Column

بارود، دھماکے اور تباہی: کیا بونیر کو کوئی بچائے گا؟

بارود، دھماکے اور تباہی: کیا بونیر کو کوئی بچائے گا؟
تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی
قلمِ حق
غیر قانونی بلاسٹنگ نے بونیر اور اس کے اطراف کے حسین علاقوں کو جس بے رحمی سے متاثر کیا ہے، وہ نہ صرف ماحول کے لیے ایک المیہ ہے بلکہ یہاں بسنے والے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے لیے ایک شدید خطرہ بھی بن چکا ہے۔ بونیر میں جاری بلاسٹنگ نے لوگوں کی روزمرہ زندگی اجیرن بنا دی ہے اور آئے دن ہونے والے دھماکوں نے عوام کو خوف، بے چینی اور بیماریاں دے دی ہیں۔ عوام عرصہ دراز سے حکام بالا سے فریادیں کر رہے ہیں کہ اس غیر قانونی عمل کو روکا جائے مگر بدقسمتی سے تاحال کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
بونیر کی پہچان ہمیشہ سے اس کے سرسبز پہاڑ، شفاف چشمے اور قدرتی خوبصورتی رہی ہے، مگر اب بلاسٹنگ کی وجہ سے وہ تمام دل فریب مناظر ماند پڑ چکے ہیں۔ جو چشمے کبھی علاقے کی زندگی سمجھے جاتے تھے وہ خشک ہورہے ہیں، پہاڑوں کی چوٹیاں ٹوٹ رہی ہیں اور دھول، مٹی اور آلودگی فضا کو زہر آلود بنا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک صدیوں پرانی قدرتی وراثت چند لالچی لوگوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہو۔
علاقہ مکینوں کے مطابق جن اداروں کو عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنی چاہیے تھی، وہی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ لوگ گلہ کرتے ہیں کہ اگر حکام بالا کو ’’ حصہ‘‘ نہ مل رہا ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی، مگر موجودہ حال یہ ہے کہ ان کے گھروں میں امن چھن گیا ہے مگر ذمہ دار دفاتر میں فائلیں تک نہیں ہل رہیں۔ مجبور ہو کر لوگ یہ سوچنی پر مجبور ہیں کہ انہیں خود نکل کر اپنے علاقے کو بچانا پڑے گا۔
بہت سے مقامی افراد نے ان حالات پر غصے اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عوام خود آواز نہ اٹھائیں تو یہ بلاسٹنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بونیر کے عوام کو یکجا ہوکر اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا ورنہ آنے والی نسلیں دھول، بیماریوں اور تباہی کے سوا کچھ نہیں پائیں گی۔ اجتماعی جدوجہد کے بغیر یہ ظلم ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
لوگوں کے درد بھرے بیانات نے مسئلے کی سنگینی مزید بڑھا دی ہے، کیونکہ وہ بتاتے ہیں کہ بونیر میں ماربل انڈسٹری نے ماحول کو تباہ کر دیا ہے۔ غیر مقامی لوگ بڑی تعداد میں آکر اس سرزمین سے دولت لوٹ رہے ہیں اور بدلے میں یہاں کی عوام کو بیماری، آلودگی اور تباہی دے رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صاف پانی ختم ہو رہا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ اس بدترین صورتحال پر بے حد پریشان ہیں۔
بونیر کے لوگوں کو یہ تک کہنا پڑ گیا ہے کہ اگر اب بھی حکومت نے پابندی نہ لگائی تو یہاں زندگی مزید مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک ان کی زمینیں، ان کے پہاڑ، ان کی فضا اور ان کا مستقبل چند غیر قانونی دھماکوں کی نذر ہوتا رہے گا؟ عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ صرف ایک صنعتی مسئلہ نہیں بلکہ پورا انسانی المیہ بنتا جا رہا ہے۔
اداروں کی خاموشی اس صورتحال کو مزید خطرناک بناتی جا رہی ہے۔ محکمہ صحت، محکمہ جنگلات، محکمہ ماحولیات، محکمہ ماحولیاتی تحفظ اور محکمہ جنگلی حیات۔ سب ایسے لگتا ہے جیسے اپنی ذمے داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ ان محکموں کا کردار اس معاملے میں نہ صرف کمزور بلکہ شرمناک حد تک غیر موثر نظر آتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان اداروں کا اصل مقصد عوام کی حفاظت ہے یا ماربل مافیا کی پشت پناہی؟۔
ماربل مافیا اس وقت خود کو ناقابلِ شکست سمجھ رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ حکومتی مشینری اس کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ افراد جلد دولت کمانے کی لالچ میں نہ صرف ماحول تباہ کر رہے ہیں بلکہ سلارزی کے غریب عوام کی زندگیاں بھی برباد کر رہے ہیں۔ ان کے لیے دولت اہم ہے مگر عوام کے بچے، عورتیں، بزرگ اور ان کی صحت و زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ماضی میں ایک بدقسمت شخص نے صوبائی حکومت کو یہ تجویز دی کہ سلارزی کی قیمتی زرعی زمینیں ماربل سٹی کے لیے موزوں ہیں۔ یہ تجویز فقط ایک تجویز نہیں تھی بلکہ غریبوں کے مقدر پر حملہ تھا۔ اس فیصلے نے علاقے کی زرخیز زمینوں کو بارود کے ڈھیر میں بدل دیا۔ جو کھیت کبھی غریب عوام کی روزی تھے وہ آج دھماکوں کی گونج میں چیخ رہے ہیں۔
یہی وہ فیصلہ تھا جس نے علاقے کے سیکڑوں خاندانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ ان لوگوں کے گھروں میں کبھی امن تھا، مگر آج بچے دھماکوں کے شور میں بڑے ہو رہے ہیں۔ مائوں کے چہرے خوف سے زرد ہوچکے ہیں، بزرگ پریشانی میں مبتلا ہیں اور نوجوان مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ماربل سٹی کا خواب غریبوں کے لیے ایک ایسا کابوس بن گیا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
بونیر کا علاقہ اب بارود اور بلاسٹنگ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ صبح، دوپہر، شام مسلسل دھماکوں نے ماحول، جانوروں اور انسانوں سب کو متاثر کیا ہے۔ پہاڑوں کے اندر بار بار بارود پھاڑا جا رہا ہے جس سے نہ صرف زمین کی ساخت متاثر ہورہی ہے بلکہ زیر زمین پانی بھی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بونیر میں صاف پانی نایاب ہوجائے گا۔
عوام کی شکایت ہے کہ یہاں کے لوگوں نے کبھی کسی سے ناجائز مطالبہ نہیں کیا، صرف اپنے امن اور صحت کی حفاظت چاہی ہے۔ مگر اس کے باوجود انہیں مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست عوام کے لیے ہوتی ہے یا چند مفاد پرست گروہوں کے لیے؟۔
غیر قانونی بلاسٹنگ نے جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وہ پرندے جو کبھی ان پہاڑوں کو اپنا گھر سمجھتے تھے وہ اب کہیں اور چلے گئے ہیں۔ پہاڑ کی قدرتی ساخت، درختوں کی جڑیں اور جانوروں کی محفوظ پناہ گاہیں سب تباہ ہوچکی ہیں۔ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو یہ علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے گا۔بلاسٹنگ کے باعث لوگوں میں سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ دھول ہر وقت فضا میں معلق رہتی ہے۔ بچے کھانسی اور الرجی میں مبتلا ہیں، بزرگ دمے میں مبتلا ہو رہے ہیں، خواتین متعدد بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مستقبل میں ایک بڑے صحت کے بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
مقامی لوگ کئی بار احتجاج کر چکے ہیں مگر ان کی آوازیں ابھی تک بے اثر ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت نہ صرف بلاسٹنگ فوری بند کرے، بلکہ ماربل انڈسٹری کے تمام غیر قانونی ٹھیکوں کا مکمل آڈٹ کرے۔ عوام چاہتے ہیں کہ علاقے کو محفوظ قرار دے کر اسے ماحول دوست پالیسیوں کے ذریعے دوبارہ بحال کیا جائے۔
بلاسٹنگ کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اس سے گھروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ کئی لوگوں کے مکانات کمزور ہو چکے ہیں اور وہ مسلسل خوف میں زندگی گزار رہے ہیں کہ نہ جانے کب کوئی دھماکہ ان کی چھت ان پر گرا دے۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح قبولیت کے قابل نہیں۔
اگر فوری اور سخت ایکشن نہ لیا گیا تو بونیر میں زندگی آنے والے برسوں میں مزید مشکل ہو جائے گی۔ عوام کے پاس اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ پرامن مگر بھرپور احتجاج کے ذریعے اپنی آواز کو حکام تک پہنچائیں اور علاقے کو مکمل تباہی سے بچائیں۔
عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بچوں کے مستقبل، اپنی سرزمین اور اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے وہ آخری حد تک جدوجہد کریں گے۔ کیونکہ یہ خطہ ان کی شناخت ہے اور وہ اسے تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ آج اگر آواز نہ اٹھائی گئی تو کل سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔
غیر قانونی بلاسٹنگ کے خلاف جدوجہد صرف ماحول کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی زندگی کے لیے ایک جنگ ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو عوام نے دل کی گہرائیوں سے شروع کی ہے اور جس کا مقصد صرف اور صرف انصاف، تحفظ اور روشنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ظالموں کو بے نقاب کرے، جو غریب عوام کے آرام، صحت اور مستقبل سے کھیل رہے ہیں، اور اس زمین کو دوبارہ امن، خوبصورتی اور سکون سے بھر دے جو اس کی پہچان تھا۔ ظلم کبھی دیر پا نہیں ہوتا، مگر عوام کی دعائیں اور کوششیں ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button