خوف کی عالمی لہر اور سڈنی کا سرخ ساحل

خوف کی عالمی لہر اور سڈنی کا سرخ ساحل
تحریر : قادر خان یوسف زئی
کیا اب اس کرہ ارض پر کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ سڈنی کے بونڈی بیچ پر ہونے والی حالیہ خونریزی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اس خوفناک سلسلے کی ایک کڑی ہے جو امریکہ کی گلیوں سے شروع ہوکر یورپ کے تاریخی شہروں تک اور اب دنیا کے دوسرے کونے یعنی آسٹریلیا تک پھیل چکی ہے۔ آج جب ہم سڈنی کے ساحل پر ہونے والے اس دلخراش واقعے کے پس منظر میں بات کر رہے ہیں تو ہمیں جذباتی نعروں سے نکل کر ان محرکات کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لینا ہوگا جو ہماری دنیا کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر رہے ہیں۔ بونڈی بیچ، جو کبھی زندگی، موج مستی اور سکون کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج وہیں موت نے رقص کیا ہے اور یہ رقص اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ نفرت، جنون اور عدم برداشت کے وائرس کو روکنے کے لیے سمندروں کے فاصلے بھی اب ناکافی ہو چکے ہیں۔آسٹریلیا کی تاریخ گواہ ہے کہ 1996ء میں پورٹ آرتھر کے سانحے کے بعد وہاں کی ریاست نے جس طرح اسلحہ قوانین میں سخت اصلاحات کیں، وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی تھیں۔ وہاں ماس شوٹنگ کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے، لیکن حالیہ واقعے نے ثابت کیا ہے کہ قانون کی گرفت کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو، جب معاشرتی رویوں میں زہر گھل جائے اور نظریاتی شدت پسندی ذہنوں کو مائوف کر دے تو پھر کوئی بھی حصار محفوظ نہیں رہتا۔ سڈنی کا واقعہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھیں جہاں ایسے واقعات اب ’’معمول‘‘ بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا، جو ٹیکنالوجی اور تہذیب کے عروج پر ہے، وہاں انسان اس قدر درندہ صفت کیوں ہو رہا ہے؟ امریکہ، جو خود کو مہذب دنیا کا امام کہتا ہے، وہاں گن وائلنس ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں ہر سال ہزاروں افراد بندوق کی نالی کا نشانہ بنتے ہیں اور وہاں ماس شوٹنگز کی شرح دیگر تمام ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
امریکہ میں اس بڑھتے ہوئے رجحان کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا ’’گن کلچر‘‘ اور دوسری ترمیم کی وہ تشریح ہے جس نے اسلحہ کے حصول کو ٹافیاں خریدنے سے بھی زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی اور دیگر تحقیقی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ میں شہریوں کے پاس موجود اسلحے کی تعداد ان کی کل آبادی سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ جب معاشرے میں اس قدر اسلحہ موجود ہو اور ساتھ ہی سیاسی و سماجی تقسیم (Polarization)اپنے عروج پر ہو، تو تشدد کا راستہ روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ امریکی معاشرہ اس وقت شدید تنہائی، معاشی عدم مساوات اور ذہنی صحت کے بحران سے گزر رہا ہے۔ نوجوان نسل میں مایوسی اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی نفرت نے ایک ایسا ماحول تشکیل دے دیا ہے جہاں اسکول، شاپنگ مالز اور عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں رہیں۔ وہاں ہر ماس شوٹنگ کے بعد بحث تو ہوتی ہے، شمعیں بھی روشن کی جاتی ہیں، لیکن اسلحہ ساز لابیوں کا اثر و رسوخ اور سیاسی مصلحتیں کسی بھی ٹھوس قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، اور نتیجہ مزید لاشوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسری جانب اگر ہم یورپ کا رخ کریں تو وہاں کی صورتحال امریکہ سے مختلف ضرور ہے مگر تشویشناک حد تک اسی سمت بڑھ رہی ہے۔ یورپ میں ماس شوٹنگز اور پرتشدد واقعات میں اضافے کی بنیادی وجوہ میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کا ابھار، امیگریشن کے مسائل پر بڑھتا ہوا سماجی تنائو اور ’’کاپی کیٹ‘‘ کرائمز شامل ہیں۔ یورپ، میں شناخت کی سیاست نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ پیرس سے لے کر برلن تک اور اب اسکینڈینیوین ممالک تک، ہر جگہ ایک ہی پیٹرن نظر آتا ہے۔ ایک تنہا حملہ آور (Lone Wolf)یا ایک چھوٹا گروہ، جو انٹرنیٹ پر موجود نفرت انگیز مواد سے متاثر ہوکر نہتے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ وہ ’’نظریاتی وائرس‘‘ ہے جو کسی سرحد کا پابند نہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے سڈنی جیسے دور دراز شہروں تک بھی پہنچ رہا ہے۔
سڈنی کے حالیہ واقعے کو محض ایک مقامی جرم کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ اب’’گلوبلائزڈ نفرت‘‘ سے محفوظ نہیں رہا۔ اگرچہ آسٹریلیا کے قوانین سخت ہیں اور وہاں خودکار اسلحہ کا حصول امریکہ کی طرح آسان نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں وہاں بھی غیر قانونی ذرائع اور انٹرنیٹ کے ذریعے بنیاد پرستی کے رجحانات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں معاشرتی مکالمہ ختم ہو جاتا ہے، تو تشدد جنم لیتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے جہاں دنیا کو جوڑا ہے، وہیں انہوں نے ایسے ’’ایکو چیمبرز‘‘ بھی تخلیق کیے ہیں جہاں ایک جیسے بیمار ذہنیت کے لوگ ایک دوسرے کے جنون کو ہوا دیتے ہیں۔ اب جنگ میدانوں میں نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جا رہی ہے اور اس کا ہتھیار صرف بندوق نہیں بلکہ وہ نظریہ ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں ہونے والی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ ماس شوٹنگ کے اکثر مرتکب افراد شدید ذہنی دبائو، سماجی تنہائی یا کسی نہ کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ معاشرے نے انہیں مسترد کر دیا ہے اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا واحد راستہ تباہی پھیلانا ہے۔ بدقسمتی سے، میڈیا کی کوریج بھی بعض اوقات غیر ارادی طور پر ان مجرموں کو ایک طرح کی ‘’’شہرت‘‘ فراہم کرتی ہے، جو دیگر ممکنہ حملہ آوروں کے لیے ترغیب کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک شیطانی چکر ہے جسے توڑنے کے لیے محض پولیس یا فوج کافی نہیں۔ امریکہ میں ہر سال 40ہزار سے زائد افراد کا گن وائلنس سے مرنا، یورپ میں بڑھتی ہوئی نسلی و مذہبی نفرت اور اب آسٹریلیا جیسے پرامن ملک میں خوف کے سائے،یہ سب ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ مسئلہ اب صرف ’’گن کنٹرول‘‘ کا نہیں رہا، یہ’’مائنڈ کنٹرول‘‘ اور’’ہیٹ کنٹرول‘‘ کا مسئلہ بن چکا ہے۔ جب تک ہم نفرت کے ان سوتے کو خشک نہیں کریں گے جو تعصب، جہالت اور ناانصافی سے پھوٹتے ہیں، تب تک کوئی بھی قانون، کوئی بھی دیوار اور کوئی بھی سمندر ہمیں محفوظ نہیں رکھ سکے گا۔





