Column

پاکستانی طلبہ کا برطانیہ بحران

پاکستانی طلبہ کا برطانیہ بحران
تحریر : عامر اسماعیل
برطانیہ کا نظام تعلیم دنیا بھر میں اپنے قدیم و جدید و معیار کے اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، تحقیق و ایجادات کے اعتبار سے یہاں کی بڑی جامعات آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتیں، خاص بات یہ کہ ان جامعات میں دنیا بھر کے طلبہ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اس تنوع کے ماحول میں ایک دوسرے کے تہذیب ثقافت تمدن عادات وغیرہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو طلبہ کے ذہنی نشو و نما اور سوچ فکر کی صلاحیت میں مزید نکھار کا سبب بنتا ہے، الگ الگ ممالک کے طلبہ آپس میں مکالمہ کرتے ہیں ،بات چیت ہوتی ہے، طلبہ یونینز کے باقاعدہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، دوستیاں اور نیٹو ورکنگ کا موقع ملتا ہے، بین الاقوامی اساتذہ سے استفادہ میسر آتا ہے، نئے طرز تعلیم سے واسطہ پڑتا ہے، ایونٹس اور پروگرامز تشکیل پاتے ہیں، مختلف اہم ایام کے موقع پر سب کو اپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی اجازت ہوتی ہے یعنی اس ماحول سے سیکھنے کے ساتھ ساتھ پروفیشنل لائف میں اس تنوع کے ماحول سے بیشمار مواقع پیدا ہوتے ہیں، ہم جیسے مڈل کلاس نوجوانوں کے لئے برطانیہ آنا محض ایک خواب ہی کی صورت ہوتا ہے جسے کسی معجزہ کے انتظار کے بعد ہی شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے، معجزہ بھی یوں کہ اولا تو گھریلو حالات اجازت نہیں دیتے کہ پچاس ستر لاکھ روپے خرچ کرکے اعلی تعلیم کے لئے بچوں کو برطانیہ جیسے ملک بھیجا جائے دوئم اگر وسائل ممکن بھی ہو جائیں تو مائیں واپس نہ آنے کے خوف سے بچوں کو پردیس بھیجنے کا فیصلہ ترک کرنے کا مشورہ دیتی ہیں، گھر اور باہر اردگرد کے خاص ماحول سے ایکدم کسی دوسرے ایسے ماحول میں جانا جہاں تہذیب ثقافت رہن سہن زبان لباس سب ایک دوسرے زاویے میں ہوں یقینا ابتدائی وقت میں ڈھال لینا خاصہ مشکل کام ہوتا ہے، کھانا بنانا ، کپڑے دھونا پریس کرنا ، شوز پالش کرنا ، برتن دھونا، گھر کی صفائی کرنا ، کام کاج اور یونیورسٹی کے لئے اپنا شیڈول مینج کرنا الغرض یہاں ماں کی صفات کا مظہر خود ہونا پڑتا ہے، پردیس کسی وقت میں سعودی عرب یا مشرقی وسطی ممالک جانا تصور کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ تین، چار سال سے یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ نے بریگزٹ کے بعد اپنے دروازے دنیا بھر کے طلبہ کے لئے کھول دئے، یوں اچانک سے برطانیہ میں دنیا بھر کے طلبہ آنا شروع ہوئے، یورپی ممالک کے رہائشی باشندوں نے واپس جانا شروع کیا اور سائوتھ ایشیا سے خاص طورپر پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے لاکھوں طلبہ گزشتہ دو، تین سال سے اعلیٰ تعلیم کے غرض سے برطانیہ آئے ، ان ممالک میں سے بھی زیادہ تعداد بھارتی طلبہ کی ہے جو یہاں حصول تعلیم کے لئے آئے، برطانوی حکومت نے بریگزٹ کے اثرات اور نقصانات کو زائل کرنے کے لئے یہاں تعلیمی ویزا کے حصول کو آسان بنایا جس میں سب سے پرکشش کام طلبہ کو ایک سال تعلیم مکمل کرنے کے بعد دو سال تک یہاں رکنے اور کام کی تلاش کرنے کا موقع فراہم کرنا اور دوسرا ایک ہفتہ میں بیس گھنٹے کام کرنے کی اجازت دینا تھا جس سے وہ یہاں اپنے اخراجات کو برداشت کر سکیں، اس سے قبل تعلیمی ویزا پر آنیوالے طلبہ کو یہ مواقع دستیاب نہیں تھے گویا حکومت نے خود ہی ایٹریکشن پیدا کرکے امیگریشن پالیسیز کو آسان بنایا تاکہ یہاں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیا جاسکے، تاہم اسمیں کوئی شک نہیں کہ شاید برطانوی سرکار بھی اس دلچسپی سے لاعلم تھی کہ اس تعداد کے اعتبار سے طلبہ برطانیہ کا رخ کرینگے، ایک طالب علم کو ہزاروں پائونڈ سالانہ فیس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں، مزید کام کی تنخواہ پر ٹیکس الگ یعنی اب نجی تعلیمی شعبہ کو باقاعدہ انڈسٹری کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے، افرادی قوت کی کمی پورا ہونے اور بیلن پائونڈ منافع کمانے کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کو بڑا چیلنج اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کا یہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسائلمز یعنی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستوں کا موصول ہونا ہے، برطانوی امیگریشن طلبہ کے ان رویوں اور رجحانات سے تشویش میں ہے کہ تعلیمی ویزا کی حصول کو بطور راستہ استعمال کیا جارہا ہے، ایک اندازے کے مطابق سال 2024۔2025ء میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ جبکہ گیارہ ہزار سے زائد مختلف طرح سے برطانیہ آنیوالے پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کے لئے درخواست دے رکھی ہے، یہ تعداد گزشتہ سالوں میں مجموعی طور پر اس سے کئی زیادہ ہے، جو ایک الارمنگ صورتحال ہے، اس اعداد و شمار کے پیش نظر برطانوی حکومت نے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، خبروں کے مطابق اب تک نو سے زائد برطانوی جامعات نے پاکستان و بنگلہ دیش کے طلبہ کے داخلے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر جامعات کو برطانوی ہوم آفس نے اپنی داخلہ پالیسی پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کے لئے دس فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد سے بھی کم کرنے کا کہا ہے اگر جامعات اس پالیسی کی خلاف ورزی کرینگی تو ایسی جامعات کے لائسنس ختم کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے، یہ ابتدائی مرحلے کا عمل ہے، برطانوی حکومت میں داخلہ کی وزیر شبانہ محمود کے خاندان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اس واسطے انہیں سائوتھ ایشیائی ممالک کے باشندوں کے رویوں کا ادراک ہے جس سے نبرد آزما ہونا ان کے لئے مشکل بات نہیں، وہ اس سے قبل حصول تعلیم کے لئے آئے طلبہ کی سیاسی پناہ کی درخواست دینے پر پابندی عائد کرنے اور موجودہ درخواستوں کو جلد نمٹانے کا اعلان کر چکی ہیں، حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں کیونکہ ان فیصلوں کے پیچھے عوامل کے آثار پہلے ہی نظر آنا شروع ہوچکے تھے، ہر طالب علم جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا قانونی رہائشی سٹیٹس مکمل کرتا ہے اس دوران اپنے لئے جاب تلاش نہیں کر پاتا تو سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے، طلبہ سے گنجان آباد برطانیہ بعض اوقات سٹریس اور فریسٹریشن بھی بڑھا دیتا ہے، طلبہ کے رش میں جاب کی تلاش کرنا آسان بھی نہیں ہے، بھاری بھرکم فیسوں اور ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے گویا ابھی گزشتہ قرض کی رقم مکمل ادا نہیں ہوئی تو واپسی اپنے ملک جانے کا فیصلہ کیسے کیا جائے لہذا بہتر مستقبل کے خواب لئے اس دشوار راستے کا انتخاب کیا جاتا ہے، حکومت کی ان پابندیوں اور سخت اقدامات کا فیصلہ اور ذمہ داری پاکستانی طلبہ پر ہوتی ہے ، یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ وقتی بنیادوں پر ہو تاہم اس صورتحال تک قابو پانے تک یہ سختیاں پاکستانی طلبہ کے لئے برقرار رہیں گی، امیگریشن میں بہتر سکریننگ، انٹرویوز، مالی تصدیق کا عمل اور میکنزم پہلے بھی موجود ہے لیکن مسئلہ یہاں آنے کے بعد طلبہ کے رویوں کا ہے، جامعات میں حاضری کی عدم دلچسپی ، بروقت فیس کی ادائیگی نہ کرنا، تعلیمی میکنزم کی خلاف ورزی کرنا جیسے رویوں سے جامعات اب مزید سخت فیصلے کر رہی ہیں ، اس بحران سے قطعی اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کا رویہ بدل رہا بلکہ عام بات یہی ہے کہ غلطی پر طلبہ ہی ہیں، کیونکہ یہ بظاہر اعتماد کا بحران نہیں ہے نہ ہی کسی سیاسی مقصد کا حصہ وگرنہ پہل حکومت کی طرف سے کی جاتی، سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے طلبہ کو ایسے غیر سنجیدہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس کے باعث نافذ شدہ نئی پالیسیوں سے یہاں مقیم اور نئے آنیوالے طلبہ متاثر ہوں ، ایسے پاکستانی طلبہ کی وجہ سے واقعتا حصول تعلیم کے لئے آنیوالے طلبہ کے لئے بھی دروازے بند ہونگے، برطانوی جامعات سے تعلیم حاصل کرنا یہاں کے ماحول میں وقت گزارنا کسی بھی عام طالب علم کو بہتر بنا سکتا ہے، یہاں کے مقامی باشندے وقت کام اور گھریلو ذمہ داریوں کے اعتبار سے پرفیکٹ ہیں ، وقت کی قدر کرتے ہیں کام کو ترجیح دیتے ہیں یوں گھریلو زندگی کو پرسکون بناتے ہیں ، مواقعوں کو دیکھا جائے تو یہ سرزمین بارے یہی رائے ہے کہ یہ مستقل مزاجوں اور محنت کرنیوالے کو ان کا پھل ضرور دیتی ہے یہ بھی کہ جو برطانیہ پہنچ کر زندگی کی دوڑ میں آگے نہ بڑھ پایا وہ ساری دنیا میں بھی ناکام رہتا ہے، بین الاقوامی عالمی تعلیمی پالیسیوں کا حصہ ایسے اقدامات یقینا برطانوی حکومت کے لئے مشکل فیصلہ ہیں لیکن دونوں ممالک تعلیم کی خواہش کے لئے آنیوالے طلبہ کے لئے اس راستہ کو محفوظ بناکر مستقبل قریب میں اس کے غلط استعمال کو روک سکیں گے تاکہ یہ دونوں ملکوں میں تعلیمی اور سفارتی تعلقات پر اثر انداز نہ ہوں۔

جواب دیں

Back to top button