Column

علم کا قتل، سانحہ پشاور اور قومی ضمیر: ایک فکری احتساب

علم کا قتل، سانحہ پشاور اور قومی ضمیر: ایک فکری احتساب
صفدر علی حیدری
سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جو ہر سال لوٹ کر آتا ہے، مگر دراصل کبھی گیا ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو کیلنڈر سے زیادہ ہمارے اجتماعی شعور پر لکھی ہوئی ہے۔ یہ دن بیک وقت سقوطِ ڈھاکہ کا زخم بھی ہے اور نو تعمیر کی معصوم امیدوں کا خون بھی۔ 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (APS)میں ہونے والا سانحہ محض ایک دہشت گرد حملہ نہیں تھا؛ یہ علم پر حملہ تھا، معصومیت کا قتل تھا، اور ایک ایسی سوچ کی خون آلود دستک تھی جو قلم سے خوف کھاتی ہے۔ اس دن بندوق نے کتاب پر گولی چلائی، اور پوری قوم لہولہان ہو گئی۔یہ واقعہ ہمیں صرف اس لیے نہیں جھنجھوڑتا کہ اس میں 144جانیں گئیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ان میں اکثریت بچوں کی تھی، وہ بچے جو نہ کسی جنگ کا حصہ تھے، نہ کسی محاذ پر کھڑے تھے۔ جیسا کہ ایک مقتول بچے کے والد نے لرزتے ہوئے کہا:”وہ لڑنے یا جنگ کرنے نہیں گئے تھے، پڑھنے علم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے”۔
یہ ایک جملہ نہیں، ایک آئینہ ہے جس میں ہماری اجتماعی ناکامی، ہماری خاموش رضامندی اور ہماری اخلاقی کمزوری صاف نظر آتی ہے۔ یہ لمحہ ہماری تاریخ کا وہ نقطہ ہے جہاں علم کے حصول کی معصوم خواہش کا جواب سفاکیت کی انتہا نے دیا۔
تعلیم ہمیشہ سے اندھیروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں علم نے سوال اٹھانے شروع کیے، جمود ٹوٹا، شعور بیدار ہوا، تو طاقت کے ایوان لرزنے لگے۔ جابر اور انتہا پسند قوتوں کی اولین ترجیح یہی رہی ہے کہ فکری آزادی اور سوال اٹھانے کی صلاحیت کو کچل دیا جائے۔ اسی لیے ہر دور میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا، کہیں کتابیں جلائی گئیں، کہیں استاد قتل کیے گئے، اور کہیں معصوم طلبہ کو مثال بنا دیا گیا۔ پشاور کا سانحہ اسی طویل فکری جبر کی ایک بھیانک اور خونریز کڑی تھا۔
آرمی پبلک اسکول کے بچے کسی نظریے کے مخالف نہیں تھے، نہ کسی سیاسی یا مذہبی تحریک کا حصہ۔ وہ تو صبح اٹھ کر یونیفارم پہننے والے عام بچے تھے، خواب چھوٹے تھے مگر امیدوں سے بھرے ہوئے۔ کسی کو ڈاکٹر بننا تھا، کسی کو فوجی، کسی کو استاد، کسی کو شاعر۔ یہ بچے دراصل ہمارے مستقبل کی تعبیر تھے۔ مگر دہشت گردوں نے ان سب خوابوں کو ایک ہی لمحے میں خون میں نہلا دیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ ان کی نظر میں سب سے بڑا دشمن قلم کی طاقت اور آزاد سوچ ہے۔
یہاں سوال صرف یہ نہیں کہ قاتل کون تھے، بلکہ یہ بھی کہ وہ سوچ کہاں سے آئی جو بچوں کے قتل کو "جائز” سمجھتی ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو سوال سے ڈرتی ہے، اختلاف کو کفر سمجھتی ہے، اور علم کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ جانتی ہے۔ انتہا پسندی کا فلسفہ دلیل کے بجائے نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے تاکہ اس کے بیانیے کو چیلنج کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔
جب بندوق کو دلیل کا متبادل بنا لیا جائے تو پہلا نشانہ ہمیشہ اسکول بنتے ہیں، کیونکہ اسکول صرف عمارتیں نہیں ہوتیں، یہ آنے والے کل کی فکری بنیاد ہوتے ہیں؛ وہ جگہ جہاں سوال کرنے والے ذہن پروان چڑھتے ہیں۔ سانحہ پشاور نے ہمیں یہ تلخ سچ دکھایا کہ ہم بطورِ قوم علم کے دفاع میں کتنے کمزور ہیں۔ ہم نے لاشوں پر عہد تو بہت کیے، شمعیں بھی جلائیں، تقاریر بھی ہوئیں، مگر کیا ہم نے اس سوچ کو واقعی دفن کیا جو اس قتلِ عام کے پیچھے تھی؟ یا ہم نے صرف قاتلوں کے چہرے بدلے، نظریہ وہی رہنے دیا؟ اگر فکری ماحول وہی رہا جہاں نفرت پروان چڑھتی ہے، تو قاتل صرف شکلیں بدل کر لوٹ آئیں گے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہم اس دن کو اکثر ایک رسمی یادگار کے طور پر مناتے ہیں، چند لمحوں کی خاموشی، کچھ اشعار، کچھ آنسو، اور پھر روزمرہ کی بے حسی۔ مگر 16دسمبر خاموشی کا نہیں، سوال کا دن ہے۔ یہ دن ہم سے سنجیدہ اور عملی احتساب کا تقاضا کرتا ہے:
کیا ہمارے نصاب بچوں کو سوچنا سکھاتے ہیں یا صرف رٹنا؟
کیا ہمارے معاشرتی رویے برداشت پیدا کر رہے ہیں یا نفرت؟
کیا ہم نے واقعی فیصلہ کیا ہے کہ بندوق کے مقابلے میں کتاب کو کھڑا کریں گے اور تعلیم کو قومی سلامتی کا بنیادی ستون بنائیں گے؟
علم کا قتل صرف گولی سے نہیں ہوتا، گولی تو فکری زوال کا خونی اظہار ہے۔ علم اس وقت بھی خاموشی سے قتل ہوتا ہے جب استاد کو خوف میں مبتلا کر دیا جائے اور وہ سچ بولنے یا سوال کی حوصلہ افزائی سے گریز کرے۔
سوال کرنے والے طالب علم کو بدتمیز کہا جائے اور اس کے تجسس کی جڑ کاٹ دی جائے۔
تحقیق کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے اور حقائق کی تلاش کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھ کر معاشرے کو فکری قطبیت (Polarization)کی نذر کر دیا جائے۔
پشاور میں جو ہوا، وہ اسی طویل فکری زوال کا ایک بھیانک نتیجہ تھا، جہاں ہم نے علم کو محض روزگار کا ذریعہ سمجھا اور اس کی فکری و اخلاقی قوت کو نظرانداز کیا۔
ان بچوں کی قبریں ہم سے صرف انصاف نہیں مانگتیں، وہ ہم سے شعور مانگتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم نے اپنے اسکولوں کو محفوظ نہ بنایا، اپنے معاشرے کو رواداری نہ سکھائی، اور علم کو محض روزگار کی سیڑھی سمجھ کر اس کی فکری طاقت سے منہ موڑ لیا، تو یہ سانحات تاریخ نہیں رہیں گے، معمول بن جائیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ دہشت گرد صرف بندوق نہیں اٹھاتا، وہ ایک بیانیہ بھی اٹھاتا ہے، ایسا بیانیہ جو خوف، نفرت اور لاعلمی پر پلتا ہے۔ وہ اسکول پر حملہ کر کے صرف جسم نہیں مارتا، وہ ذہنوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ریاست، معاشرہ اور اہلِ علم اگر صرف عسکری زبان میں جواب دیں، اور فکری محاذ خالی چھوڑ دیں، تو فتح عارضی رہتی ہے۔ بیانیے کی جنگ کتاب، سوال، مکالمے اور تنقیدی شعور سے جیتی جاتی ہے، گولی سے نہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے بچوں کو صرف شہید قرار دے کر اپنے ضمیر کو وقتی تسلی دی، مگر ان کے خوابوں کو زندہ رکھنے کی سنجیدہ کوشش کم ہی کی۔ ہم نے اسکولوں کی دیواریں تو اونچی کیں، مگر نصاب کی فکری دیواریں کمزور ہی رہیں۔ ہم نے سکیورٹی بڑھائی، مگر برداشت، تنوع اور اختلافِ رائے کی تربیت کو قومی ترجیح نہ بنا سکے۔
یہ بچے ہم پر ایک قرض چھوڑ گئے ہیں، ایسا قرض جو صرف تعزیتی تقاریر یا یادگاری تقویم سے ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ قرض تب اترے گا، جب ہم تعلیم کو نظریاتی جبر سے آزاد کریں گے۔ سوال کو بغاوت نہیں، فہم کی پہلی سیڑھی سمجھیں گے، استاد کو محض نصاب کا نگران نہیں، ضمیر کا معمار مانیں گے اور علم کو روزگار سے بڑھ کر انسان سازی کا عمل تسلیم کریں گے۔
سولہ دسمبر ہمیں یہ یاد دلانے آتا ہے کہ اگر کتاب کمزور ہوئی، تو بندوق طاقتور ہو جاتی ہے۔ اگر سوال دبایا گیا، تو تشدد بولنے لگتا ہے۔ اور اگر ہم نے علم کا دفاع نہ کیا، تو علم کا قتل صرف پشاور تک محدود نہیں رہے گا، وہ خاموشی سے ہر کلاس روم، ہر ذہن، اور ہر آنے والی نسل تک پھیل جائے گا۔
یہ دن ہمیں رونے کے لیے نہیں، جاگنے کے لیے دیا گیا ہے۔
یہ دن خاموشی کے لیے نہیں، سوال اٹھانے کے لیے ہے۔
یہ دن صرف ماضی کا نوحہ نہیں، مستقبل کی ذمہ داری ہے۔
اگر ہم نے سانحہ پشاور کو محض ایک یادگار تاریخ بنا دیا، تو ہم ان بچوں کے ساتھ دوسری بار ناانصافی کریں گے۔ اصل انصاف یہ ہے کہ ہم اس سوچ کو شکست دیں جو علم سے خوف کھاتی ہے، سوال سے بھاگتی ہے، اور اختلاف کو دشمنی سمجھتی ہے۔ اصل انصاف یہ ہے کہ ہم اسکول کو عبادت گاہِ علم مانیں، استاد کو فکری رہنما، اور طالب علم کو قوم کی سب سے قیمتی امانت۔
سولہ دسمبر ہم سے یہ عہد مانگتا ہے کہ بندوق کے مقابلے میں کتاب کو، نفرت کے مقابلے میں شعور کو، اور جبر کے مقابلے میں سوال کو کھڑا کیا جائے۔ کیونکہ جب کتاب زندہ ہوتی ہے، تو بندوق بے معنی ہو جاتی ہے؛ جب سوال زندہ ہوتا ہے، تو انتہا پسندی دم توڑ دیتی ہے؛ اور جب علم محفوظ ہوتا ہے، تو قومیں قتل نہیں ہوتیں، تخلیق ہوتی ہیں۔یہی ان بچوں کا قرض ہے، یہی ہمارا فکری احتساب، اور یہی سولہ دسمبر کا اصل سبق ہے۔
کتاب کو زندہ رکھو، تاکہ بندوق بے معنی ہو جائے۔

جواب دیں

Back to top button