’’ پر سانوں کی‘‘

’’ پر سانوں کی ‘‘
کالم نگار : تجمّل حسین ہاشمی
جناب محترم اشفاق احمد کہتے ہیں ’’ ہم ماضی کی گندی پوتڑیوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں‘‘۔
ہم نئی نسلوں کو اپنا ماضی ورثے میں دے کر جاتے ہیں، جس ماضی میں آگ، نفرت کے سوا کچھ نہیں، اپنی نسلوں کی ترقی کی ہمیں پروا نہیں تو ملکی ترقی کی کیسے پروا ہو گی، جب قانون طاقتور کا رکھوالا بن جائے تو ہر بندہ اپنے مسائل طاقت سے حل کرنے کی کوشش کرے گا، جو عام رواج بن چکا ہے ، آئین کی پامالی اسی کا نام ہے اور پامالی کیا ہو گی۔ ہم سال ہا سال جھوٹی انا کے چکر میں جھوٹے مقدمات کے چکر میں اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں، لیکن پیچھے ہٹنے، راضی نامے کیلئے تیار نہیں ہوتے، یہی مسئلہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں، سیاسی ایوانوں کا ہے، یہاں پر بھی ماضی کی تلخیوں پر مٹی دلانے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر ان کو تازہ کیا جاتا ہے، جھوٹے مقدمات کی بھرمار ہے۔ یہی تلخیاں اب ہماری نئی نسل میں منتقل ہو چکی ہیں، جو اس وقت آبادی کا بڑا حصہ ہیں، نئی نسل بنیادی حقوق سے محروم، ہاتھوں میں ڈگری لئے سرکاری دفتروں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں، اس وقت یہی نوجوان مجبور ہیں جن پر حکومت انحصار کر رہی، جن کو قوم کا اثاثہ کہتے ہیں۔ اگلے دن جناب محترم رئوف کلاسرا نے ایک شادی کا واقعہ تحریر کیا، جس میں بیٹی ماں کو کہہ رہی تھی کہ وہ رئوف کلاسرا لگ رہے ہیں؟، استاد کہتے ہیں میں مڑا اور ماں ؍ بیٹیوں کو کہا جی میں رئوف ہی ہوں۔ وہ تینوں ہنس پڑیں کہ او ہو آپ نے تو سن لیا۔ خیر ان میں سے ایک لڑکی بولی سنائیں ہمارا ملک کیسے چل رہا ہے؟ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی جہاں شادی لان میں ہر طرف خوبصورت چہرے، ہنستے مسکراتے کھاتے پیتے لوگ گپیں مار رہے تھے اور سب خوش باش لگ رہے تھے۔ میں نے کہا دیکھیں کیسے ہر طرف خوشی پھیلی ہوئی ہے۔ سب خوش ہیں۔ اور کیا خوشی چاہئے؟۔ وہ لڑکی بولی یہ خوشی تو ہماری ہے۔ ہماری شادی کا فنکشن ہے۔ ہم خود یہ خوشی منا رہے ہیں۔ حکومت نے ہمیں کیا خوشی دی ہے ؟، اس کا بتائیں۔ اس میں حکومت کا کیا کارنامہ ہے؟، کلاسرا صاحب لکھتے ہیں کہ اب شرمندہ ہونے کی میری باری تھی‘‘۔
ویسے کلاسرا صاحب جن کو شرمندہ ہونا چاہئے تھا وہ تو کمروں میں بیٹھ کر موجودہ صورت حال کو دیکھ کر انجوائے یا بس یہی کہ رہے ہوں گے ’’ پر سانوں کی ‘‘۔ ان خاموش رہنے والے مشیروں کی ہر دور حکومت میں چاندی ہوتی ہے، ان کو ملکی کش مکش سے ہی تو لینا دینا ہے۔ ایسے حالات میں ان کو زیادہ فائدہ یا مزہ ملتا ہے ، ان مشیروں کو امن استحکام اچھا نہیں لگتا۔ ملک میں افراتفری ہو تو ان کا منافع کئی گنا زیادہ بنتا ہے۔ وہ اپنے مزے میں ہیں۔ ان کا مال اور دام دونوں بکتے ہیں، وہ کیوں چاہیں گے کہ سیاسی امن رہے۔ ملک میں امن رہے، یہ مشیر ہمارے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ’’ بزی‘‘ رکھنا چاہتے ہیں، امریکی صدر رچرڈ نکسن سے کسی نے پوچھا کہ آپ سمجھ دار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ، دور اندیش انسان ہیں لیکن آپ کی حکومت اپنے سال پورے نہیں کر سکی، نکسن امریکہ کا واحد صدر تھا جس نے خود استعفیٰ دیا۔ رچرڈ نکسن نے جواب دیا ’’ حکمران کسی کو بھی وزیر بنا دے لیکن مشیر کا انتخاب کرتے ہوئے اسے سوچ سمجھ لینا چاہئے ‘‘، فیصلہ سازوں یا حکمرانوں کے مشیر ہی اس کا کام لگا دیتے ہیں۔ حکومتی مشیر اگر وفادار، محب وطن ہو تو پھر ملکی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت ہماری حکومت کے مشیر سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کے حق میں نظر نہیں آتے، جس کی وجہ سے سیاسی تپش میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے، ماضی کی تلخیوں کو چھوڑنے کو سیاسی حلقے تیار نہیں ہیں، بظاہر صورتحال اچھی نظر نہیں آ رہی، یہ بڑی خطر ناک سوچ ہے، لیکن اس بار یہ مشیر بھی نہیں بچ سکیں گے، ملکی صورتحال انتہائی سخت موڈ میں ہے،۔ ملکی سلامتی، اس کے تحفظ کے لیے اندرونی و بیرونی مشیروں کو حالات نارمل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، لیکن وہ خاموش ہیں۔ اس بار بچت مشکل ہے، حکومتی رٹ اور اداروں کے تقدس کا احترام ہر فرد پر لازم ہے، خواہ وہ سیاسی جماعت کا لیڈر ہی کیوں نہ ہو، خود کے احترام کیلئے دوسرے کا احترام لازم ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دوسرے کی توہین کریں اور انہی سے عزت کا تقاضہ رکھیں۔ ہمارے ہاں حکومتی اور عوامی سطح پر ایسے رویے پائے جاتے ہیں بلکہ ہماری بنیادوں میں سرایت کر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا ہونا چاہئے کیا نہیں ہونا چاہئے، انتہائی سادہ اور صاف سیدھی بات، انصاف کے عمل کو یقین بنائیں، آئینی تقدس بحال رکھیں۔ حضور پاکؐ کے فرمان پر چلیں، اس کے بعد تو باقی کچھ نہیں بچتا، یہ زمین و آسمان اللّہ پاک نے حضورؐ کی ذات اقدس کیلئے تخلیق کئے ہیں، حضورؐ کے احکامات کو عملی طور پر تسلیم کرنا لازم ہے، ورنہ کچھ باقی نہیں بچے گا، قدرت کا انتقام سب صاف کر دے گا۔ ابھی بھی وقت ہے۔ پاکستان کو صرف اسلامی نظام ہی توانا بنا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے احکامات پر جلدی عمل کرائیں۔ سودی نظام کا خاتمہ کریں۔ ملک اپنی اصل ڈگر پر ا جائے گا ، کوئی فرد یا ادارہ ریاست سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ جو بھی پاکستان مخالف بیانیہ یا مہم شروع کرے گا قوم اس کے مخالف کھڑی ہو گی، ملک کی سلامتی ہر فرد پر لازم و ملزوم ہے، اب کوئی بیانیہ ملک یا اداروں کے مخالف قابل قبول نہیں ہو، سخت فیصلے کی گھڑی ہے۔





