Column

جارج واشنگٹن

جارج واشنگٹن
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
تاریخ میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد تاریخ پر بوجھ بن جاتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اقتدار چھوڑ کر تاریخ بن جاتے ہیں۔ جارج واشنگٹن دوسرے قبیلے کا آدمی تھا۔ جارج واشنگٹن 22فروری 1732میں ورجینیا کے ایک عام زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1743میں 11سال کی عمر میں والد کا انتقال ہوگیا۔ نہ وہ کسی شاہی خاندان کا چشم و چراغ تھا، نہ اس کے لیے تاریخ نے ابتدا میں کوئی غیر معمولی راستہ چنا تھا۔ مجبوری میں کم عمری سے ہی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 16سال کی عمر میں زمین کی پیمائش (Surveyor)کا کام شروع کیا۔ پھر جوانی میں اس نے فوجی زندگی اختیار کی، مگر ابتدائی مہمات میں ناکامیاں اس کا مقدر بنیں۔ شکست، پسپائی اور غلط فیصلے، یہ سب اس کی تربیت کا حصہ تھے۔ تاریخ اکثر ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ عظمت کا پہلا زینہ ناکامی ہوتا ہے۔
1753 میں برطانوی حکومت کی جانب سے فوجی مشن پر بھیجے گئے، جو پہلی سفارتی ذمہ داری تھی۔ 1754میں فرانسیسی و ہندوستانی جنگ میں حصہ لیا، پہلی فوجی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1755میں جنرل بریڈاک کی شکست میں واشنگٹن زندہ بچے، بہادری سے شہرت ملی۔ 1758میں برطانوی فوج سے استعفیٰ دیا، فوجی تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔ 1759میں مارٹھا کسٹس سے شادی کی، نجی زندگی اور زمینداری پر توجہ دی۔
پھر امریکی جنگِ آزادی کا دور شروع ہوا۔ اور برطانوی سلطنت، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، اس کے خلاف چند بکھری ہوئی نو آبادیاں کھڑی ہو گئیں۔ ان کے پاس کوئی جنگی قوت نہیں تھی۔ تاہم ان کے پاس صرف ایک آدمی تھا، جارج واشنگٹن۔ جب برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کی تو 1775میں واشنگٹن کو کانٹی نینٹل آرمی کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ 1776میں ڈیلاویئر دریا عبور کر کے برطانوی فوج پر اچانک حملہ کیا اور اہم فتح حاصل کی۔ 1777میں متعدد شکستیں دیکھیں، مگر فوج کو متحد رکھا۔ اس کے پاس نہ باقاعدہ فوج تھی، نہ اسلحہ، نہ تربیت، اور نہ ہی وسائل۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت کھڑی تھی۔ مگر واشنگٹن کے پاس ایک چیز تھی، صبر۔ وہ جانتا تھا کہ ہر لڑائی جیتنا ضروری نہیں، بس فوج کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ وہ پسپائی کو شکست نہیں سمجھتا تھا بلکہ بقا کی حکمت کہتا تھا۔ یہی سوچ 1778 میں اسے ویلی فورج کے یخ بستہ کیمپ تک لے گئی، جہاں بھوک، سردی اور مایوسی کے باوجود اس نے فوج کو بکھرنے نہیں دیا۔ ویلی فورج کے برفیلے میدانوں میں جہاں فوج بھوک، سردی اور بیماری سے مر رہی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے انقلاب ختم ہوگیا ہے، مگر واشنگٹن جانتا تھا، جب تک سپاہی زندہ ہیں، آزادی زندہ ہے۔ 1776سے 1781تک کی جنگ دراصل بندوقوں سے زیادہ اعصاب کی جنگ تھی۔ 1781میں یارک ٹان میں برطانوی جنرل کارنوالس کی شکست سے جنگ کا فیصلہ کن موڑ آیا۔ برطانوی افواج کی اس شکست نے امریکی آزادی کی بنیاد رکھ دی۔ اب وہ لمحہ آ پہنچا، جس کے لیے تاریخ کانپتی ہے، فتح کے بعد کیا ہوگا؟ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ فاتحین اکثر تاج پہن لیتے ہیں۔ فوجیں اقتدار سنبھال لیتی ہیں اور انقلابات آمریت میں بدل جاتے ہیں۔ واشنگٹن کے سامنے بھی یہی راستہ تھا۔ فوج اس کے ساتھ تھی، عوام اسے ہیرو مانتے تھے، اور کوئی آئینی رکاوٹ موجود نہ تھی۔ مگر اس نے حیران کن اور تاریخی فیصلہ کیا۔ جب 1783میں اس نے فوج کی کمان کانگریس کے حوالے کی، وردی اتاری، اور خاموشی سے اپنے فارم ہاس واپس چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کے بادشاہ جارج سوم نے یہ سن کر کہا۔ اگر وہ واقعی اقتدار چھوڑ دے گا تو وہ دنیا کا سب سے بڑا آدمی ہوگا۔ چند سال بعد ملک سیاسی انتشار کا شکار ہوا۔ آئین بنانے کی ضرورت پیش آئی، اور سب کی نظریں ایک بار پھر واشنگٹن پر جا ٹھہریں۔ تو 1787میں آئینی کنونشن کی صدارت کی، امریکی آئین کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1789میں متفقہ طور پر امریکہ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ یہ عہدہ اس کے لیے اعزاز نہیں بلکہ بوجھ تھا۔ اس نے حکومت کو بنیادیں دیں، ادارے کھڑے کیے، اور اختیارات کو آئین کے تابع رکھا۔ اور اقتدار کو خود سے بڑا رکھا۔ 1790میں وفاقی حکومت کی بنیاد رکھی، عدالتی اور مالی نظام قائم کیا۔ 1791میں بل آف رائٹس منظور ہوا۔ 1793میں یورپی جنگوں میں غیر جانبداری کا اعلان کیا۔ 1797میں دو مدتوں کے بعد صدارت سے رضاکارانہ دستبرداری کا اعلان کیا۔ حالانکہ اس کے پاس اقتدار میں رہنے کا مکمل جواز موجود تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ وہ تاحیات صدر رہے، مگر اس نے ایک بار پھر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے قوم کو یہ کہہ کر خبردار کہا کہ مستقل اقتدار، شخصی سیاست اور باہمی دشمنیاں جمہوریت کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ اس کا یہ قدم بعد میں امریکی روایت بن گیا۔ 14دسمبر 1799کو اس کا انتقال ہوگیا۔ پوری قوم نے سوگ منایا۔ جارج واشنگٹن کا اصل ورثہ جنگی فتوحات نہیں تھیں ۔ اس کی عظمت اس ضبط میں تھی، جس کے ساتھ اس نے طاقت کو ہاتھ میں آنے کے باوجود چھوڑ دیا۔ وہ یہ سبق دے گیا، کہ قومیں تلوار سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ اور تاریخ میں اصل لیڈر وہ ہوتا ہے، جو اقتدار لے کر نہیں، اقتدار چھوڑ کر یاد رکھا جائے۔

جواب دیں

Back to top button