
ساکھ
محمد مبشر انوار
اپنی گزشتہ تحریر میں اس امر کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اس وقت عالمی دنیا میں اپنی اہمیت ثابت کر چکا ہے، اپنا ذمہ دارانہ تشخص بنانے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے لیکن بدقسمتی سے انا اور ضد کی مقامی خواص کی بنا پر تاحال اندرونی عدم استحکام پر قابو پانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے ۔ کسی بھی غیر جانبدار شخص یا گروہ سے پوچھیں، وہ یہی کہے گا کہ اس وقت جو پاکستانی اندرونی صورتحال ہے، جن بحرانوں بلکہ خود ساختہ بحرانوں کا پاکستان کو سامنا ہے،وہ پاکستانی اشرافیہ و ارباب اختیار کے خود پیدا کردہ ہیں، جس کے پس منظر میں ’’ میں‘‘ واضح دکھائی دیتی ہے کہ فریق مخالف کو آخری حد تک دھکیل کر ہر سانس لیا جائے گا، اس سے پہلے کسی قدم پر رکنا، گویا اپنی ’’ شکست‘‘ ہو گی، جو کسی صورت تسلیم نہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ قصور وار، مجرم کو، جرم کے تناسب سے قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جیسے ہیرو پسندیدہ ہیں، ویسے ہی ولن بھی صرف ناپسندیدہ کو ہی سزا دی جائے، جب انصاف کا ترازو تھام لیا جائے تو پھر ہر پسندیدگی و نا پسندیدگی بے معنی ہو جاتی ہے اور منصف کا کام، قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، کسی بھی ذاتی پسند یا نا پسند سے بالا تر ہو کر، صرف اور صرف انصاف کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، دور حاضر میں، منصف ایسی کسی صورتحال کا شکار ہو جائے تو بالعموم متاثرہ فریق منصف پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیتا ہے یا بسا اوقات منصف ازخود اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کی تعلق داری ہے اور پیشتر اس کے کہ فریق مخالف منصف پر اعتراض کرے، وہ ایسے مقدمہ کی سماعت سے خود کو الگ کرنا مناسب سمجھتا ہے تاہم اگر فریقین منصف کے کردار اور اہلیت پر اطمینان کا اظہار کریں تو منصف اپنے فرائض، غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ مہارت کے مطابق سر انجام دیتا ہے۔ جبکہ اسلامی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے اٹی پڑی ہے کہ جہاں حاکم وقت کے لئے بھی قاضیوں نے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور بعینہ حکمرانوں کی جانب سے ایسے مواقع، قاضیوں کی غیر جانبداری کو جانچنے/پرکھنے کا پیمانہ ثابت ہوئے، بعد از سماعت قاضی اور حاکم وقت کے درمیان تاریخ ساز مکالمے بھی ہوئے، جن سے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بطور قاضی، بالعموم با کردار شخص کو تعینات کیا جاتا رہا ہے، جو اپنے منصب کی عظمت و توقیر کو بڑھاتے ہی نظر آتے ہیں، ان کی نظر میں سب سے اہم عدل و انصاف رہا ہے اور حکمران و عوام الناس کو یہ یقین واثق رہا کہ مذکورہ شخص انصاف کی فراہمی میں کسی جانبداری، پسند نا پسند کو کسی بھی صورت آڑے نہیں آنے دے گا جس کا اظہار مختلف مواقعوں پر حکمرانوں کے مقدمات سنتے ہوئے ان قاضی حضرات نے کیا جب حاکم وقت کی حیثیت کٹہرے میں ایک ’’ ملزم‘‘ کی سی رہی ۔
آج مگر صورتحال قدرے مختلف ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدالتوں میں ایسے درویش صفت قاضیوں کا شدید فقدان ہے، قحط الرجال کی سی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ ماضی قریب میں ایسے ہی ایک آئین و قانون پسند۔ مرد قلندر منصف سید منصور علی شاہ کو راستے سے ہٹانے کے لئے 26ویں آئینی ترمیم کا سہارا لیا گیا اور جدید عدالتی نظام کے تحت، اس آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت بھی اسی آئینی عدالت سے کرائی گئی، جو براہ راست اس سے مستفید تھی، جس کا فیصلہ ظاہر تھا، وہی ہوا جس کے تحت آج کا عدالتی نظام رواں دواں ہیں، لہذا سید منصور علی شاہ مستعفی ہو کر گھر جاچکے اور ہماری عدلیہ ایک قابل اور بے داغ کردار والے شخص سے محروم ہو گئی یا جبرا کردی گئی ، اس کا فیصلہ مورخ بہتر طور پر کرے گا۔ معاشرے کی بہتری و ترقی میں عدل و انصاف کا بنیادی کردار ہے، جس سے کسی ذی فہم کو قطعا انکا ر نہیں اور جس معاشرے میں عدل و انصاف نا پید ہو جائے، ترقی معکوس کے علاوہ عوام الناس میں شدید مایوسی پھیلی نظر آتی ہے، اس کا مشاہدہ اس وقت پاکستان میں کیا جا سکتا ہے کہ جہاں ہر پروردہ، پسندیدہ، دست شفقت سے مستفید، ریاستی امور میں براہ راست یوں ملوث ہے کہ اس کے نقش پا ہر جگہ محسوس کئے جا سکتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں آزادانہ گفتگو کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے اشخاص میں سے چند ایک کی حالت، اپنی بات کے خلاف کچھ سننے کے بعد، بسا اوقات اتنی دگر گوں دکھائی دیتی ہے اور اس قدر سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ آداب و تہذیب سب بھول کر، ان کے منہ سے جھاگ اڑتی صاف دکھائی دیتی ہے کہ انہیں یہ گوارا ہی نہیں کہ جو کچھ ’’ آقائوں‘‘ نے ان کے ذمہ لگا رکھا ہے، اس کے خلاف کچھ سن سکیں۔ اس صورتحال میں جب دلیل کی بات بھی انہیں سنائی نہیں دیتی، ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ حق کی بات کر سکیں، عبث ہے یہی وجہ ہے کہ کئی ایک قانونی معاملات میں بھی ان کی دی ہوئی ’’ اندر کی خبریں‘‘ ہی سچ ثابت ہوتی ہیں، خواہ وہ خبریں یا فیصلے حق پر مبنی ہوں یا نہ ہوں لیکن ہوتا وہی ہے جو یہ لوگ اپنے منہ سے نکالتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ عوامی حقوق کی سنوائی یا ضمانت میسر ہو سکے کہ ہر وہ زبان جو عوامی حقوق کی بات کرتی ہے، مطالبہ کرتی ہے، اسے خاموش کرانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا جاتا ہے اور ایسی زبان یا بیرون ملک جا بسیرا کرتی ہے یا اس کی جگہ زندان ٹھہرتی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں کہ کئی ایک زبانیں جو سچ کا اظہار کرتی ہیں، جن کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے، ان کے لئے آج پاکستان میں رہنے کے لئے حالات قطعا سازگار نہیں لہذا وہ مجبورا بیرون ملک بیٹھی ہیں جبکہ ان کی عدم موجودگی میں کئی ایک نئے چہرے اور زبانیں، اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی کسی طور اپنا کام کرنے کی سعی میں مصروف تھی لیکن انہیں بھی پابند سلاسل کر دیا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان پابند سلاسل زبانوں کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے ہیں، وہ کسی مہذب معاشرے میں بنیادی حقوق تصور ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ افراد با اختیاروں سے براہ راست رابطے میں نہیں یا انہوں نے دباؤ تسلیم نہیں کیا لہذا ان کی منزل سلاخوں کے پیچھے جبکہ وہ افراد جو سیاسی شناخت رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے بااختیاروں کے ساتھ رابطے بھی رکھتے ہیں، ان کے ممنون بھی ہیں، ان کے احسان مند بھی ہونے کے باوجود کبھی کبھار ان کے خلاف بات کر بھی دیں تو انہیں اس کی چھوٹ ہے۔ ان پر کسی بھی قسم کا کوئی مقدمہ یا دباؤ سامنے نہیں آتا کہ ان کے یہ بیانات ان کی عوامی حیثیت کو بہرطور متوازن رکھنے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں اور مستقبل میں بھی انہیں آقائوں کی خدمت کرتے رہنے کے قابل رکھتے ہیں گو کہ اس لائحہ عمل کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا کہتے ہیں اور عوام کی اکثریت اس کھیل کو بخوبی جان چکی ہے اور ایسے سیاسی گروہوں کی عوام میں کوئی قدر باقی نہیں رہی۔
معاشروں کی نشو و نما یا تنزلی میں یہ عناصر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک طرف عوام ایسے عناصر کی بیخ کنی انتخابی عمل میں اپنی رائے سے کرتی ہے تو دوسری طرف عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی عوام کے لئے یہ دونوں راستے ہر گذرتے دن کے ساتھ مخدوش ہوتے جارہے ہیں کہ ایک طرف عوامی رائے کا احترام مفقود ہے تو دوسری طرف عدلیہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے، جس کا ثبوت عالمی رینکنگ میں اس کی درجہ بندی سے واضح ہے تو دوسری طرف اس کے کئے گئے فیصلے ہیں، جنہیں افسر شاہی، مخصوص حالات و واقعات میں، جوتے کی نوک پر رکھتی دکھائی دیتی ہے۔ احتساب اور محاسبہ کا عمل جس معاشرے میں نہ ہو بلکہ دکھاوے یا ذاتی بغض و عناد پر مبنی محاسبہ کا عمل ہو، اسے دنیا تسلیم نہیں کرتی بلکہ اس پر سوال اٹھاتی ہے اور ایسے محاسبہ میں بالعموم قانونی سقم چھٹ جاتے ہیں کہ ایسی کارروائی صد فیصد قانون کے مطابق ہوتی نہیں اور فیصلہ کرتے ہوئے لامحالہ بہت سے قانونی سقم باقی رہ جاتے ہیں جس کا فائدہ سو فیصد مجرم کو ملتا ہے اور وہ جلد یا بدیر ، اس مکڑی کے جالے سے نکل جاتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ مخالف فریق کے منظر سے ہٹتے ہی اس کے لئے آسانیاں ہو جاتی ہیں۔ ایسے کئی ایک مقدمات سویلین و فوجی تاریخ میں دیکھے ہیں کہ مخاصمت رکھنے والی شخصیت کے ہٹتے ہی، معتوب شخص یا گروہ کے لئے آسانیاں میسر ہو جاتی ہیں۔ حالیہ ایک مقدمہ کی صورتحال تقریبا ایسی ہی ہے کہ قربانی کا بکرا بنانے یا ذاتی رنجش /بدلہ کی خاطر جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اس میں بہت سے سقم موجود ہیں، علاوہ ازیں! جس معتوب سیاسی شخصیت کو اسمیں پھنسانا مقصود ہے، وہ اس مقدمہ کی کارروائی کے بعد ممکن نظر نہیں آتا کہ اس مقدمہ میں قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے۔ بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ معتوب سیاسی شخصیت کے حوالے سے پہلے کون سے قانونی تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے، جو آئندہ کئے جانے کی امید رکھی جائے؟ البتہ اس طرح کی کارروائی اور فیصلے، پہلے سے ہی متاثر ساکھ کو مزید متاثر کر رہے ہیں۔





