میں لارڈ مائونٹ بیٹن ہوں

تھرڈ امپائر
میں لارڈ مائونٹ بیٹن ہوں
تحریر: محمد ناصر شریف
لدھیانے کے دماغی شفا خانے میں ایک ذہنی مریض خود کو لارڈ مائونٹ بیٹن قرار دیتا تھا۔ سب ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک ایک دوسرے لارڈ مائونٹ بیٹن کو بھی داخل کر لیا گیا۔ لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے، دونوں اصل ہونے کے دعویدار تھے اور دوسرے کو نقلی قرار دیتے تھے۔ ہر بحث کا اختتام مار کٹائی پر ہوتا۔ بڑے ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا اور بتایا گیا کہ یہاں دو ایسے ذہنی مریض جمع ہو گئے ہیں جو دونوں ہی لارڈ مائونٹ بیٹن ہونے کے دعویدار ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ بڑے ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا ’’ دونوں کو ایک ہی کمرے میں بند کر دو، ایک مرتبہ دل بھر کر بھڑاس نکال لیں گے تو پھر سکون سے رہیں گے‘‘۔
دونوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ کچھ دیر لڑائی جھگڑے کی آوازیں آتی رہیں پھر خاموشی چھا گئی۔ بڑے ڈاکٹر صاحب فاتحانہ انداز میں مسکراتے رہے۔ پھر آدھے گھنٹے بعد انہوں نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
پہلا ذہنی مریض مسکراتا ہوا باہر نکلا تو ڈاکٹر صاحب نے پوچھا’’ تم کون ہو؟‘‘، اس نے سینہ پھلا کر کہا ’’ میں لارڈ مائونٹ بیٹن ہوں‘‘۔ پھر دوسرا ذہنی مریض باہر نکلا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: ’’ کیا تم اب بھی لارڈ مائونٹ بیٹن ہو؟‘‘، دوسرے ذہنی مریض نے کہا: ’’ نہیں میں اب لارڈ مائونٹ بیٹن نہیں ہوں‘‘۔ بڑے ڈاکٹر صاحب نے فخریہ انداز میں سر اٹھا کر اپنے شاگردوں کو لیکچر دینے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک چھوٹے ڈاکٹر نے بے تاب ہو کر اس ذہنی مریض سے پوچھا :’’ پھر تم کون ہو؟‘‘۔ ذہنی مریض نے کہا: ’’ میں لیڈی مائونٹ بیٹن ہوں‘‘۔
کسی کو ذہنی مریض قرار دیکر آپ اس کو بہت ساری چھوٹ دیتے ہیں، مختلف امور میں وہ قابل گرفت نہیں ہوتا، ذہنی مریضوں کیلئے رعایتیں مختلف ممالک اور اداروں کے لحاظ سے بدلتی ہیں لیکن عام طور پر ان میں مفت یا رعایتی علاج، ادویات پر سبسڈی، پنشن، ٹرانسپورٹ اور پارکنگ میں رعایتیں، روزگار میں تحفظ، اور خصوصی تعلیم کی سہولیات شامل ہو سکتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 40فیصد سے زیادہ آبادی یا تین ارب سے زیادہ لوگ اعصابی امراض سے متاثر ہیں۔ فالج، آدھے سر کا درد، گردن توڑ بخار، الزائمر اور کئی طرح کی دماغی کمزوری کا شمار 10عام عصبی بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ قبل از وقت پیدائش، آٹزم اور اعصابی نظام کے سرطان سے جڑی پیچیدگیاں بھی انہی امراض میں شمار ہوتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جیریمی فیرر نے کہا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی دماغی صحت کے کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے تو ایسے میں وہ سب کچھ کرنا بہت ضروری ہے جس سے لوگوں کو درکار طبی سہولیات میں بہتری آ سکے۔ بہت سی اعصابی بیماریاں قابل علاج یا قابل تدارک ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود زیادہ تر مریضوں بالخصوص دیہی اور غریب علاقوں میں لوگوں کو ان سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک تہائی سے بھی کم ممالک نے ان بڑھتی ہوئی بیماریوں سے نمٹنے کیلئے کوئی قومی پالیسی ترتیب دی ہے۔
کم آمدنی والے ممالک میں دماغی و عصبی امراض کے ماہرین کی تعداد امیر ممالک کے مقابلے میں 80گنا کم ہے۔ علاوہ ازیں، اعصابی امراض میں مبتلا بیشتر افراد کیلئے بنیادی طبی سہولیات تک رسائی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ صرف 25 فیصد ممالک ہی ایسے ہیں جنہوں نے عصبی امراض کو یونیورسل ہیلتھ کوریج کا حصہ بنایا ہے ۔ کم آمدنی والے ممالک کے بیشتر ہسپتالوں میں فالج کے خصوصی یونٹ نہیں ہوتے اور بچوں کیلئے عصبی امراض کے علاج کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ ایسی بیشر سہولیات عموماً شہری علاقوں تک محدود رہتی ہیں اور دیہی یا غریب علاقے اس سے محروم ہوتے ہیں۔
عصبی یا ذہنی امراض عموماً تاعمر دیکھ بھال کا تقاضا کرتے ہیں تاہم صرف 46ممالک ایسے ہیں جہاں نگہداشت فراہم کرنے والوں کیلئے مخصوص خدمات دستیاب ہیں اور صرف 44ممالک نے ایسے افراد کیلئے قانونی تحفظات وضع کئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ عصبی امراض کو اپنی پالیسیوں میں ترجیح دیں اور مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج کو فروغ دے کر تمام لوگوں کو ان بیماریوں کی دیکھ بھال تک رسائی دی جا سکتی ہے اور دماغی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور مجموعی طبی نظام کو مضبوط بنا کر ان بیماریوں پر بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں صحت کے بجٹ کا صرف 2فیصد ذہنی صحت کیلئے مختص ہے اور ڈپریشن کے شکار صرف 9فیصد افراد کو ہی علاج میسر ہے، باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ذہنی صحت ایک سنگین مسئلہ بن چُکی ہے۔ مختلف تحقیقات کے مطابق، مُلک کی تقریباً 31فیصد بالغ آبادی کسی نہ کسی ذہنی بیماری، کیفیت یا دبائو میں مبتلا ہے۔ ان میں سب سے عام مرض افسردگی (Depression)ہے، جس کی شرح اوسطاً 17سے 18فیصد ہے، دوسرا عام مرض اضطراب ہے، جو خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے اور دباؤ زدہ ماحول میں رہنے والوں میں 50فیصد سے زائد پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کی بڑھتی شرح میں سب سے اہم عُنصر منشیات کا بڑھتا استعمال ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک میں70سے80لاکھ افراد کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں، جبکہ نوجوان طبقہ اِس سے زیادہ متاثر ہے۔ یونیورسٹیز، کالجز یہاں تک کہ اسکولز میں بھی منشیات، خصوصاً الیکٹرانک سگریٹ(Vape)کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پہلے روایتی منشیات، جیسے ہیروئن اور چرس وغیرہ، زیادہ عام تھیں لیکن اب آئس (Methamphetamine) جیسا خطرناک نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے، جسے اکثر طلبہ امتحانات یا دیگر معاملات میں کارکردگی بڑھانے یا سُرور حاصل کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا بے جا اور غیر متوازن استعمال ہماری ذہنی اور نفسیاتی صحت کیلئے ایک سنگین چیلنج بن چُکا ہے۔ یہ صرف وقت کا زیاں نہیں بلکہ ہمارے دماغی اور جذباتی نظام کو کئی طریقوں سی متاثر کرتا ہے۔ موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز پر ہائی سکرین ٹائم نے ایک ایسی’’ ڈیجیٹل تنہائی‘‘ کو جنم دیا ہے، جہاں فرد ہزاروں دوستوں سے آن لائن جڑا ہوتا ہے، لیکن حقیقی دنیا میں مکمل طور پر اکیلا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ذہنی صحت کا ڈھانچہ اِس بڑھتے بحران سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہے۔ اِس ضمن میں ماہرین کی قلّت، فنڈز کی کمی اور اس سے وابستہ سماجی یا معاشرتی بدنامی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پنجاب، لاہور میں Punjab Institute of Mental Health پاکستان کا سب سے بڑا نفسیاتی اسپتال ہے، جس کی تاریخ 1900ء کی دہائی سے وابستہ ہے۔ یہ نہ صرف مریضوں کو علاج فراہم کرتا ہے بلکہ ماہرینِ نفسیات کی تربیت اور تحقیق کا بھی مرکز ہے۔ اس کے علاوہ فیصل آباد، ملتان اور راول پنڈی کے تدریسی اسپتالوں میں بھی سہولتیں میسّر ہیں۔ سندھSindh Mental Health Authority قیام ایک مثبت قدم ہے۔
ذہنی صحت کا فروغ اور نفسیاتی امراض کی روک تھام صرف حکومت ہی کا نہیں، پورے معاشرے کا فریضہ ہے۔ جس طرح ہم جسمانی بیماریوں کے علاج کو ضروری سمجھتے ہیں، اِسی طرح ذہنی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے۔ ایک صحت مند، ترقّی یافتہ معاشرے کا قیام تب ہی ممکن ہے، جب ہم اس کے ہر فرد کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔ جہاں کوئی بھی فرد ذہنی امراض سے مشروط غلط تصوّرات، توہمّات، مفروضات یا لاعلمی کی وجہ سے اپنے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔وطن عزیز ذہنی امراض کے لحاظ سے صف اول کے 10ممالک میں شامل ہے جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ اِس مشینی اور جدید دور میں بہت ساری آسائشوں اور سہولیات کے باوجود انسان کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے ڈپریشن یا ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت پاکستان میں 50ملین یعنی 5 کروڑ افراد مختلف قسم کے نفسیاتی امراض اور ڈپریشن کے مریض ہیں۔ مزاج کا چڑچڑاپن، غصہ، اداسی، نیند اور بھوک کا ڈسٹرب ہونا، وزن میں کمی بیشی، یکسوئی واعتماد میں کمی اور مایوسی کا در آنا ذہنی صحت کے متاثر ہونے خصوصاًاسٹریس اور ڈپریشن کی علامات ہو سکتی ہیں۔
پاکستان سائیکائٹرک سوسائٹی کیمطابق پاکستان میں ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی 25 فیصد آبادی کو کسی نہ کسی نفسیاتی یا ذہنی مرض کا سامنا ہے۔ پاکستان نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 24کروڑ کی آبادی میں مجموعی طور پر 6کروڑ افراد کے مختلف ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ذہنی و نفسیاتی عارضے کسی ایک طبقے یا صنف تک محدود نہیں ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، بچے ہوں یا بوڑھے روز مرّہ زندگی کے مسائل سے اُلجھ کر نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
460قبل از مسیح میں مشہور یونانی طبیب بقراط نے بتایا تھا کہ ذہنی امراض کا علاج پیار محبت، ہمدردی اور ادویات میں موجود ہے لیکن بعد میں ذہنی امراض کو جادوگری کا نام دیا گیا اور علاج کیلئے طرح طرح کے ظالمانہ طریقے آزمائے گئے۔ مریضوں کو رسیوں اور زنجیروں سے باندھ دیا جاتا اور آبادی سے دور تنہا چھوڑ دیا جاتا۔ وقت گزرنے کیساتھ اتنی ترقی ہوئی کہ ذہنی مریضوں کیلئے اسپتال بن گئے لیکن ان میں سے اکثر کسی اذیت خانے سے کم نہیں تھے۔ 1700کے بعد حالات میں بہتری آنا شروع ہوئی اور ذہنی و نفسیاتی امراض پر تحقیق اور مطالعہ کا آغاز ہوا اور 1800کے بعد شدید ذہنی عارضوں کیلئے ادویات تیار کی گئیں۔
گزشتہ دنوں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو نام لئے بغیر ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپنی ذات کا قیدی ایک شخص اور اس کا بیانیہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ہے، ایک شخص کی خواہشات اس حد تک بڑھ چکی ہیں وہ کہتا ہے میں نہیں تو کچھ نہیں‘، وہ کہتا ہے کہ میری پارٹی کا جو بندہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی گیا وہ غدار ہے، اس کی منطق یہ ہے کہ جو پاک فوج سے تعلق رکھے وہ غدار ہے’’ جو آئی ایس پی آر جائے وہ غدار ہے، تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟ کون ہو تم جو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہو؟ وہ ( عمران خان) ایک مانے ہوئے غدار شیخ مجیب الرحمان سے متاثر ہیں، یہ بار بار اس کی مثالیں دیتا ہے، اس کی سیاست تعریف یہ ہے کہ اگر میں اقتدار میں ہوں تو جمہوریت ہے ورنہ آمریت ہے، آپ کی سیاسی شعبدہ بازی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
یقینا عمران خان کا بیانیہ ملک کیلئے خطرہ ہے تو آپ اس کو ذہنی مریض قرار دیکر میڈیکل گرائونڈ پر رعایتیں ملنے کا مستحق کیوں قرار دے رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ علاج کیا جائے۔ وہ خود کو اگر لارڈ مائونٹ بیٹن کہہ رہے ہیں تو علاج کرانا ریاست کی ذمے داری ہے۔





