ افغانستان ان کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے، جس کا نقصان براہ راست افغانستان کو ہی ہو گا کہ ایک طرف پاکستان اندرون ملک ان عناصر کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو دوسری طرف کسی بھی پڑوسی ملک کی جانب سے ایسی کارروائیوں کو کسی طور ہضم نہیں کر سکتا۔ نتیجہ واضح ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے اس وقت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور عالمی برادری بھی پاکستان کے اس ردعمل کو صریحاً نہ صرف جائز تصور کرے گی بلکہ اس کی حمایت میں شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیگی۔
یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن جو لہر اس وقت چلی ہے اس کے پس پردہ محرکات کا جائزہ اور ان کا تدارک کئے بغیر ، امن عالم کو قائم رکھنا ایک دشوار امر دکھائی دیتا ہے۔ غزہ کی صورتحال نے مسلم ممالک میں تشویش کی شدید لہر دوڑا رکھی ہے اور مسلم ممالک گذشتہ دو برس سے اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ کسی طرح اس خطے میں امن قائم ہو سکے اور بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو رکوایا جا سکے لیکن صد افسوس کہ ان کی تمام تر کوششوں کو اسرائیلی ہٹ دھرمی و ضد نے ناکام بنا رکھا ہے تو دوسری طرف غیر ضروری و غیر منصفانہ امریکی حمایت نے اسرائیل کو بے لگام کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت بالعموم جبکہ نیتن یاہو بالخصوص کسی بھی طرح اس نسل کشی سے باز نہیں آ رہا۔ جنگ بندی کے معاہدے کی جس طرح دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں وہ الگ مسئلہ ہے کہ امریکی جنگ بندی معاہدے کے مطابق، اسرائیل کو غزہ پر کسی بھی قسم کی جارحیت کی اجازت نہیں لیکن اسرائیل اس جنگ بندی معاہدے کو مسلسل سبوتاژ کر رہا ہے جبکہ امریکہ اس کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے گو کہ معاہدے کے اگلے مرحلہ میں داخل ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اسرائیلی جارحیت کو لگام نہیں ڈالی جا رہی۔ تاہم اس واردات کا ایک دوسرا ممکنہ پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل گذشتہ دو سالوں میں اپنی پوری جان لگانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پایا بلکہ اس کے برعکس اپنی مظلومیت کا رونا بھی بری طرح پٹوا چکا ہے اور ساری دنیا اسرائیل کو جارح، ظالم اور نسل کشی کا مرتکب قرار دے رہی ہے، اس پس منظر میں ہنوکا کی تقریب میں، ایسے کشت و خون کو ایک بار پھر اپنے مظلوم ہونے کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے نئے سرے سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہو جائیگی۔ ان حالات میں معاملات ہاتھ سے کس حد تک نکلتے ہیں، ان کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر معاملات کو قابو نہ کیا گیا اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کئے گئے تو کون جانے ایسے واقعات کس تسلسل اور کتنی تیزی کے ساتھ رونما ہوں گے؟ تاہم دعا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اس امر کا ادراک جلد از جلد ہو اور وہ واقعتا غیر جانبدار ہو کر، جارح/ظالم کا ہاتھ، ایسے واقعات بڑھنے سے قبل روک لیں تا کہ دنیا کا امن برقرار رہ سکے وگرنہ دہشت گردی کی جو آگ کل تک مسلم ممالک تک محدود تھی، وہ دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ کرہ ارض کا ایک کونا آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہو اور دوسرا کونا اس کی تپش سے محفوظ رہ سکے۔ بصورت دیگر کروسیڈ وار کا خواب دیکھنے والے، اس کی تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے، کرہ ارض کو آگ کے آلائو میں دھکیل دیں گے اور ایسی کارروائیاں، اللہ نہ کرے، دنیا کے ہر کونے میں ہوتی دکھائی دیں گی۔

جواب دیں

Back to top button