افغانستان اور دہشتگردی کے نئے خطرات

افغانستان اور دہشتگردی کے نئے خطرات
وزیراعظم شہباز شریف کا اشک آباد میں ترکمانستان کی 30 سالہ مستقل غیر جانبداری کی سالگرہ کے موقع پر عالمی امن فورم سے خطاب اہم اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں نہ صرف عالمی امن کے چیلنجز پر روشنی ڈالی بلکہ افغان سرزمین سے اُٹھنے والے دہشت گردی کے نئے خطرے کا بھی ذکر کیا، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان عالمی برادری کے سامنے ایک اہم پیغام تھا کہ افغانستان میں موجود طالبان حکومت کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے دبائو ڈالا جائے، تاکہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جا سکے اور افغانستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر امن قائم کرنے کی ذمہ داری کا احساس ہو۔افغانستان کی صورتحال اس وقت انتہائی پیچیدہ اور بحرانی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو آزادانہ سرگرمیاں انجام دینے کا موقع مل چکا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی سرحد کے قریب موجود طالبان کی پناہ گاہوں سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت، پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے علاقائی امن اور سلامتی کو اہمیت دی ہے، لیکن افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا موجود رہنا پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی برادری کو اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے اور افغانستان پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ وہ اپنے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرے۔ افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں اور عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔پاکستان کا خارجہ پالیسی ہمیشہ سے پرامن تصفیے اور مذاکرات کی حمایت پر مبنی رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان عالمی امن کے لیے ہمیشہ فعال رہا ہے اور اس نے کئی اہم فورمز پر امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے غزہ امن منصوبے کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے لیے جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہوئی۔ یہ پاکستان کے عالمی امن کی جانب بڑھتے ہوئے مثبت اقدامات کی مثال ہے۔پاکستان کی سلامتی کونسل کی موجودہ رکنیت اور اس کی بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر امن کی فضا قائم کرنے کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عالمی برادری کو مشرق وسطیٰ میں پائیدار جنگ بندی اور انسانوں تک امداد پہنچانے کی کوششوں کو مزید فروغ دینا چاہیے۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ترکیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ترکیہ کے ساتھ پاکستان کے سیاسی، اقتصادی، اور دفاعی تعلقات ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں اور اب دونوں ممالک کی قیادت نے اس تعلق کو مزید مستحکم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم نے ترکیہ کی طرف سے افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے کردار کو سراہا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو مکمل طور پر دور کیا جائے گا۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سے نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا، بلکہ دونوں کی عالمی سیاست میں مشترکہ موقف بھی اہمیت اختیار کرے گا۔ ترکیہ کی قیادت کا پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کا عزم دونوں ممالک کے مستقبل کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ وزیراعظم نے ایران کے صدر سے بھی ملاقات کی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے مسلسل مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی اور ثقافتی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کو اپنے مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ افغان سرزمین سے اُٹھنے والی دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کا تعاون خطے کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں موسمیاتی تبدیلی اور عدم مساوات جیسے مسائل پر بھی بات کی۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور ترقی پذیر ممالک اس کے اثرات کا زیادہ شکار ہیں۔ پاکستان کا صاف اور سبز ترقیاتی ماڈل عالمی سطح پر ایک قابل تقلید مثال بن چکا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مالیاتی شمولیت اور خواتین کو معاشی دھارے میں شامل کرنا پاکستان کی اہم ترجیحات ہیں، اور اسی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے ترکمانستان کے عالمی امن میں کردار کی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے فورمز کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ ممالک اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر مشترکہ تعاون کی طرف قدم بڑھائیں اور صفر جمع سوچ کو ترک کر کے تعاون کو فروغ دیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب نہ صرف عالمی امن کے فروغ کے لیے پاکستان کی پختہ عزم کا عکاس ہے، بلکہ یہ عالمی برادری کو اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ عالمی سطح پر امن کا قیام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ مشترکہ تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ اور اس کی سرزمین سے اُٹھنے والے خطرات ایک سنگین مسئلہ ہیں جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینی ہوگی۔ پاکستان کا کردار ہمیشہ سے عالمی امن کی کوششوں میں نمایاں رہا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کا امکان
پاکستان میں 16دسمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11روپے تک کی کمی کا امکان ہے، جو عوام کے لیے خوش آئند خبر ہے۔ اگر یہ کمی عملی طور پر نافذ ہوتی ہے تو پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی دیکھنے کو ملے گی، جس کا براہ راست فائدہ عوام کی جیب پر پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق پٹرول 36پیسے، ہائی سپیڈ ڈیزل 11روپے 85پیسے، مٹی کے تیل 11روپے 70 پیسے اور لائٹ ڈیزل 10روپے 1پیسہ فی لٹر سستا ہونے کا امکان ہے۔ اس کمی کے پیچھے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی اور حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عوامی مفاد میں کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں کارفرما ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھائو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کے ساتھ ملک کی معیشت کو بھی ہو گا، کیونکہ اس سے نقل و حمل کی لاگت کم ہوگی، جو اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنے گی۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اثر معیشت کے مختلف شعبوں پر پڑے گا۔ سب سے پہلے، نقل و حمل کی قیمتوں میں کمی کی توقع ہے، جو سامان کی ترسیل اور عوامی ٹرانسپورٹ پر براہ راست اثر ڈالے گی۔ اس کا فائدہ کاروباری طبقے کو ہوگا کیونکہ مال کی ترسیل کے اخراجات کم ہوں گے، جس سے قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے اور کاروبار کو سہولت ملے گی۔ اس کے علاوہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے زرعی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ کھیتوں تک ایندھن کی فراہمی سستی ہوگی، جس سے فصلوں کی کاشت اور زرعی مشینری کے استعمال کی لاگت کم ہو گی۔ نتیجتاً، کسانوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی، جو کہ خوراک کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنے گی۔ عوام کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انہیں روزمرہ کی زندگی میں سستی پٹرولیم مصنوعات ملیں گی۔ خاص طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی سے عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت سستی ملے گی، جس سے ان کی روزمرہ کی آمد و رفت کی لاگت کم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ، چونکہ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں معاشی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہیں، اس کمی سے پورے ملک کی معیشت میں کچھ مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے متعلقہ محکموں کے ذریعے ابتدائی ورکنگ تیار کی ہے اور قیمتوں کی کمی کی سمری 15دسمبر کو منظوری کے لیے ارسال کی جائے گی۔ اس عمل میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، جس سے عوام کو اس فیصلے کے براہ راست فوائد ملیں گے۔





