بسنت پر پابندی ختم ہونے کے بعد؟

بسنت پر پابندی ختم ہونے کے بعد؟
تحریر : روشن لعل
حکومت پنجاب نے تقریباً 18برس کے بعد بسنت تہوار پر پابندی اٹھائی ہے۔ بسنت دوبارہ منانے کی اجازت ملنے کی خبر تقریباً ہر میڈیا ہائوس نے نمایاں طور پر نشر کی، لیکن بہت کم کسی نے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ اس صدیوں پرانے علاقائی و ثقافتی تہوار پر پابندی عائد کرنے کی نوبت کیوں آئی ۔
بسنت سردی کی روانگی اور بہار کی آمد کی خوشی میں پتنگ بازی کے ذریعے منایا جانے والا تہوار ہوا کرتا تھا۔ موسمی بدلائو کی بسنتی ر ت میں ہوا کا چلن عام دنوں سے منفرد اور مختلف ہوتا ہے۔سردیوں کے خاتمے کے ان دنوں میں ہوا خنک ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک خوشگوار احساس سموئے ہوتی ہے۔ اسی لیے ان دنوں چلنے والی ہوا کو پتنگ بازی کے لیے موزوں ترین خیال کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں انگریز دور سے 1970ء کی دہائی کے آخر تک پتنگ بازی اور اس کے لوازمات تقریباً ایک ہی طرح کے رہے۔ اس وقت تک صرف بسنت کے قریبی دنوں میں ہی پتنگ بازی ہوتی تھی اور جب دھوپ کی حدت میں تیزی آتی تو پتنگ باز خود ہی ڈور لپیٹ کر پتنگوں کو سنبھال لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عیدین پر بھی پتنگ باز اپنا شوق پورا کرتے نظر آتے تھے۔ پاکستان میں شروع دن سے ہی ایک حد تک پتنگ بازی کی مخالفت موجود رہی ۔ 1970ء کی دہائی کے آخر تک یہ روایتی مخالفت جاری رہی۔ ضیاء دور میں مذہبی شدت پسندی کے زیر اثر پتنگ بازی کی زیادہ مخالفت Blasphemeکے نام نہاد واقعہ کا حوالہ دے کر کی گئی، مگر عام نوجوانوں پر اس بات کا کوئی خاطر خواہ اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ ضیاء الحق کے رجعت پسند دور میں نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریح کے زیادہ مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پتنگ بازی کے ذریعے خوشیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے رہے۔ ضیاء دور میں پاکستان میں نودولتی ثقافت کا اجرا ہوا۔ اس عہد میں نو دولتیوں کی وجہ سے پتنگ سازی اور اس کے لوازمات میں ایسی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جو اس سے پہلے کے ایک صدی کے عرصے میں اس کھیل میں موجود نہیں تھیں۔
پتنگ بازی کے حوالے سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے یہاں تسلیم کیے بغیر وسعت دی گئی۔ جنرل مشرف نے اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے تحت پتنگ بازی کی مناسب ترویج کے بغیر اسے ریونیو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ کسی زمانے میں یہاں روایتی ڈور کے دھاگے میں زیادہ سے زیادہ 9تا 12 تاریں ہوتی تھیں اور گڈے ( پتنگ کی ایک قسم) کا سائز زیادہ سے زیادہ 6تاوا ( ایک تاوا =26انچ X25انچ) اور پتنگ زیادہ سے زیادہ 8گٹھی ( ڈیڑھ گٹھ = 41 انچ ) ہوتی تھی لیکن بعد کے دور میں پتنگ 16گٹھ اور گڈا 12تاوا تک بنایا گیا۔ پہلے دور کی پتنگوں کو اڑانے والی ڈور پر چاول کی پچ اور شیشے کے سفوف کا مانجھا لگایا جاتا تھا۔ اس دور کی ڈوروں کے نام 50نمبر، 6ریچھ پاکستانی، 2 ریچھ پاکستانی،5 ریچھ انڈین ، 7مچھی، 12نمبر اور 8سنگل وغیرہ ہوتے تھے جبکہ بعد کے دور میں یہ سادہ ڈوریں ختم کر دی گئیں اور ان کی جگہ انسانوں کے گلے کاٹنے والی ڈوروں نے لے لی۔ بڑی پتنگوں کو اڑانے والی ان ڈوروں کے لیے موٹا دھاگہ، دھاتی برادہ، کیمیکل، موٹے شیشے کا سفوف، لوہے اور پلاسٹک جوڑنے والا کیمیکل ریما ٹپ ٹاپ اور UH ٹیوب کو استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ملائیشیا سے درآمد شدہ مچھلی پکڑنے والی ڈوری کو بھی دھاگے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر تک پاکستان میں ڈور کے لیے استعمال ہونے والا دھاگہ انڈیا سے سمگل ہو کر آتا تھا۔ لیکن اس کاروبار میں اپنے حصے کا منافع حاصل کرنے کے لیے بعد ازاں پاکستانی سرمایہ دار بھی اس میدان میں کود پڑے اور انہوں نے ایسے ایسے دھاگے تیار کیے جو انڈین دھاگوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ اس سلسلے میں تیار ہونے والے فیصل آباد کے بلی مارکہ دھاگے میں 27تاریں اور مشہور KBبرانڈ دھاگوں میں 21، 27اور 30تاریں تھیں۔ یہ دھاگے ایکسٹرا پاور اور 300مینار کے نام سے مارکیٹ میں عام دستیاب تھے۔ ان دھاگوں کے بارے میں مشہور ہوا کہ ان سے باندھ کر جھٹکا دئیے بغیر ایک من تک کا وزن زمین سے اوپر اٹھایا جاسکتا ہے۔ اسی شدت کے حامل ڈئیر اور پینتھر برانڈ کے پاکستانی دھاگے بھی کافی مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ بعض دولت مند شوقینوں نے بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگوں سے بھی پتنگ بازی کی۔ سال 2006ء کی بسنت کے دوران گلبر گ کے علاقے میں ایک معصوم بچے شایان کے گلے کو کاٹنے والی ڈور کے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس ڈور کے مانجھے میں دوسرے اجزاء کے علاوہ ڈائمنڈ ڈسٹ بھی موجود تھی جبکہ اس ڈور کا دھاگہ مچھلی پکڑنے والی ڈوری تھی۔ اس ڈور کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2006ڈائمنڈ ڈسٹ کی قیمت تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے فی کلو تھی۔ پاکستان میں پتنگ بازی ہی نہیں دیگر کھیلوں میں بھی سپورٹس مین سپرٹ کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہاں لوگ کھیل کھیلنا نہیں بلکہ ہر حال میں جیتنا چاہتے ہیں ۔ یہاں دیکھا گیا ہے کہ اگر کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت کر آئے تو اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور اگر یہ ٹیم کسی ورلڈ کپ میں دوسرے نمبر پر بھی آئے تو ائر پورٹ پر اس کا استقبال گندے انڈوں ٹماٹروں اور جوتوں سے کیا جاتا ہے۔ پتنگ بازی کے کھیل میں سپورٹس میں سپرٹ کے علاوہ ہر قسم کی منفی سپرٹ اپنے پورے عروج پر نظر آتی رہی۔ اس کھیل کو کھیلنے والے اکثر لوگوں کی سوچ یہاں قبائلی دور سے آگے نہیں جا سکی ۔ دیکھا گیا کہ اکثر پتنگ باز اس کھیل کو کھیلتے ہوئے لطف اندوز نہیں ہونا چاہتے بلکہ صرف اور صرف دوسرے کی پتنگ کاٹنا چاہتے اور اس کام کے لیے اگر ان کی ڈور سے کسی کا گلا بھی کٹ جائے تو وہ اس بات کی پروا نہیں کرتے ۔ پتنگ بازوں کی ہر حال میں جیتنے کی خواہش نے ڈور کو اس حد تک خطرناک کر دیا کہ پتنگوں کے ساتھ ساتھ اس نے معصوم انسانوں کے گلے بھی کاٹنے شروع کر دئیے اور اس کھیل کو دنیا کا خطرناک ترین کھیل بنا دیا ۔ پتنگ بازوں کا یہی رویہ یہاں بسنت پر پابندی لگنے کا باعث بنا۔
حکومت پنجاب نے پتنگ بازی کا شوق رکھنے وا لوں کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرکے، سخت شرائط عائد کرنے کے بعد ، ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کرتے ہوئے بسنت پر عائد پابندی اٹھائی ہے۔ حکومت کی طرف سے بسنت پر پابندی اٹھانے کے بعد اب پتنگ بازوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ پنجاب کا یہ ثقافتی تہوار لوگوں کے گلے کاٹنے والی ڈور استعمال کیے بغیر بھی منایا جاسکتا ہے۔





