Column

سڈنی حملہ، بھارت دہشتگردی کا مرکز

سڈنی حملہ، بھارت دہشتگردی کا مرکز
سڈنی میں ہونے والا حالیہ دہشت گرد حملہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس سانحے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع نے نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ تاہم اس حملے کے بعد سامنے آنے والی معلومات، رپورٹس اور سکیورٹی انکشافات نے ایک بار پھر بھارت کے ریاستی کردار پر سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، وہی سوالات جو پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی فورمز پر اٹھاتا آ رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ بھارت صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت بیرون ملک بھی عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، پاکستان کے اندر دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرپرستی اور کینیڈا، امریکا اور یورپ میں ہونے والے مشکوک واقعات، سب اسی سلسلے کی کڑیاں سمجھی جاتی رہی ہیں۔ سڈنی کا واقعہ ان خدشات کو مزید تقویت دیتا ہے۔عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق سڈنی حملے میں ملوث افراد کی سفری تفصیلات، شہریت کے معاملات اور مبینہ عسکری تربیت نے اس واقعے کو محض ایک انفرادی کارروائی کے بجائے ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بنا دیا ہے۔ بعض رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرکزی کردار بھارتی پاسپورٹ پر بین الاقوامی سفر کرتا رہا، جبکہ فلپائن اور دیگر ممالک سے منسلک معلومات نے تفتیش کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ خاص طور پر وہ رپورٹس جن میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ممکنہ کردار یا روابط کی نشاندہی کی گئی ہے، عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہوں گے۔ پاکستان پہلے ہی یہ موقف اختیار کرتا رہا ہے کہ بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو ایک پالیسی ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہے، اور اب عالمی سطح پر اسی بیانیے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ قابل تشویش امر یہ بھی ہے کہ اس حملے پر بھارتی وزارت خارجہ کی خاموشی نے شکوک و شبہات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سفارتی روایت کے مطابق ایسے واقعات پر واضح موقف اور تعاون کی پیشکش کی جاتی ہے، مگر خاموشی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی تجزیہ کار اس خاموشی کو محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ 80 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اور مسلسل سکیورٹی چیلنجز اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، سرپرست نہیں۔ اس کے برعکس بھارت پر بارہا یہ ثابت ہوتا رہا ہے کہ وہ اپنی داخلی ناکامیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی محاذ پر عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ سڈنی واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کر دیا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی خطرہ ہے۔ بھارت اور اس کے اداروں پر ایسے نیٹ ورکس کی سرپرستی کے الزامات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس معاملے کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہوگا۔ پاکستان کا مطالبہ سادہ اور اصولی ہے، دہشت گردی کے خلاف دہرا معیار ختم کیا جائے۔ اگر کوئی ملک ریاستی سطح پر تشدد اور انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے تو اسے جواب دہ ہونا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ عالمی امن اسی صورت ممکن ہے جب انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ آخر میں، سڈنی حملہ صرف ایک ملک کا سانحہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر دنیا نے اس واقعے سے سبق نہ سیکھا اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کئے تو ایسے واقعات مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے، اب فیصلہ عالمی ضمیر کو کرنا ہے۔
دولت کی غیر مساوی تقسیم
پاکستان میں آمدنی اور دولت کی غیر مساوی تقسیم نے عالمی سطح پر ایک اور تشویش کی لہر پیدا کی ہے۔ ورلڈ ان ایکویلیٹی رپورٹ 2026 کے مطابق، پاکستان کے امیر ترین 10 فیصد افراد ملک کی کل آمدنی کا 42 فیصد اور کل دولت کا 59 فیصد کنٹرول کرتے ہیں، جبکہ ملک کے غریب ترین نصف افراد صرف 19 فیصد آمدنی میں شریک ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان کی اقتصادی حالت کی غمازی کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا حصہ بھی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں امیر ترین 1فیصد افراد کے پاس کل دولت کا 24 فیصد ہے، جو کہ ملک کی دولت کی انتہائی غیر متوازن تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں فی کس اوسط آمدنی تقریباً 4,200 یورو ہے اور اوسط دولت 15,700 یورو تخمینہ کی گئی ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان خلیج اب بھی بہت وسیع ہے، جو ملکی معیشت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دہائی کے دوران آمدنی کی تقسیم میں صرف معمولی بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ 2014سے 2024 تک کے عرصے میں، امیر ترین 10 فیصد اور غریب ترین 50 فیصد کے درمیان فرق 22 سے کم ہو کر 21.4 رہ گیا ہے، جو کہ ایک چھوٹا سا قدم ہے، لیکن اس سے حقیقتاً معاشی عدم مساوات میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ فرق میں معمولی کمی آئی ہے، لیکن ملک کے اندر غریب و امیرکے درمیان فاصلہ اتنا وسیع ہے کہ اس کو کم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک اور تشویش ناک پہلو صنفی تفاوت ہے، جو رپورٹ میں بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت 9.8 فیصد سے کم ہو کر 8.5 فیصد ہو گئی ہے، جو کہ ملک میں خواتین کی اقتصادی شمولیت کی محدودیت کو ظاہر کرتا ہے۔ خواتین کو اقتصادی عمل میں شامل کرنے کے لئے نہ صرف بہتر پالیسیاں درکار ہیں، بلکہ ایک جامع ثقافتی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ مالی لحاظ سے خود مختار بن سکیں۔ پاکستان میں اس صورت حال کا اثر ملکی سیاست اور معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق عوام میں مایوسی، بے چینی اور بے اعتمادی پیدا کر رہا ہے۔ جب تک حکومت اس غیر مساوی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کرتی، پاکستان میں معاشی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کا خواب محض ایک نیا خواب ہی رہے گا۔ اس رپورٹ کا مقصد صرف اعداد و شمار پیش کرنا نہیں ہے بلکہ عالمی اور ملکی سطح پر موجود عدم مساوات کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں حکومتوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے معاشی ماڈلز اور پالیسیوں میں اس غیر مساوی تقسیم کو کم کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ یہ نہ صرف معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے، بلکہ اس سے سماجی انصاف اور قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے دنیا کے بیشتر ممالک میں عدم استحکام اور خلفشار پیدا کیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس لیے اگر ہم معاشی انصاف اور ترقی کا کوئی حقیقی تصور چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معیشت کا صرف ایک حصہ نہیں، بلکہ پورا معاشرہ ترقی کرے گا تب ہی ہم ایک مضبوط اور متوازن معاشی نظام قائم کر سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button