CM RizwanColumn

ریمنڈ ڈیوس سے نارویجن سفیر تک

جگائے گا کون؟
ریمنڈ ڈیوس سے نارویجن سفیر تک
تحریر: سی ایم رضوان
ان دنوں جہاں فیض حمید کو ایک اعلیٰ فوجی افسر ہونے کے ناطے سیاسی امور میں مداخلت اور بعض دیگر بدعہدیوں پر فوجی عدالت کی جانب سے چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے پر ہر پاکستانی مطمئن نظر آ رہا ہے وہاں موجودہ عسکری رجیم خاص طور پر چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے دور میں یہ امر بھی باعث صد افتخار ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں ناروے کے سفیر کو ایک عدالتی کارروائی میں ’ غیر ضروری‘ حاضری پر اُنہیں جمعرات کو طلب کر کے ’ ڈیمارش‘ کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ناروے کے سفیر کا یہ اقدام سفارتی پروٹوکول متعلقہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ برائے یورپ نے پاکستان میں ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور اُنہیں باور کرایا کہ وہ صرف سفارتی مصروفیات کے قائم کردہ اصولوں پر عمل کریں، جیسا کہ ویانا کنونشن کے متعلقہ مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ناروے کے سفیر جمعرات کو اُس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گئے تھے، جب انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری اور اُن کے شوہر ہادی چٹھہ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت جاری تھی۔ نارویجن سفیر کی اس طرح عدالت آمد پر بعض قانونی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ایک آزاد، خود مختار اور قانون پر عمل درآمد کرنے والی ہارڈ اسٹیٹ کیا ہوتی ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ 11نومبر 2025ء کو نارویجن سفیر کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایمان مزاری کیس کی سماعت میں شرکت ویانا کنونشن 1961کے آرٹیکل 41کی کھلی خلاف ورزی ہے جو سفارتکاروں کو میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا پابند کرتا ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ کسی بھی ملک کا سفیر اس نوعیت کے حساس اور زیر سماعت مقدمے میں دخیل ہو کر عدالتی عمل کو متاثر کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کا تاثر دے تو یہ سفارتی ذمہ داریوں اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تصور ہوتی ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ناروے کی مختلف این جی اوز خصوصاً وہ تنظیمیں جو انسانی حقوق کے نام پر سرگرم ہیں پاکستان میں ایسے عناصر کی حمایت اور انہیں پلیٹ فارم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سپورٹ بھی کرتی ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ناروے کے سفیر کو ڈیمارش جاری کیا اور دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ ڈیمارش اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے اور عالمی سفارتی اصولوں کے مطابق اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنا بخوبی جانتا ہے۔
یہ امر بھی پاکستانی حکومت اور صحافتی اداروں کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ آج سے ٹھیک ایک ماہ کم پندرہ برس قبل پاکستان آئے ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے 27جنوری 2011ء کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں دو افراد کو بلا وجہ سرعام گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پھر اسی امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے سال 2017ء میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی ’ دا کنٹریکٹر‘ نامی اپنی کتاب میں پاکستان میں اپنی گرفتاری، مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش، مقدمے کا احوال، ایک جرنیل کی جانب سے سہولت کاری اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے مطابق اس دوران سب سے ڈرامائی دن مقدمے کا آخری دن تھا جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم کردہ خصوصی سیشن کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کی فردِ جرم عائد ہونا تھی۔ ڈیوس لکھتا ہے کہ اسے اس رات نیند نہیں آئی تھی۔ جس روز عدالت میں اس کے کیس کی سماعت تھی۔ اس عدالت میں اس دن معمول سے زیادہ بھیڑ تھی اور ڈیوس کو سٹیل کے ایک پنجرے میں بند کر کے جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس پنجرے کا مقصد مجھے لوگوں سے بچانا تھا یا پھر لوگوں کو مجھ سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم اس دوران وہاں موجود لوگوں کے رویے سے اسے یوں لگا جیسے عدالت میں موجود سبھی لوگ جج کی جانب سے اُس کے قصور وار ہونے کا فیصلہ سُنائے جانے کے منتظر ہیں تاکہ اس کے بعد وہ مجھے گھسیٹ کر کسی قریبی درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دیں۔ ڈیوس کو عدالت میں ایک حیران کن بات یہ بھی نظر آئی کہ اس دن وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ غیر حاضر تھے۔ جنہوں نے اس سے قبل اس پر خاصی سخت جرح کی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیوس نے فیضان حیدر ( دو افراد میں سے ایک جنہیں ریمنڈ ڈیوس نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا) کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا ہے۔
کتاب کے مطابق بعد میں وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انہیں ( وکیل کو) پکڑ کر کئی گھنٹے تک قید میں رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس ( یعنی وہ افراد جن کے وہ وکیل تھے) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ کتاب ’’ دا کنٹریکٹر‘‘ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ 23فروری 2011ء کو پاکستانی اور امریکی فوج کے سربراہان جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی تھی، جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صرف ہوا کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ ڈیوس کی گلو خلاصی ہو پائے۔ تاہم16مارچ 2011ء کی دوپہر کو جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو جج نے صحافیوں سمیت تمام غیر متعلقہ لوگوں کو باہر نکال دیا۔ لیکن ایک شخص جو کارروائی کے دوران کمر? عدالت میں موجود رہے وہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا تھے۔ اس وقت ڈیوس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ شخص کون ہیں لیکن اسی دوران پسِ پردہ خاصی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں کے روحِ رواں جنرل پاشا تھے، جو ایک طرف امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے بھی رابطے میں تھے۔ ڈیوس لکھتا ہے کہ عدالت کی کارروائی کے دوران جنرل شجاع پاشا مسلسل کیمرون منٹر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔ یاد رہے کہ عدالتی کارروائی چونکہ اُردو میں ہو رہی تھی، اس لئے ڈیوس کو کچھ خاص پتہ نہیں چل رہا تھا، لیکن درمیان میں وہاں موجود لوگوں کے ردِعمل سے پتہ چلا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ ڈیوس کی ایک امریکی ساتھی پال وکیلوں کا پرا توڑ کر پنجرے کے قریب آئی اور کہا کہ جج نے عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ’’ یہ کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ ڈیوس نے حواس باختہ ہو کر کہا۔ ’’ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا‘‘۔
کتاب کے مطابق مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے کے فیصلے کے منصوبہ سازوں میں جنرل پاشا اور کیمرون منٹر شامل تھے۔ پاکستانی فوج بھی اس سے آگاہ تھی جب کہ صدر زرداری اور نواز شریف کو بھی بتا دیا گیا تھا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ ڈیوس لکھتا ہے کہ جنرل پاشا کو صرف دو دن بعد یعنی 18مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا اس لئے وہ سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی طرح نمٹ جائے اور جب یہ معاملہ نمٹا تو ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور وہ مارچ 2011ء کی بجائے مارچ 2012ء میں ریٹائر ہوئے۔ ’’ دا کنٹریکٹر‘‘ کے مطابق یہ جنرل پاشا ہی تھے جنہوں نے سخت گیر وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ اسد یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ 14مارچ کو آئی ایس آئی کے اہلکار حرکت میں آئے اور انہوں نے مقتولین کے تمام 18عزیزوں کو اٹھا کر کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا، اُن کے گھروں کو تالے لگا دیئے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لئے گئے۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے تھے ایک یہ کہ یا تو وہ ایک لاکھ 30ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کر لیں۔ دوسرا یہ کہ ورنہ۔۔۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔ یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔ یہاں یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ یہ رقم کس نے دی؟ تاہم اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کیا تھا کہ یہ خون بہا امریکہ نے ادا کیا تھا۔ تاہم بعد میں خبریں آئی تھیں کہ یہ رقم پاکستان کی آئی ایس آئی نے خود دی تھی اور بعد میں اس کا بل امریکہ کو پیش کر دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جونہی یہ کارروائی مکمل ہوئی تھی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا، جہاں ایک سیسنا طیارہ رن وے پر اس کا انتظار کر رہا تھا اور یوں پاکستان کی عدالتی، سفارتی اور سیاسی و عسکری تاریخ کا یہ عجیب و غریب باب بند ہوا۔
قومی تاریخ کا یہ شرمندہ کر دینے والا واقعہ لکھنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ آج ہم کس قدر قابل فخر انتظامی اور عسکری دور میں سانس لے رہے ہیں کہ آج ایک نارویجن سفیر کو محض پاکستانی عدالت میں جانے پر ڈیمارش کر دیا گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button