ٹھیکے داروں کے مظالم

ٹھیکے داروں کے مظالم
تحریر: خالد غورغشتی
ہمارے خطے میں ٹھیکے دارانہ نظام جابرانہ صورتِ حال اختیار کر چکا ہے، جس نے سماج کے اکثر مزدور اور ہُنر مند افراد کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ ذیل میں اس نظام کی چند نمایاں خامیاں بیان کی جاتی ہیں۔
مزدور کی تنخواہ: ٹھیکے دارانہ نظام میں مزدور کی دیہاڑی آج بھی بہ مشکل آٹھ سو روپے بنتی ہے۔ مزدور صُبح سے شام تک آٹھ نہیں، بلکہ دس سے بارہ گھنٹے تک مسلسل کام کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے پوری مزدوری کی بجائے صرف آٹھ سو روپے دیہاڑی دی جاتی ہے۔ اگر وہ اعتراض کرے تو اُسے یہ کہہ کر چُپ کروا دیا جاتا ہے کہ ’’ یہاں تمہاری مسلسل دیہاڑی لگتی ہے، دوسری جگہ کبھی لگے گی، کبھی نہیں‘‘۔ یوں مزدور بے چارہ مجبوری کے باعث آٹھ گھنٹے کے بجائے بارہ گھنٹے کام کر کے، سرکاری ریٹ ساڑھے بارہ سو کی جگہ آٹھ سو لینے پر مجبور ہوتا ہے۔
مزدوروں پر سختی: عموماً دیکھا گیا ہے کہ اکثر ٹھیکے دار دن بھر مزدوروں سے جانوروں کی طرح کام کروا کر، نہ کوئی سہولت دیتے ہیں، نہ مناسب کھانا پینا۔ نتیجتاً مزدور ہر کچھ دن بعد بیمار پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ بیماری یا کسی مجبوری کے باعث دو چار دن کام پر نہ آسکے تو فوراً اس کی جگہ دوسرا مزدور رکھ لیا جاتا ہے اور اس کی تنخواہ بھی کٹوتی کے ساتھ دی جاتی ہے۔
ٹھیکہ دار مُختارِ کل کیوں؟ اکثر ٹھیکے دار نہ زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں؛ نہ مکمل کاری گر، مگر ٹھیکہ ملتے ہی خود کو انجینئر بھی سمجھنے لگتے ہیں اور اُستادِ کل بھی۔ نہ ان کے پاس کوئی باقاعدہ ڈگری ہوتی ہے نہ عمارت سازی کا مکمل تجربہ۔ نتیجتاً چند ہی سالوں میں ان کی تعمیر کی گئی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے ایسے ٹھیکے داروں پر پابندی عائد کریں اور باقاعدہ تعلیم یافتہ اور رجسٹرڈ افراد کو عمارت سازی کی اجازت دیں۔ اسی طرح مزدور کو آٹھ گھنٹے کی سرکاری دیہاڑ نہ دینے والوں کو بھی سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔
رمضان کی بے حرمتی: ماہِ مقدس رمضان المبارک جو عبادت اور ریاضت کا مہینا ہے، اس میں بھی جگاڑی ٹھیکے داروں کے مظالم جاری رہتے ہیں۔ چُوں کہ رمضان میں کام کا وقت صبح پانچ سے دوپہر تک طے ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ دن کی بجائے، رات بھر کام کراتے ہیں اور ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں زیادہ مشقت بھرے کام نہ ہونے کی وجہ سے یہ رات بھر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، یوں بے چارے مزدور سارا مہینا رُل جاتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی عید بھی تھکن اور نیند میں گزر جاتی ہے۔ رمضان کے حوالے سے ٹھوس حکمتِ عملی بنانا ازحد ضروری ہو چکا ہے۔ من چاہے ریٹس: کہتے ہیں؛ جس طرح بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسی طرح ٹھیکے دار کا بھی کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ یہ ایک کروڑ کا ٹھیکہ تین کروڑ میں لینا بہ خوبی جانتے ہیں اور مزدوروں کا حق دبانا، ان کے روزمرہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔
مکانات یا کھنڈرات؟ یہ ٹھیکے دار چھوٹے مکان ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی عمارتیں بھی گھٹیا اور غیر معیاری میٹریل سے تعمیر کر رہے ہیں۔ کسی بھی دیوار یا لنٹر کو چیک کر لیں، جگہ جگہ سے خامیاں نظر آتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے تو فوراً سارا ملبہ کسی کاری گر پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ بعض ٹھیکے دار خود بھی کام کرتے ہیں مگر ان کی کارکردگی بھی اسی درجے کی ہوتی ہے۔
مُنشی کے ہیر پھیر: جُوں جُوں ٹھیکہ دار کا کام بڑھتا ہے، وہ ایک منشی رکھ لیتا ہے۔ یہ منشی مزدوروں کی تنخواہوں میں ہیر پھیر کرنے کے ساتھ ان کے کام دورانیے میں بھی من مانا اضافہ کر دیتا ہے۔
کام روز پیسے ہفتے بعد: ٹھیکے دارانہ نظام میں مزدور روز کام کرتا ہے مگر پیسے صرف جمعرات کو ملتے ہیں۔ اگر مزدور بیمار ہو، مجبور ہو یا ضرورت مند ہو، تب بھی اُسے جمعرات تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اکثر منشی اور ٹھیکے دار جان بوجھ کر کئی کئی ہفتے مزدور کو پیسے نہیں دیتے۔
حکومتی اداروں کی غفلت: ٹھیکے دارانہ نظام کے بگاڑ کی بڑی وجہ متعلقہ حکومتی اداروں کی غفلت ہے۔ نہ تو تعمیراتی کاموں کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے اور نہ ہی مزدوروں کے تحفظ کے لیے کوئی موثر میکانزم موجود ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر سخت قوانین اور شفاف نگرانی کا نظام قائم نہیں ہوگا، ٹھیکے دار اپنی من مانی کرتے رہیں گے اور اس کا خمیازہ صرف مزدور ہی بھگتے گا۔
مزدور یونینز کی ضرورت: ہمارے ہاں مزدوروں کی یونینز یا تو سرے سے موجود ہی نہیں، یا بے اثر ہیں۔ اگر مزدور اپنی ایک مضبوط تنظیم بنائیں تو وہ نہ صرف اپنی تنخواہوں اور اوقاتِ کار پر بات کر سکتے ہیں بلکہ ٹھیکے داروں کے استحصال کے خلاف اجتماعی آواز بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ایک مضبوط یونین ہی مزدور کو وہ عزت اور حقوق دلوا سکتی ہے، جس کا وہ حقیقی معنوں میں حق دار ہے۔
ٹھیکے دارانہ نظام کب تک؟ یہ نظام سراسر ظلم ہے۔ ٹھیکے دار کام نہ کرنے کے باوجود ارب پتی بن جاتے ہیں، جب کہ مزدور، جو سارا دن کام کرتے ہیں، اکثر فاقوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اداروں کو چاہیے کہ اس نظام میں جدید اصلاحات لائیں، یا کوئی ایسا نظام رائج کریں جو مزدور اور کاری گر کے لیے یکساں روزگار اور سہولیات کا سبب بنے۔ ورنہ جس طرح ہمارے ہنر مند افراد بیرونِ ملک جا رہے ہیں، اسی طرح ہمارا مزدور طبقہ بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔





