بلاشبہ علم بڑی طاقت ہے

بلاشبہ علم بڑی طاقت ہے
تحریر : شکیل امجد صادق
سکندر ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوا، جہاں طاقت کا مطلب زمین، سونا اور آدمی تھے۔ پھر اس کی زندگی میں ارسطو داخل ہوا اور اس نے ایک نئی طاقت دکھائی، خیال اور علم کی طاقت۔ میزا کے باغوں میں، ستونوں کے سائے تلے، ایک کم عمر شہزادہ اس استاد کے سامنے بیٹھتا جو خود کسی فوج کا مالک نہ تھا۔ سکندر اپنے سوال، بے چینی اور ہیروئوں کی کہانیاں لاتا۔ ارسطو اس کے سامنے کتابیں، منطق اور خاموش سوال رکھتا۔ اس نے اسے سکھایا کہ ہومر کو صرف رات کی کہانی نہیں، زندگی کا دستور کیسے پڑھا جاتا ہے۔ تاریخ کو کیسے سمجھا جاتا ہے، سلطنتیں کیوں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، حکمران کیوں عزت پاتے اور کیوں بددعا بن جاتے ہیں۔
سبق دو طرح کے تھے۔ چند باتیں ایسی تھیں جو درباری بھی سن سکتے تھے، گفتار، حکومت، قانون۔ پھر وہ دائرہ تھا جو بالکل نجی تھا، جب خدام چلے جاتے، آواز مدھم ہو جاتی اور بات روح، زندگی کے مقصد، اور اس انسان کے بارے میں ہوتی جو تنہائی میں کیسا ہے۔ یہ حصہ سکندر کو لگتا تھا کہ صرف اس کا ہے، اس کی خاص امانت ہے۔
وقت گزرا۔ لڑکا بادشاہ بنا، پھر فاتح بنا۔ ایشیا کی مٹی اس کے جوتوں پر تھی، دریائوں اور صحرا کے نقشے اس کے خیمے میں بچھے تھے۔ اتنے میں ایک مختلف خبر آئی۔ کوئی فتح نہیں، بلکہ طومار۔ ارسطو نے وہی گہرے مضامین لکھ دئیے جن پر کبھی خفیہ مجلسوں میں بات ہوتی تھی۔ اب وہ نقل ہو رہے تھے، شہزادوں اور عام شاگردوں تک جا رہے تھے۔ سکندر نے عنوان پڑھے، اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو کبھی اس کا خاص سرمایہ تھی۔ اسے اندر سے چبھتا ہوا احساس ہوا۔ یہ خوف نہیں تھا بلکہ حسد اور برتری کے کم ہو جانے کے خطرے کی چبھن تھی۔ اگر ہر سنجیدہ طالب علم وہی پڑھ لے جو میں نے اکیلے پڑھا، تو پھر میں کس بات میں سب سے اوپر رہوں گا۔ میں نے دنیا کو فتح کیا ہے، علم بھی بس میرا ہونا چاہیے۔ اس نے خط لکھوایا کہ آپ نے یہ علوم شائع کر کے درست نہیں کیا، اب میں دوسروں سے کس بات میں بڑھ کر رہوں گا، میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ چیزوں کے علم میں سب سے آگے رہوں، صرف طاقت میں نہیں۔
ان جملوں کے پیچھے ایک ہی سوچ تھی، علم میرا ہتھیار ہے، اگر سب کے ہاتھ میں یہی ہتھیار آ گیا تو میری اونچائی کم ہو جائے گی۔ ذرا ارسطو کو سوچئے جو دور بیٹھا اپنے شاگرد کا خط پڑھ رہا ہوگا۔ ساری عمر اس نے اندھیروں سے عقل کو نکالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے نزدیک علم سونے کے سکّے کی طرح نہیں تھا جو بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ جتنا زیادہ ذہنوں تک پہنچے گا، اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ اس نے لکھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ سچ صرف ایک بادشاہ کے خیمے تک محدود نہ رہے۔
اب دو ہزار سال آگے چلتے ہیں، سیدھا سندھ آتے ہیں۔ یہاں محلوں کی جگہ حویلیاں، گھوڑوں کی جگہ ڈبل کیبن، مگر ذہن کا نقشہ کئی جگہ وہی ہے۔ بہت سے علاقوں میں اصل فیصلہ خاموشی سے یہ ہے کہ لوگ اتنے ہی پڑھے لکھے رہیں کہ حکم مان سکیں، اتنے نہیں کہ سوال کر سکیں۔ کئی گائوں میں اسکول صرف کاغذوں میں ہیں۔ عمارت ہے، دروازہ بند ہے۔ ٹیچر کا نام لسٹ میں ہے، کلاس روم خالی ہے۔ جس لڑکی کو آج سائنس پڑھنی چاہیے وہ گھروں میں پانی بھر رہی ہے۔ جس لڑکے کو کتاب میں دنیا کھولنی چاہیے وہ ٹھیلا کھینچ رہا ہے۔ کچھ جاگیردار آسانی سے ٹریکٹر لے آتے ہیں، مگر لائبریری نہیں بناتے۔ مہمان خانہ بنا لیتے ہیں، سائنس لیب نہیں بناتے۔ سیاسی جلسے پر خرچ کرنا آسان لگتا ہے، ٹیچر کی ٹریننگ پر خرچ کرنا مشکل لگتا ہے۔ اندر کہیں نہ کہیں یہ خیال بیٹھا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب پڑھ گئے تو کنٹرول مشکل ہو جائے گا۔
سکندر چاہتا تھا کہ اعلیٰ علم پر اس کی اجارہ داری رہے، کچھ جاگیردار اسکول اور علم پر اپنی اجارہ داری سے اپنی اونچائی بچانا چاہتے ہیں۔ فارمولا وہی ہے، طاقت کو دوسروں کی کم علمی میں سہارا ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ارسطو کا راستہ آج بھی زندہ ہے۔ وہ لکھتا رہا، اس نے سبق کاغذ پر آزاد کر دئیے، اس نے قبول کیا کہ شاید اس سے استاد اور شاگرد کے بیچ فاصلے کم ہو جائیں، مگر علم زندہ رہے گا۔ آج سندھ کے کسی پسماندہ گائوں میں جب کوئی استاد پھٹی ہوئی کتاب کھول کر بچوں کو پڑھاتا ہے تو وہ خاموشی سے ارسطو کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور سکندر کی سوچ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ یہ علم صرف امیروں کی نشستوں کے لئے نہیں، آخری بینچ پر بیٹھے بچے کا بھی حق ہے۔
اور جب کوئی بااختیار شخص اسکول بند رکھتا ہے، استاد کی پوسٹ بیٹوں، بھتیجوں کے نام کی سیاست بنا لیتا ہے، یا ایسا نصاب رکھتا ہے کہ بچہ رٹا لگا لے مگر سوچ نہ سکے، تو وہ سکندر کی وہی غلطی دہرا رہا ہوتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری اونچائی تمہاری جہالت پر کھڑی رہے۔
سکندر کی سلطنت بکھر گئی۔ اس کی حسد بھری سوچ نہیں بچی، جو بچا وہ استاد کا ورثہ ہے، علم کا سفر ہے۔ آج سوال یہ ہے کہ سندھ کو کس راستے پر کھڑا کرنا ہے۔ کیا ہم چھوٹے چھوٹے سکندروں کا صوبہ بنے رہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی کرسیوں کے لئے بچوں کے ذہن چھوٹے رکھتے ہیں۔ یا ہم ارسطو کی طرح سوچیں جو سب سے قیمتی خیال کو بھی اس وقت تک ادھورا سمجھتا ہے جب تک وہ غریب ترین بچے کے ذہن تک نہ پہنچ جائے۔
اصل عظمت اب اس میں نہیں کہ آپ تعلیم کو قابو میں رکھیں۔ اصل عظمت اس میں ہے کہ آپ تعلیم کو اتنا پھیلا دیں کہ کوئی بچہ یہ محسوس نہ کرے کہ حکمت، سیاست، سربراہی کسی اور کا خاندانی حق ہے۔





