Column

شرح سود میں کمی، مثبت قدم

شرح سود میں کمی، مثبت قدم
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کے تحت شرح سود میں 50 بیسز پوائنٹس کی کمی اور اسے 10.50 فیصد پر لانے کا فیصلہ ملکی معیشت کے لیے ایک اہم، بروقت اور حوصلہ افزا اقدام ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان معیشت کی بحالی، صنعتی سرگرمیوں کے فروغ اور کاروباری اعتماد کی بحالی کے مرحلے سے گزر رہا ہے، مرکزی بینک کا یہ فیصلہ واضح پیغام دیتا ہے کہ پالیسی ساز اب محض استحکام نہیں بلکہ ترقی کی طرف عملی پیش رفت چاہتے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ معاشی تجزیہ کاروں کی اکثریت شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنے کی توقع کر رہی تھی، مگر مانیٹری پالیسی کمیٹی کا غیر متوقع مگر جرات مندانہ فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کے دبائو میں کمی، زرمبادلہ کی صورتحال میں بہتری اور مالی نظم و ضبط پر بڑھتے اعتماد کا ادراک ہے۔ شرح سود میں سات ماہ بعد کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی کے رجحان میں واضح کمی آ چکی ہے اور معیشت اب اس پوزیشن میں ہے کہ اسے سخت مانیٹری پالیسی کے شکنجے میں مزید جکڑے رکھنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مئی2025ء میں 100بیسز پوائنٹس کی کمی کے بعد شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا ایک محتاط حکمتِ عملی تھی، مگر اب حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ معیشت کو سانس لینے کا موقع دیا جائے۔ یہ فیصلہ دراصل ایک بیلنسڈ اپروچ کی عکاسی کرتا ہے، جس میں مہنگائی کے خدشات کو نظرانداز کیے بغیر ترقی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ شرح سود میں کمی کا سب سے بڑا فائدہ کاروباری طبقے کو پہنچتا ہے۔ قرضے سستے ہونے سے صنعتکاروں کو توسیع، نئی سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)، جو مہنگے قرضوں کی وجہ سے شدید دبائو میں تھے، اب نسبتاً بہتر ماحول میں کام کر سکیں گے۔ اس فیصلے سے صنعتی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اسٹاک مارکیٹ میں اعتماد بحال ہوگا، نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو تقویت ملے گی۔ یہ تمام عوامل مل کر معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ عام آدمی کو شرح سود میں کمی کا براہِ راست فائدہ فوری طور پر محسوس نہیں ہوتا، تاہم بالواسطہ اثرات نہایت اہم ہیں۔ جب کاروبار بڑھے گا، صنعت چلے گی اور روزگار پیدا ہوگا تو اس کے ثمرات بالآخر عوام تک پہنچیں گے۔ مہنگے قرضوں کے باعث رکی ہوئی معاشی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز ہونا مہنگائی پر قابو پانے میں بھی مدد دے سکتا ہے، کیونکہ سپلائی میں بہتری قیمتوں کے استحکام کا باعث بنتی ہے۔ یہ فیصلہ اس امر کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اب عالمی مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کے سامنے ایک ذمے دار اور سنجیدہ معیشت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ مالی نظم و ضبط، محصولات میں بہتری اور کرنٹ اکائونٹ کے دبائو میں کمی نے اسٹیٹ بینک کو یہ اعتماد دیا ہے کہ وہ شرح سود میں نرمی کر سکتا ہے۔ پالیسی کا تسلسل بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ بغیر کسی جلد بازی کے، ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مانیٹری پالیسی اب ردِعمل کے بجائے حکمتِ عملی کے تحت چل رہی ہے۔ یقیناً کچھ حلقے اس خدشے کا اظہار کریں گے کہ شرح سود میں کمی سے مہنگائی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے مگر یہ خدشات فی الحال حد سے زیادہ مبالغہ آمیز محسوس ہوتے ہیں۔ 50بیسز پوائنٹس کی کمی کوئی جارحانہ قدم نہیں بلکہ ایک محتاط نرمی ہے، جو حالات کے مطابق ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مستقبل کے لیے لچک برقرار رکھی ہے اور اگر حالات بدلتے ہیں تو پالیسی میں مناسب رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ شرح سود میں کمی ایک مثبت قدم ضرور ہے، مگر یہ اکیلا کافی نہیں۔ حکومت کو اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے میں بہتری، سرکاری اخراجات پر کنٹرول، زراعت اور برآمدات کے فروغ جیسے اقدامات پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ مانیٹری پالیسی کے ثمرات ضائع نہ ہوں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا شرح سود میں 50بیسز پوائنٹس کی کمی کا فیصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستانی معیشت جمود سے نکل کر بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف کاروباری طبقے بلکہ عوام اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ہے۔ اگر یہی محتاط، متوازن اور طویل المدتی سوچ برقرار رہی تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان معیشت کے مشکل ترین مرحلے سے نکل کر استحکام اور ترقی کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
پاکستان میں سپر فلو کیسز کی تصدیق
پاکستان میں H3N2وائرس کے کیسز کی تصدیق کے بعد صحت کے شعبے میں ایک نئی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے ملک میں ’’ سپر فلو’’ کی وبا کے بارے میں ہنگامی الرٹ جاری کیا ہے، جس میں بتایا گیا کہ H3N2سب کلاڈ Kتیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کی وجہ سے وائرس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ وائرس خاص طور پر بزرگوں، بچوں، حاملہ خواتین اور دیگر ہائی رسک گروپوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں H3N2وائرس کا پھیلائو ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ گزشتہ چند ہفتے میں تین لاکھ سے زائد مشتبہ فلو کیس رپورٹ ہوچکے ہیں اور لیبارٹری ڈیٹا کے مطابق 12فیصد نمونے H3N2سے مثبت پائے گئے ہیں۔ این آئی ایچ کے مطابق، مئی 2025ء سے اب تک انفلوئنزا اے کے 66فیصد کیسز H3N2سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وائرس گنجان آباد علاقوں اور بند جگہوں پر تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں اس کے اثرات زیادہ گہرے ہورہے ہیں۔ موسمی انفلوئنزا کا بڑھتا ہوا پھیلائو اور اس کی غیر معمولی شدت نے حکومت اور صحت کے اداروں کو فوری اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ این آئی ایچ نے وفاقی و صوبائی محکمہ صحت کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے اور اسپتالوں کو او پی ڈی اور داخلوں میں اضافے کے لیے تیار رہنے کی تاکید کی ہے۔ موسم سرما کے دوران فلو کیسز میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، جس سے صحت کے نظام پر مزید بوجھ پڑنے کا خطرہ ہے۔ این آئی ایچ کی جانب سے سپر فلو کے پھیلائو کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ وائرس خاص طور پر ہائی رسک گروپ میں شامل افراد کے لیے زیادہ خطرناک ہے، جیسے کہ ذیابیطس، دل اور سانس کے مریض۔ ایسے مریضوں کے لیے جلد اینٹی وائرل علاج کی سفارش کی گئی ہے تاکہ بیماری کی شدت کم کی جا سکے اور پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسمی انفلوئنزا ویکسین اس بیماری سے بچائو کا موثر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ این آئی ایچ کے مطابق، موجودہ ویکسین H3N2سب کلاڈ Kکے خلاف بھی موثر ہے، جس سے وائرس کے پھیلائو اور شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ فلو کے بارے میں غلط معلومات سے بچیں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں تاکہ اس وبا کا مقابلہ کیا جا سکے۔ H3N2سپر فلو وائرس کے پھیلائو کی صورت حال سنگین ہوسکتی ہے، خاص طور پر اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو صحت کے نظام پر اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے۔ حکومت اور صحت کے اداروں کے ساتھ عوامی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ اس وبا سے بچا جاسکے۔ اس کے لیے ویکسی نیشن اور احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ، صحت کے حکام کو عوامی آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس وائرس کی سنگینی کو سمجھیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

جواب دیں

Back to top button