اب مزید دہشت گردی ناقابلِ برداشت ہے

اب مزید دہشت گردی ناقابلِ برداشت ہے
تحریر : رفیع صحرائی
انسداد دہشت گردی اقدامات کی عدم تکمیل پر اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں عالمی برادری نے افغان طالبان رجیم کو دو ٹوک انداز میں انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہا پسند طالبان کی سرپرستی میں افغان سرزمین سے پاکستان سمیت پورا خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں متعدد ممالک کے مندوبین اور نمائندگان نے افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیتے ہوئے عالمی فورم پر متفقہ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے فوکانگ نے خبردار کیا کہ افغان سرزمین میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہ فعال اور پڑوسی ممالک پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینا مارکس لاسن نے افغانستان پر زور دیا کہ اسے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے بھی افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں شدید اضافے کی وجہ طالبان کے غیرموثر اقدامات کو قرار دیا ہے۔ پاناما اور ایران کے نمائندگان نے بھی اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت سے کہا کہ اسے دہشت گرد گروہوں کو ہر قسم کی مدد روکنے کی ذمہ داری لینا ہو گی۔ واضح رہے کہ پاکستان عالمی برادری کو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف مسلسل کی جانے والی کارروائیوں کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر چکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد مراکز ختم کیے بغیر ہمسایہ ممالک اور خطے میں امن قائم ہونا ممکن نہیں ہے جبکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغان طالبان رجیم کی پشت پناہی اور مکمل سہولت کاری خطے کے امن کو سنگین خطرات میں ڈال چکی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد نہ صرف خطے میں امن قائم نہ ہو سکا بلکہ پاکستان کے لیے خطرات میں سنگین اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغان سرزمین ایک بار پھر مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنتی جا رہی ہے جہاں سے سرحد پار دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ پاکستان بارہا افغان طالبان کو اس امر سے آگاہ کر چکا ہے کہ کالعدم تنظیمیں افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان امارات اور ترکی میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان ٹھوس شواہد اور ثبوت بھی پیش کر چکا ہے مگر افغان حکومت کی طرف سے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے پاکستان کے خدشات بڑھا دیا ہے۔ طالبان کی زبانی یقین دہانیاں اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق ان یقین دہانیوں کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خودکش حملے، سیکیورٹی فورسز پر منظم حملے، چیک پوسٹوں کو نشانہ بنانا اور شہری علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانا اب دوبارہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ جب سے پاکستان نے چار دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا ہے تب سے دہشت گردی کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ ان حملوں کے تانے بانے براہِ راست افغانستان سے جا ملتے ہیں جہاں دہشت گرد نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ منظم بھی ہیں اور گمان غالب ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں کہیں نہ کہیں افغانستان کی طالبان حکومت کی آشیرباد بھی شامل ہے۔یہاں سانحہ اے پی ایس کو یاد کرنا ناگزیر ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ اسی دہشت گرد سوچ کا شاخسانہ تھا جسے سرحد پار نظریاتی، اخلاقی اور عملی سہارا حاصل تھا۔ وہ سانحہ محض ایک حملہ نہیں تھا بلکہ پاکستان کے مستقبل کو لہولہان کرنے کی کوشش تھی۔ پاکستان کے سینے پر لگا ہوا وہ زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دینا، روزگار، تعلیم اور علاج فراہم کرنا ایک غیر معمولی انسانی مثال ہے۔ مگر افسوس کہ اسی مہمان نوازی کے جواب میں پاکستان کو دہشت گردی، بدامنی اور لاشیں ملیں۔ یہی وہ نمک حرامی ہے جس کا شکوہ آج ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔افغانستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر افغان طالبان واقعی عالمی برادری میں قبولیت چاہتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ محض خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی اور بقا کا سوال ہے۔ آج پاکستان ایک دوٹوک مقف پر کھڑا ہے۔ ہمیں اپنی سرزمین پر امن ضرور چاہیے مگر یک طرفہ قربانیوں کے ذریعے نہیں۔ مہمان نوازی ہماری روایت ہے مگر دہشت گردی پر خاموشی ہماری کمزوری نہیں ہو سکتی۔ اگر پاکستان نے افغانیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے تو اس کی وجہ یہ افغانی خود بنے ہیں۔ کون سا جرم ہے جس میں یہ افغانی ملوث نہیں۔ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ نظر آئے گا۔ پاکستان سے ڈالرز افغانستان اسمگل کر کے پاکستانی معیشت کو شدید بحران میں مبتلا کرنے کا کام یہ افغانی کر رہے ہیں۔ بذاتِ خود یہ ہماری معیشت کی کشتی میں ایسا بھاری اور ناپسندیدہ بوجھ ہیں جسے اب اتار پھینکنے میں ہی بہتری ہے۔
پاکستان کوئی کمزور ملک نہیں ہے جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ فی الحال افغان طالبان کو سمجھانے اور دنیا کو یہ باور کرانے کا مرحلہ طے کیا جا رہا ہے کہ اگر اس عفریت کا سر نہ کچلا گیا تو یہ خطے سے باہر پوری دنیا کے امن کے لیے خطرے کا باعث بن جائے گا۔ اگر افغان طالبان نے بروقت سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو یہ آگ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ انتہا پسندی کی لپٹیں سرحدوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ یہ آگ پھیلتی ہی چلی جاتی ہے اور اپنی لپیٹ میں آنے والی ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے۔ دنیا کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر اس سانپ کا سر نہ کچلا گیا تو یہ اژدھا بن کر بہت سوں کو نگل جائے گا۔
افغان حکومت کو بھی باور ہو جانا چاہیے کہ پاکستان اب مزید لاشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت وعدوں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اگر اس نے اب بھی نہ سمجھا تو پھر اسے مئی 2025ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کا انجام بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پاکستان اب مزید ان وحشی سانڈوں کی چراگاہ نہیں بنے گا۔





