22جمادی الثانیہ، یوم وفات ابو بکر صدیقؓ

22جمادی الثانیہ، یوم وفات ابو بکر صدیقؓ
ٔٔ ثناء اللہ مجیدی
دنیا کے تقویم میں بے شمار تاریخیں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں، لیکن کچھ تاریخیں ایسی ہوتی ہیں جو محض ہندسوں کی ترتیب نہیں ہوتیں، بلکہ اپنے اندر ایسی بے مثال تقدیس رکھتی ہیں جو دل کی گہرائیوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ تاریخیں انسان کو اس کی اصل معرفت ، اس کے ایمان کی بنیاد اور اس کی نسبتوں کی حرارت تک لے جاتی ہیں۔ انہی روح پرور تاریخوں میں سے ایک تاریخ 22جمادی الثانیہ ہے، وہ دن جس کا ذکر آتا ہے تو دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی مبارک یاد کو تازہ کرتی ہے وہ پاکیزہ شخصیت جس کی سیرت کا ہر ورق اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے اور جس کا کردار تاریخِ اسلام کا سب سے روشن ترین نقوش میں سے ہے۔
مدینہ طیبہ کی گلیاں اس دن کچھ اور ہی رنگ رکھتی ہوں گی۔ وہ مدینہ جس نے رسولؐ اللہ کے قدموں کی برکتوں کو محسوس کیا وہ مدینہ جو نورِ نبوی کا مرکز تھا آج ایک اور آفتاب کو الوداع کہہ رہا تھا۔ 22جمادی الآخری 13ہجری، وہ لمحہ جب صدیقِ اکبرؓ، رسول اکرمؐ کے ابدی رفیق، حق کی راہ کے سب سے سچے مسافر، اور ایمان کے ستون اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ یہ دن محض ایک وفات کا دن نہیں، بلکہ وفا، صداقت، ہمت اور دین کے تحفظ کی پوری تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
سیدنا ابو بکرؓ کی زندگی اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو وہ ’’ صداقت‘‘ ہے۔ وہ صداقت جو صرف زبان کی نہیں، عمل کی بھی تھی۔ وہ وفا جو کسی نفع یا رنج سے مشروط نہ تھی، وہ محبت جو زمانے کے حالات کے ساتھ کم زیادہ نہ ہوتی تھی۔ وہ نبی اکرم ٔ کے ساتھ وہی نظر آئے جہاں سب سے زیادہ غیر معمولی ایمان کی ضرورت تھی۔ غارِ ثور کی تاریکی ہو یا ہجرت کی آزمائش، مکہ کی سنگینیاں ہوں یا مدینہ کا سفر، ہر مقام پر صدیقؓ کی رفاقت ایمان کا استعارہ بن گئی۔ غارِ ثور کے اس مقدس لمحے کا ذکر قرآن نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا
’’ ٔ لَا تَحْزَنْ ِنَّ اللَّہَ مَعَنَا ٔ ‘‘ ( التوبہ: 40)
( ترجمہ :غم نہ کرو ! یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے)۔
یہ وہ جملہ ہے جو صرف تسلی نہیں تھا، بلکہ پوری امت کے لیے اس عظیم رفاقت کی دائمی گواہی تھا۔ یہ ثبوت تھا کہ اللہ کے نزدیک سیدنا ابو بکرؓ کا کیا مقام ہے کہ ان کا ذکر قرآن میں نبیؐ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے درج ہو گیا۔ یہ آیت اُن کے ایمان، اُن کی جرات اور اُن کے قرب کی عظمت کا اعلان ہے۔
آپؓ کی فضیلت کے بے شمار پہلو ہیں، مگر رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد آپؓ کی غیر معمولی عظمت کو سب سے زیادہ واضح کرتا ہے: ’’ اگر میں کسی کو اپنا خاص دوست بناتا تو ابو بکرؓ کو بناتا، لیکن اللہ نے مجھے اپنی دوستی کے لیے چن لیا ہے‘‘۔ ( صحیح بخاری: 3656)۔
رسولؐ اللہ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ وہ رتبہ بیان کرتے ہیں جس تک کوئی دوسرا انسان نہیں پہنچا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ کے دروازوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ : ’’ مسجد میں تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، سوائے ابو بکرؓ کے دروازے کے‘‘۔ ( صحیح بخاری: 466)
یہ اعلان صرف محبت کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ امت کی لیے ایک واضح پیغام تھا کہ سب سے زیادہ اہل، سب سے زیادہ قریبی اور سب سے زیادہ قابلِ اعتماد شخصیت ابو بکرؓ ہیں۔ آپؓ کی خلافت کا وقت ظاہری طور پر مختصر تھا، لیکن اس میں ہونے والے فیصلے اور کارنامے ایسے عظیم ہیں کہ کئی صدیوں تک امت ان کی روشنی میں چلتی رہی۔ رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد پورا عرب فتنوں کی لپیٹ میں تھا۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت پیدا ہو چکے تھے، کچھ قبائل مرتد ہو گئے، کچھ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ وقت تاریخ کا انتہائی نازک مرحلہ تھا۔ اگر اس لمحے امت کی قیادت کمزور پڑ جاتی تو نعوذباللہ اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو سکتی تھیں۔ مگر صدیقِ اکبرؓ نے پہاڑ جیسی ثابت قدمی دکھائی۔ ان کا وہ تاریخی جملہ نہ صرف ان کے عزم بلکہ ان کے ایمان کا آئینہ دار ہے: ’’ اگر وہ لوگ جنہوں نے رسولؐ اللہ کے زمانے میں ایک رسی بھی بطور زکوٰۃ ادا کی تھی، اب اس سے انکار کریں تو میں اس پر بھی ان سے جنگ کروں گا‘‘۔ ( صحیح بخاری: 6924)
یہ جملہ صرف فیصلہ نہیں تھا، یہ اسلام کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کا اعلان تھا۔
قرآن کی جمع و تدوین بھی انہی کے دور کی سب سے اہم خدمت ہے۔ جنگ یمامہ میں حفاظ کی بڑی تعداد کے شہید ہونے پر قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس ہوا۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ ابتدا میں ابو بکرؓ نے ہچکچاہٹ محسوس کی کہ یہ ایسا کام ہے جو رسولؐ اللہ نے نہیں کیا، لیکن جب معاملے کی اہمیت واضح ہوئی تو فرمایا: ’’ یہ خیر کا کام ہے اسے ضرور کیا جانا چاہیے‘‘۔ ( صحیح بخاری: 4986)
پھر انہوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو یہ عظیم ذمہ داری سونپی۔ آج دنیا کے کونے کونے میں ایک ہی قرآن تلاوت کیا جاتا ہے، یہ صدیقِ اکبرؓ کی بصیرت کا صدقہ ہے۔ آپؓ کی سخاوت بھی تاریخِ انسانیت کا ایک بے مثال باب ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی اکرمؐ نے اہلِ ایمان سے مدد طلب کی، تو حضرت عمرؓ آدھا مال لے آئے اور دل میں امید تھی کہ شاید آج ابو بکرؓ سے آگے نکل جائیں گے۔ لیکن صدیقؓ اپنا سارا مال لے آئے۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: ’’ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟‘‘، فرمایا: ’’ اللہ اور اس کا رسولؐ ‘‘ ۔ ( سنن ترمذی: 3675)
ایمان کا ایسا مقام تاریخِ بشر میں کہیں نہیں ملتا۔
22 جمادی الثانیہ کے دن جب آپؓ کے آخری لمحات قریب آئے تو مدینہ کی فضا میں ایک عجیب اداسی پھیل گئی۔ آپؓ نے کفن کے لیے وہی پرانا کپڑا پسند فرمایا جو وہ زندگی میں استعمال کر چکے تھے۔ کسی نے عرض کیا: ’’ یہ پرانا ہے‘‘۔
فرمایا:’’ نیا کپڑا زندہ لوگوں کے لیے بہتر ہے، مجھے وہی پرانا دے دو۔‘‘۔ ( طبری)
یہ زہد اور دنیا سے بے نیازی اپنی انتہا کو چھوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
آپؓ کی آخری وصیت آج بھی حکمرانوں کے لیے آئینہ ہے۔ فرمایا کہ خلافت کے دوران بیت المال سے جو وظیفہ ملا ہے، وہ سب واپس کر دیا جائے: ’’ میں اللہ کے حضور خالی ہاتھ آیا تھا، خالی ہاتھ واپس جانا چاہتا ہوں‘‘۔
جب آپؓ دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ پر سناٹا چھا گیا۔ وہ شہر جس نے رسولؐ اللہ کی جدائی کا زخم دیکھا تھا، آج ایک اور عظیم ہستی کو الوداع کہہ رہا تھا۔ آنکھیں نم تھیں، دل بوجھل تھے۔ یہ رخصتی کسی عام انسان کی نہیں تھی یہ اس ہستی کی تھی جس نے امت کو سہارا دیا، جس نے دین کو فتنوں سے بچایا، جو ہر آزمائش میں رسولؐ اللہ کے پہلو میں کھڑے رہے۔ آپؓ کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ آپؓ کو رسولؐ اللہ کے پہلو میں دفن ہونے کا شرف ملا۔ دنیا میں بھی رفاقت، قبر میں بھی رفاقت، اور یقیناً آخرت میں بھی رفاقت۔
آج جب 22جمادی الثانیہ کی تاریخ آتی ہے تو دلوں میں عجیب کیفیت جنم لیتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایمان محض نعروں کا نام نہیں، وہ عملی قربانی، وفا اور صداقت کا نام ہے۔ صدیق اکبرؓ کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ سچائی صرف زبان سے نہیں بلکہ کردار سے ثابت ہوتی ہے۔ قیادت کا اصل مطلب صرف منصب نہیں، امت کے بوجھ کو کندھوں پر اٹھانا ہے۔ اے اللہ! ہمیں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں سچائی، وفا اور قربانی کی وہ روشنی عطا فرما جو ان کے سینے میں تھی۔ دین کی محبت اور اس کی خدمت کی توفیق دے۔ اور ہمیں بھی ثابت قدمی عطا فرما جس سے ایمان کے چراغ ہمیشہ روشن رہیں۔ آمین۔





