نہیں جمنا ہور کوئی تیرے جیہا۔ آہ میاں منظور وٹو

نہیں جمنا ہور کوئی تیرے جیہا۔ آہ میاں منظور وٹو
صدا بصحرا
رفیع صحرائی
سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو طویل علالت کے بعد منگل 16دسمبر 2025ء کی سہ پہر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی رحلت کی خبر ضلع اوکاڑا کے عوام کو رنجیدہ و افسردہ کر گئی۔ ضلع ایک عظیم انسان، مشفق بزرگ، کامیاب ترین سیاست دان اور اپنی سیاست کے ذریعے ضلع اوکاڑا کی پہچان بننے والے راہنما سے محروم ہو گیا۔ کہتے ہیں انسان کے چلے جانے کے بعد اس کا خلا باقی نہیں رہتا، بہت جلد یہ خلا بھر جاتا ہے مگر میاں منظور وٹو بلاشبہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کا خلا مدتوں نہیں بھرا جا سکے گا۔ انہوں نے اپنی ہمت، لگن، کوشش اور بے پناہ محنت سے کام لیتے ہوئے سیاست میں وہ کامیابیاں حاصل کیں جن کا خواب تمام سیاست دان ہی دیکھتے ہیں لیکن اس مقام تک ایک فیصد بھی نہیں پہنچ پاتے۔
جب میں میاں منظور احمد وٹو کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو حیرت کدوں کے بے شمار در وا ہو جاتے ہیں۔ بی ڈی ممبری سے وزارتِ اعلیٰ کے منصبِ جلیلہ تک رسائی کا سفر، پھر دو وفاقی وزارتیں، خدمات کا طویل سفر اور شہنشاہِ تعمیر و ترقی کا خطاب۔ شاید اس میں ان کی تاریخ پیدائش کا کرشمہ بھی شامل ہے۔ 14اگست کو پاکستان کی تشکیل کا معجزہ رونما ہوا، 14اگست ہی اس کرشمہ ساز اور معجز نما شخصیت کا یومِ پیدائش ٹھہرا۔ پاکستان عالمِ اسلام کا سرخیل بنا، میاں منظور احمد وٹو اپنی بصیرت اور سیاسی بصارت کے طفیل بامِ عروج پر پہنچے۔ یہ بات کہنے کی حد تک ہی آسان ہے۔ میاں منظور احمد وٹو گیلی زمین کھود کر فرہاد نہیں بنے، انہیں اقتدار کی شیریں کے حصول کے لیے جفاکش کوہ کن بننا پڑا۔ اپنے تیشے کی دھار کو ہمہ وقت آبدار رکھنا پڑا۔ البتہ ایک بہت بڑا فرق ان میں اور فرہاد میں یہ رہا کہ فرہاد جان لیوا کوہ کنی کے بعد بھی نامراد ہی رہا مگر میاں منظور احمد وٹو اپنے تیشے کے استعمال یعنی محنت کے ساتھ ساتھ بصیرت اور بصارت کو بھی بروئے کار لائے جس کے نتیجے میں اقتدار کی شیریں منزل بن کر ان کے قدموں میں بچھ گئی۔ یہ وہ اعزاز ہے کہ جس کے حصول کے لیے خاک در خاک بھی ہونا پڑتا ہے۔
میاں منظور احمد وٹو سیاست میں ایک بہت بڑے ریفارمر کے طور پر سامنے آئے۔ دیکھا جائے تو سیاست میاں منظور احمد وٹو کے لیے بڑی نفع بخش رہی۔ یہ نفع معاشی لحاظ سے نہیں بلکہ شہرت اور نیک نامی کی صورت میں انہیں ملا۔1983ء میں میاں منظور وٹو پہلی دفعہ چیئرمین ضلع کونسل بنے تو ضلع اوکاڑا میں تعمیر و ترقی کا انقلاب برپا ہو گیا۔ آپ کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر تعلیم تھی۔ پرائمری ایجوکیشن کے فروغ کے لیے آپ نے خصوصی دلچسپی لی۔ بیشمار نئے سکولز کا قیام عمل میں لایا گیا، سیکڑوں سکولوں کی نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ضلع پنجاب کے ٹاپ فائیو اضلاع میں شامل ہو گیا۔
دوسرے نمبر پر آپ کی ترجیح صحت کا شعبہ تھی۔ دور دراز علاقوں میں ہسپتالوں کا جال بچھ گیا۔ کسانوں کے لیے منڈیوں تک رسائی آسان بنانے کی خاطر گائوں گائوں سڑکیں تعمیر ہو گئیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے نیت کو بھاگ لگایا اور آپ ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے۔ یوں خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا۔ حلقہ احباب بھی بڑھ گیا جس نے آگے چل کر میاں منظور وٹو کے لیے ترقی کی راہیں مزید ہموار کر دیں۔ آپ کا شمار میاں نواز شریف کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
آپ کی وجہ سے ضلع اوکاڑا خصوصاً تحصیل دیپال پور کے بے روزگار نوجوانوں کی قسمت کا ستارا چمک گیا۔ بے شمار نوکریاں دلانا آپ کے کریڈٹ پر ہے۔
میاں منظور وٹو کا وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہونا ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ حق تو یہ ہے کہ میاں منظور احمد وٹو نے وزیرِ اعلیٰ بننے کا حق ادا کر دیا۔ بلا شبہ یہ میاں منظور وٹو کے عروج کی انتہا تھی۔ میاں صاحب نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ پنجاب بھر میں عمومی اور ضلع اوکاڑا میں خصوصی ترقی کا نیا دَور شروع ہو گیا۔ کہیں نوجوان نسل کے لیے سٹیڈیم تعمیر ہوئے تو کہیں کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کہیں گرڈ سٹیشنز منظوری ہوئی تو کہیں اعلیٰ معیار کی پختہ سڑکیں معرضِ وجود میں آ گئیں مگر طبیعت تھی کہ خدمت کے کاموں سے سیر ہی نہیں ہوتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب اپنے آفس میں بیٹھے ہوتے، مختلف وفود ملاقات کو پہنچتے، بات چیت جاری رہتی، ساتھ ساتھ فائلیں بھی دیکھتے جاتے۔ لوگوں کے ذاتی مسائل کی شنوائی بھی جاری رہتی اور ان کے حل کے اقدامات بھی ہوتے رہتے مگر جونہی کوئی اجتماعی بھلائی کا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا اس کی جزئیات سے آگاہی کے بعد اس منصوبے کی فوری منظوری دیتے تھے۔ عام لوگوں کی بھلائی اور خدمت آپ کا نصب العین رہا۔ دل تھا کہ خدمت سے بھرتا ہی نہ تھا۔ بعض اوقات کچھ کام چاہتے ہوئے بھی نہ کر پاتے کہ قانونی ضابطے آڑے آ جاتے، مگر لیڈر ہمیشہ لیڈر ہی ہوتا ہے۔ جذبے سچے ہوں تو راہیں نکل ہی آتی ہیں۔
خدمات کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے میاں منظور احمد وٹو کی رہنمائی میں ان کی والدہ محترمہ امیر بیگم کے نام سے آپ کی ہونہار بیٹی محترمہ روبینہ شاہین کی سربراہی میں امیر بیگم ویلفیئر ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور یوں نہ صرف عوامی بھلائی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا بلکہ میاں منظور وٹو نے سماجی خدمات کے لیے غیر سیاسی پلیٹ فارم سے اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی شامل کر لیا۔ خصوصاً آپ کی قابلِ فخر بیٹی روبینہ شاہین وٹو نے انسانوں اور انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ گراں قدر خدمات سر انجام دیں کہ جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال دیپال پور میں گردوں کے ڈائیلسز کے لیے مکمل سہولیات اور مشینری کی فراہمی ایسا عظیم کارنامہ ہے جو ان کی تمام نیکیوں پر بھاری ہے۔ اس ٹرسٹ کے تحت ضلع بھر کے گاں گاں اور قصبات میں چلنے والے واٹر فلٹریشن پلانٹس عوام کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہو رہے ہیں۔ امیر بیگم ویلفیئرٹرسٹ کی طرف سے ٹیلنٹڈ طلبہ کو ہر سال لاکھوں روپے کے نہ صرف وظائف دئیے جاتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم کی تکمیل تک تمام اخراجات برداشت کر کے مستحق اور نادار طلبہ کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ اب تک تین ہزار سے زائد غریب بچیوں کی شادی بھی اس ٹرسٹ کے کریڈٹ پر ہے۔ ان بچیوں کو مکمل جہیز کے ساتھ میاں منظور وٹو نے خود باپ کی طرح رخصت کیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ 2008ء میں میاں منظور احمد وٹو خود اور ان کے صاحبزادے میاں خرم جہانگیر وٹو ایم این اے جبکہ ان کی صاحبزادی محترمہ روبینہ شاہین وٹو ایم پی اے منتخب ہوئیں۔ میاں منظور وٹو وفاقی وزیر دفاع اور وزیر برائے گلگت بلتستان کے مناصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
چند سال سے میاں منظور وٹو ضعیف العمری کے سبب سیاست میں بہت زیادہ متحرک نہیں رہے تھے۔ تاہم ان کے بیٹے میاں معظم جہاں زیب وٹو اور میاں خرم جہانگیر وٹو پوری تن دہی سے ان کے سیاسی مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف رہے۔ ان کے بیٹے میاں ذیشان منظور وٹو بھی حال ہی میں سیاست کے میدان میں کافی سرگرمی سے مصروفِ عمل ہیں۔میاں منظور وٹو کی وفات ان کے خاندان کے لیے ہی نہیں، پوری تحصیل دیپال پور کے لیے صدمے کا باعث بنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطائوں کو درگزر فرما کر انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
یوں تو وقت نے پیدا کیے ہیں لوگ بڑے
وہ ایک شخص مگر آسمان قامت تھا




